شان نزول
ستر کی دہائی میں جب میں نے جدید ادبی نظریات اور بالخصوص ساختیات اور اس کے اطلاقی اور عملیاتی پہلوں پر کام کرنا شروع کیا تو یہ کرید بھی ہوئی کہ اردو میں ساخیتاتی لسانی اور ادبی نظرئیے میں کن مثالوں کے ساتھ اس نظرئیے اور مناجیات کا اطلاق کیا جائے؟ پہلے تو کئی سال گہرا مطالعہ کیا مگر اس سلسلے میں اپنے سے پہلے اردو میں ناقدین اور محققین سے کچھ اشارے تک نہیں ملے اور میرے ہم عصر اردو کے ادبی دانش ور بھی اس پر مجھ سے نہ کوئی بات کر سکے اور نہ ان سے کوئی رہنمائی ملی اور مجھے اس وقت اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ اردو تنقید اور تحقیق کا فکری اور مناجیاتی ڈھانچہ بالکل کھوکھلا ہے۔ اس پر کوئی بات کرنے کو تیار نہیں۔ لہذا میں نے اپنے طور پر کام کرنا شروع کر دیا۔ ساختیات کا سب سے قریبی تعلق متنی مطالعوں اور تجزیات سے ہوتا ہے۔ تو اسی تعلق سے میں نے اردو کے تنقیدی اور تحقیقی تحریروں کو گہرائی سے مطالعہ کیا۔ اس زمانے میں امریکہ میں تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ میں نے اپنی جامعہ کے شعبۂ انگریزی کے اساتذہ اور اس کے عالموں سے ساختیاتی نظرئے کے حوالے ’’متنی تجزیات‘‘ کی مناجیات اور طریق کار پر بات کی اور یہ تکنیک بھی سیکھی کہ کیسے متن کی قرات کی جائے اور اس کا تجزیہ کیسے کیا جائے؟
اس کے بعد میں نے اردو کے کئی نقادوں اور محققین کو پڑھا اور اس موضوع پر کے لیے مجھے امتیاز علی خان عرشی بہتر محسوس ہوئے۔ اور اس درویش منش محقق تحقیقی اور تنقیدی تحریروں کو بڑی مشکل سے جمع کیا، اور ساختیاتی اور متنی حوالے سے اس پر سوچ بچار کیا۔
امتیاز علی خان عرشی اردو کے شاعر، نقاد اور محقق تھے۔ ان کا عربی اور فارسی ادبیات کا بہترین مطالعہ تھا۔ اساسی طور پر وہ متنی نقاد تھے۔ ان کی تحریریں متنی نظرئیے کے حوالے سے ایک بھرپور سیاق اور پس منظر کی حامل ہوتی ہیں۔
ساختیات کے متنی رسائی ادبی متن کی تدوین اور ترتیب دینے کے بعد کے تحت قدیم مخطوطات اور نصوص کی بازیافت جن کی علمی، ادبی اور تاریخی اہمیت ہوتی ہے۔ ڈاکٹر الطاف حسین نقشبندی نے لکھا ہے ’’انھیں منشائے مصنف کے مطابق ترتیب دینا تدوین کہلاتا ہے۔‘‘ منشائے مصنف کے مطابق متن کو ترتیب دینے کے کچھ اصول و آداب ہیں اور بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان سے عہدہ بر آ ہونے کے بعد ہی کوئی مرتب کسی متن کو اچھی طرح ترتیب دے سکتا ہے۔ کسی بھی متن کو مرتب کرنے کے لئے سب سے پہلے مواد کا فراہم کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اس کی دو صورتیں ہیں پہلا یہ کہ وہ ایک جگہ موجود ہو دوسرا یہ کہ بکھری ہوئی حالت میں ہو۔ مثلاً کسی کا دیوان ہے یا تذکرہ یا پھر لغت ہے تو بس اس کا طریقہ یہ ہے کہ اصل مخطوطے سے اس متن کو نقل کر لیا جائے۔ مخطوطے کی بھی مختلف صورتیں ہوتی ہیں۔ جیسے خود مصنف کے ہاتھ کا لکھا ہوا، یا اس کا اصلاح کیا ہوا، یا کم از کم اس کی نظر سے گذرا ہوا۔ اس سے مختلف صورت یہ ہے کہ کسی متعلق یا غیر متعلق شخص نے مخطوطے کی کتاب کی ہو اور یہ مصنف کی نظر سے نہ گذرا ہو۔ پہلی صورت میں مصنف متن سے متفق ہو گا لیکن دوسری صورت میں نہیں۔ اس میں نقاد یا محقق کو عقل سلیم سے کام لینا چاہئے۔ جو ناقد یا محقق کو ’نقاد کی اساس تنقیدی‘ نظریے کے زیر اثر آ جاتا ہے۔ مگر نقد نگار اور محقق کو زیادہ موضوعی نہیں ہونا چاہے اس کو معروضی بھی ہونا چاہیے۔ تمام ممکن الحصول نسخوں اور ان کے ذیلی متعلقات کی دستیابی تدوین متن کا بنیادی لازمہ ہے۔
غالب اور امتیاز علی خان عرشی
امتیاز علی خاں عرشی کا اولین متنی کارنامہ 1937 میں ’مکاتیب غالب‘ کے نام سے سامنے آیا اور کوئی چھ سال بعد 1943 میں ’’انتخاب غالب‘‘ کا نصوصی/ متنی تدوینی کارنامہ چھپ کر قارئین کے ہم دست ہوا۔ یہ مرزا غالب کے اردو اور فارسی کا انتخاب تھا۔ جو غالب نے 1866 میں نواب رام پور کلب علی خان کو پیش کیا تھا۔ اور 1944 میں شاہ عالم چانی کے فارسی، برج بھاشا اور اردو دیوان ’’نادرات شاہی‘‘ کی انتقادی جلد شائع ہوئی۔
تحقیق و تدوین کا کام جس دیدہ ریزی اور جگر کاوی کا مطالبہ کرتا ہے امتیاز علی خاں عرشی اس پر پورے اترتے ہیں۔ اس تیز رفتاری اور سہل پسندی کے دور میں ان کے معیار کے بلند پایہ عالم اور محقق نایاب ہیں۔ ان کی ساری زندگی تحقیق و تصنیف کے کام میں بسر ہوئی، عرشی صاحب نے تصنیف و تالیف کی ابتدا اپنی تعلیم کے زمانے سے ہی پنجاب یونی ورسٹی میں کی۔ کچھ دنوں کے بعد رام پور ریاست کی عظیم الشان رضا لائبریری سے وابستہ ہو گئے، عربی فارسی انگریزی زبانوں سے گہری واقفیت کے ساتھ ساتھ شاعری بھی کرتے تھے۔ لیکن ان کا اصل میدان تحقیق و تدوین ہے۔ عرشی صاحب نے تحقیق کے میدان میں کار ہائے نمایاں انجام دئے۔ خاص طور سے غالبیات میں انھوں نے بہت اضافے کئے۔ مثلاً یوسف علی خان ناظم اور نواب کلب علی خاں کے نام غالب نے جو خطوط لکھے تھے، وہ رام پور کے دار الانشاء میں محفوظ تھے۔ عرشی صاحب نے ان خطوط کو ’’مکاتیب غالب‘‘ کے نام سے مرتب کیا اور 183 صفحات پر مشتمل طویل مقدمہ کے ساتھ 1937 میں شائع کیا۔ اس کے علاوہ فارسی اور اردو پر مشتمل ایک کتاب ’’انتخاب غالب‘‘ کے نام سے شائع کی۔ اس کتاب کا دیباچہ عرشی صاحب کی محققانہ علمیت کا مظہر ہے۔
غالب نے اپنے کلام میں بعض ایسے الفاظ استعمال کئے ہیں جو انھیں سے مخصوص تھے یا فارسی و اردو کے مشکل الفاظ کا استعمال کیا ہے جسے عام قاری سمجھنے سے قاصر رہتا ہے۔ لہذا عرشی صاحب نے ایک اہم کام یہ کیا کہ غالب کی اردوئے معلیٰ، عود ہندی، ابر گہر، انتخاب غالب، پنچ آہنگ، تیغ تیز، دستنبو، قاطع برہان اور غالب کی دوسری تخلیقات کی مدد سے انھوں نے فرہنگ تیار کی۔ جو 1947 میں ’’فرہنگ غالب‘‘ کے نام سے شائع ہوئی۔
