غزلیں۔۔۔۔ محمد خالد

کھل گیا نہ ہو کسی اور طرف باب مرا
کہیں آوارۂ غربت ہی نہ ہو خواب مرا

خطہ خاک میں کچھ خاک پہ تہمت میری
سر افلاک کوئی خیمۂ ماہتاب مرا

دل آوارہ کہیں چشم کہیں خواب کہیں
کیسا بکھرا در آفاق پہ اسباب مرا

خواہش جاں بھی لرز جاتی ہے ہر اشک کے ساتھ
میری مٹی کو بھی لے جائے نہ سیلاب مرا

دل کہاں اور کہاں شورش پیہم دل کی
کس تمنا میں رواں ہے تن بیتاب مرا
٭٭٭

کچھ کارِ عناصر تہہِ دریا بھی عجب ہے
اِس خاک میں پنہاں کوئی شعلہ بھی عجب ہے

دُنیا سے کچھ ایسا بھی نہیں ربط ہمارا
سنتے ہیں مگر لذتِ دنیا بھی عجب ہے

ہے دل ہی کسی آرزوئے وصل کا مسکن
دل کا مگر اس راہ پہ آنا بھی عجب ہے

وہ دید ہے اب عالمِ موجود سے آگے
اس ساعتِ مسعود کا دھوکا بھی عجب ہے

طے ہوتی چلی جاتی ہے بے فیض مسافت
اس راہ میں دیوار کا آنا بھی عجب ہے

کھلتا نظر آتا ہی نہیں ہے گُلِ اُمید
جاتا ہی نہیں دل سے یہ دھڑکا بھی عجب ہے

اس زیست پہ صحرا کا گماں تک نہیں ہوتا
اے نخلِ محبت! ترا سایہ بھی عجب ہے
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے