خوشا کہ محفلِ عرق و ایاغ روشن ہو
ملے ہیں یار تو شامِ فراغ روشن ہو
بھڑک رہی ہے سبھی جا ہوس لکیروں میں
کہیں تو جادۂ دل کا سُراغ روشن ہو
میں تھک گیا ہوں ستارے کشید کرتے ہوئے
خدائے شب مرے سینے کا داغ روشن ہو
کبھی تو یوں بھی شبِ ہجر مجھ کو راس آئے
میں تجھ کو یاد کروں اور چراغ روشن ہو
ہر آگہی میں فروزاں ہے صد شرارِ جنوں
کھُلے نہ عشق تو کیسے دماغ روشن ہو
بہارِ لالہ و گُل مضمحل ہے مدّت سے
وہ ماہ رُخ اِدھر آئے تو باغ روشن ہو
میں روشنی کی وہ تعبیر لکھ رہا ہوں جہاں
ہوا کا ہاتھ پکڑ کر چراغ روشن ہو
نہ کارِ دل ہی سکوں ہے نہ کاروبار سعیدؔ
کہاں سے گھر مرے شمعِ فراغ روشن ہو
٭٭٭
لگے بھی دل، کسی پہلو مگر سکوں بھی نہ ہو
لہو میں اس قدر آمیزشِ جنوں بھی نہ ہو
کیا ہے جیسے محبت نے دربدر ہم کو
کوئی کسی کی طلب میں خراب یوں بھی نہ ہو
لہو رُتوں میں کہاں سے میں فاختہ کے لئے
وہ شاخ لاؤں کہ جس پر لکیرِ خوں بھی نہ ہو
وہ زخم کیا جو کسی جاں کو روشنی بھی نہ دے
وہ رنج کیا جو روایت گرِ جنوں بھی نہ ہو
وصال و ہجر کے نشّے بدل کے دیکھ لیا
قرار یوں بھی نہ آئے، قرار یوں بھی نہ ہو
ہمیں تو عشق عبادت کا معجزہ ہے سعید
عزیزِ جاں ہیں وہ سجدے کہ سر نگوں بھی نہ ہو
٭٭٭