جیسا کہ پیلے کہا گیا ہے کہ غالب شناسی میں عرشی صاحب کا ایک نمایاں کارنامہ ’’دیوان غالب نسخہ عرشی‘‘ کے نام سے بھی ہے۔ اس نسخہ میں غالب کے اردو کلام کو تاریخی ترتیب سے پیش کیا ہے۔ اس کے تین حصے ہیں پہلے حصے کا عنوان ’’گنجینہ معنی‘‘ ہے۔ اس میں غالب کے ابتدائی زمانے کا کلام ہے۔ دوسرے حصے کا نام ’’نوائے سروش‘‘ ہے۔ اس حصے میں وہ اشعار ہیں جو غالب کی زندگی میں کئی بار چھپ چکے تھے۔ تیسرے حصے کا نام ’’یادگار نالہ‘‘ ہے اس حصے میں غالب کے وہ اشعار ہیں جو متداول دیوان میں شامل نہیں ہیں۔ یہ وہ اشعار ہیں جو غالب کے دیوان کے کسی نسخے کے حاشیہ یا خاتمے یا کسی بیاض یا کسی خط میں موجود تھے۔ اس نسخے کے تینوں حصوں کے نام غالب کے اشعار سے ہی ماخوذ ہیں۔ ایک بار اس نسخے کے شائع ہونے کے بعد عرشی صاحب نے دوسری بار کی طباعت میں مزید چھان بین اور تلاش و جستجو کر کے نئے مآخذ کا استعمال کر کے اختلاف نسخ کو نہایت جامع انداز میں پیش کیا ہے۔
اس لحاظ سے نسخہ عرشی دوسرے تمام نسخوں کے مقابلے صحت متن اور اپنے مقدمہ کے اعتبار سے قابل قدر ہے۔ اس کا مقدمہ بہتر 72 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس بسیط مقدمے سے بہت سی نئی باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ اس نسخہ کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں منشائے مصنف کا حتی الامکان لحاظ رکھا گیا ہے۔ مثلاً غالب پاؤں کو پانو لکھتے تھے، خورشید کو خرشید، اور ذال والے لفظ کو ’ز‘ سے لکھتے تھے چنانچہ عرشی صاحب نے غالب کے اس مخصوص طرز کو مد نظر رکھا ہے۔
اپنے اسی مضمون میں محمد سعید صاحب نے نسخہ عرشی کے متعلق ایک اور رائے دی ہے جس میں اس نسخہ کے مشکوک ہونے کا اندازہ ہوتا ہے۔
’’۔۔۔۔ ۔۔ غالب چونکہ بعض الفاظ کے املا کے بارے میں اپنی منفرد رائے رکھتے تھے اور اپنی تحریروں میں اس کی پابندی بھی کرتے تھے۔ اس لئے جس طرح اصول تدوین کے مطابق متن کو منشا کے مصنف کے مطابق پیش کرنا ہوتا ہے۔ اس طرح املا بھی مصنف (خصوصاً غالب) کے منشا کے مطابق درج کرنا چاہئے اس لحاظ سے دیکھیں تو نسخہ عرشی طبع اول یا طبع ثانی دونوں میں غالب کے املا کی مکمل پیروی نہیں کی گئی جو اصول تدوین کے خلاف ہے۔‘‘ صائمہ پروین نے لکھا ہے “اس نسخے میں غالب کے کلام کو غالب کی منشا کے مطابق پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو کہ تدوین کا پہلا اصول بھی ہے۔ مولانا نے خود اپنے مقدمے میں وضاحت کی ہے کہ املا اور رسم الخط کے معاملے میں موجودہ اصول اور غالب کے اختیار کردہ اصول دونوں سے کام لیا گیا ہے۔ مثلاً غالب کا یہ اصول مشہور ہے کہ وہ ’خورشید‘ کو بحذف ’و‘ یعنی ’خرشید‘ لکھتے تھے۔ چنانچہ مولانا نے بھی اس نسخے میں ’خرشید‘ ہی لکھا ہے۔ مثلاً نسخۂ عرشی حصۂ قصائد میں صفحہ نمبر 7 کے چوتھے شعر میں لفظ ’خورشید‘ آیا ہے اور اس کو مولانا نے ’خرشید‘ لکھا ہے۔ شعر اس طرح ہے:
درست اس سلسلۂ ناز کے، جوں سنبل و گل
ابر میخانہ کریں ساغر خرشید شکار
اسی طرح غالب پاؤں کو پانو لکھتے تھے۔ ’ذ‘ لکھنا غلط قرار دیتے تھے اور اس کی جگہ ’ز‘ لکھتے تھے مثلاً زرا، گزر، رہگزر، گزارش وغیرہ۔ چنانچہ نسخۂ عرشی میں ان جیسے الفاظ غالب کی منشا کے مطابق لکھے گئے ہیں۔ مگر کہیں کہیں اس اصول سے انحراف بھی نظر آتا ہے۔‘‘ امتیاز علی عرشی نے غالب کی آخری اصلاح کی بجائے اپنی خوش ذوقی کی بنیاد پر بھی ترتیب دیا ہے۔ یہ بات تدوین متن کے اصولوں کے خلاف ہے۔ کلام غالب کے حوالے سے یہ بات اور بھی اہم ہے کیونکہ غالب آخری عمر تک اپنے کلام کی ترمیم و اصلاح کرتے رہے اس لئے غالب کے آخری نسخہ کی اصلاح کو مد نظر رکھنا چاہیے تھا مگر عرشی نے اس اصول سے انحراف کیا ہے۔ اس سلسلہ میں نسخہ عرشی سے ایک مثال پیش کی جاتی ہے:
ہے صاعقہ و شعلہ و سیماب کا عالم
آنا ہی سمجھ میں مری آتا نہیں، گو آئے
نسخہ رامپور میں اس کا پہلا مصرع اس طرح ہے:
ہے زلزلہ و صر صر و سیماب کا عالم
’’دیوان غالب: ”نسخہ عرشی“ کا تجزیاتی مطالعہ، ہم سب 27 مئیء 2021۔ انٹرنیٹ}
عرشی صاحب کے تحقیق و تدوین کا ایک بہترین نمونہ احمد علی یکتا کی دستور الفصاحت ہے۔ اس کتاب کے دیباچے میں انھوں نے بہت سی معلومات یکجا کی ہیں۔ جو ان کے وسیع مطالعے کے ضامن ہیں۔ کڑی محنت و ریاضت کا ثبوت بھی۔ شاہ عالم ثانی کے اردو فارسی اور ہندی کلام کو ’’نادرات شاہی‘‘ کے نام سے شائع کیا۔ اس کتاب کا بھی دیباچہ بہت ہی علمی ہے۔ عرشی صاحب کے نادر و نایاب کتابوں کے ذخیرہ میں ایک بیش قیمت اضافہ ہے۔ اس سے ہمیں شاہ عالم ثانی کے بارے میں بہت سی باتیں معلوم ہوتی ہیں۔
انشاء اللہ خان انشاء کی مختصر کہانی سلک گہر کو بھی عرشی صاحب اپنے دیباچے کے ساتھ 1948 میں اسٹیٹ پریس رام پور سے چھپوایا، محاورات کے نام سے ایک کتاب شائع کی جس میں بیگمات کے محاوروں کو جمع کیا ہے۔ خان آرزو کی ’’نوارد الفاظ‘‘ میں خواتین کے محاورے اور الفاظ نقل کئے گئے تھے۔ سعادت یار خاں رنگین نے بھی ’’دیوان ریختی‘‘ میں بیگمات کے محاوروں کو جمع کیا تھا۔ عرشی صاحب نے ’’دیوان ریختی‘‘ اور ’’نوادر الفاظ‘‘ کو سامنے رکھ کر ’’محاورات بیگمات‘‘ ترتیب دی۔ اس کے علاوہ عرشی صاحب نے کئی عربی کتابوں کے اردو میں ترجمے کئے اور مخطوطات کو بھی مرتب کیا۔
امتیاز علی خان عرشی کا” نہج البلاغہ "کا معرکۃ آرا متنی تحقیق اور تدوین
عرشی مرحوم کے سائنسی کام کے بارے میں بات کرتے ہوئے، ہمیں نہج البلاغہ پر تحقیق کی نظر کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ قدیم زمانے سے ہی کچھ سنی علمائے کرام نے سید رضی کی طرف سے اس تصنیف پر سوال اٹھائے تھے، اور اس کے علاوہ بہت سے لوگوں کو شبہ تھا کہ جمع شدہ الفاظ بنیادی طور پر علیؓ ابن ابی طالب کے اقوال تھے۔ معاصر دور میں 1330ھ کی دہائی کے آس پاس شکوک و شبہات اپنے عروج پر پہنچ گئے، اور مصری مصنفین، جیسے احمد امین وغیرہ، نے اس کام کے متن پر تنقید کرتے ہوئے ثبوت فراہم کرنے کی کوشش کی، جس سے معلوم ہوا کہ علی ابن ابی طالب حوالے سے جو کچھ لکھا گیا، اس کے کچھ حصے جعلی تھے صدیوں کے بعد بھی اس پر تحقیق کی گئی نہ کچھ سوچا گیا۔
نہج البلاغہ کی صداقت کے دفاع کے لئے شیعوں کے ذریعہ لکھی گئی ایک اہم کتاب، نہج البلاغہ کو امتیاز علی خان عرشی نے بڑی عرق ریزی کے بعد اس کی قرات نو کی۔ اس کام میں، وہ نہج البلاغہ کی ایک مستند دستاویز کی کوشش کرتے رہے۔۔ دوسرے لفظوں میں سید رضی نے نہج البلاغہ کے بیان کردہ دستاویزات کو مستند دستاویز کی صورت میں پیش کیں مگر انھوں نے اپنے ذرائع اور ماخذات کا بیان نہیں کیا۔
اس سے قبل مرزا حبیب اللہ کھوئی نے نہج البلاغہ پر منہاج البرقہ کے عنوان سے اپنی تفسیر میں نہج البلاغہ کو دستاویز کرنے کی کوشش کی تھی۔ دیگر علمائے کرام، جیسے حبہ شاہیں شہرستانی، ہادی الکاشف الغتہ، وغیرہ نے کچھ کام کیا تھا، لیکن امتیاز علی خان عرشی نے انتہائی سائنسی، منطقی اور سنجیدہ طریقے سے بیاں کرنے کی کوشش کی۔ جدید عہد کے علوم سے واقفیت کی وجہ سے انہوں نے دوسروں کے مقابلے میں زیادہ سائنسی فکر اور اسلوب اور طریقہ کار کی مدد سے اپنی اس تحقیق کو شفاف اور استدلالی بنایا، اس سلسلے میں عرشی صاحب نے بڑے بڑے کتب خانوں اور ذرائع اور ماخذات حاصل کئے۔
امتیاز علی خان عرشی نہج البلاغہ میں علیؓ ابن ابی طالب سے منسوب کل تقاریر کے 106 خطبات، 37 خطوط اور 79 مختصر الفاظ دستاویز جمع کرنے میں کامیاب ہوئے۔ انہوں نے پہلے اپنے اس تحقیق اور تدوینی کام کو ہندوستانی ثقافت میگزین میں بطور مضمون شائع کروایا اور بعد میں اضافوں کے ساتھ آزادانہ طور پر چھاپا گیا۔ اس کام کو عربی سے فارسی میں ان کے ایک معاون عامر انصاری نے ترجمہ کیا، اور نہج البلاغہ کے حوالہ سے، مرتضیٰ آیت اللہ زید شیرازی نے عربی سے فارسی میں، ترجمہ کیا۔ اس کام کا فارسی ترجمہ ڈیجیٹل کتب خانے میں دستیاب ہے۔
1943 میں اردو کے نقطہ نظر سے ’’دستور الفصاحت” شائع ہوئی۔ انھوں نے 1926 میں ’’تاریخ اکبری المعروف بہ تاریخ قندھاری‘‘ مرتب کی۔ جو 446 صفحات پر مشتمل ہے یہ عہد اکبری کے درباری تاریخ ہے۔ عرشی صاحب کو اس کے دو ہی نسخے ملے۔ اس کا ایک نسخہ رضا لائبریری اور دوسرا نسخہ کیمرج میں محفوظ ہے۔ انھوں نے ان دونوں نسخوں کو سامنے رکھ کر یہ جلد تیار کی۔ 1960 میں امتیاز علی خان عرشی نے 338 صفحات پر مشتمل مرزا محمد حارثی بدخشی دہلوی کی تاریخ کے موضوع پر ’’تاریخ محمدی‘‘ لکھی۔ حارثی نے ایک ہجری سے 1161ھ تک کے مشاہیر کی وفیات مرتب کی تھی۔ عرشی صاحب نے میر علاءالدین قزوینی کا ’تذکرہ نقائس المآثر‘ اور مرزا خان بن فخر الدین احمد کی کتاب ” تحفہ الہند” کے تنقیدی جلدیں بھی تیار کئے گئے۔ جو عرشی صاحب کی زندگی میں شائع نہیں ہو سکے۔
۔ *امتیاز علی خان عرشی نے شاعروں اور ادیبوں سے متعلق تحقیقی مقالات بھی لکھے ہیں: ۔ *
سودا کا ایک قصیدہ اردو ادب علی گڑھ 1950
خطوط داغ، اردو ادب علی گڑھ ستمبر 1952
آنند رام مخلص کے اردو شعر، معاصر پٹنہ حصہ 1مئی 1951
مومن کا کلام فارسی۔ پگڈنڈی، امرتسر جنوری 1960
ناسخ کے دفتر پریشاں کا بیش قیمت سودہ۔ قومی زبان کراچی مئی 1979
٭٭٭