غزلیں ۔۔۔ ڈاکٹر رؤف خیر

بادل سہی وہ خاک اڑا کر گزر گیا

جھونکا ہوا کا تھا اِدھر آیا اُدھر گیا

 

تھا جس کو پار کرنا وہی پار کر گیا

یوں ورنہ کیسے کیسوں کا دریا اتر گیا

 

میں جانِ انجمن ہوں مری جان قدر کر

آنے کا لوٹ کر میں نہیں ہوں اگر گیا

 

چہرے ہوئے سراب، رسائل کتاب خواب

ہم کو یہ لاک ڈاؤن تو برباد کر گیا

 

برگد ہے وہ ضرور مگر بونسائی ہے

گملے میں برگ و بار جو لاتا ٹھہر گیا

 

اچھا تو یہ جہاد بھی مومن پہ فرض ہے!

صوم و صلوٰۃ ہی کو جو انگیز کر گیا

 

ہم تو رؤف خیر ؔ لگاتے گلے اُسے

وہ بدگمان ہاتھ ملا تے بھی ڈر گیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

اُن کا دہن ہے یا کوئی مطلع غزل کا ہے

لب بند ہیں کہ مصرع پہ مصرع غزل کا ہے

 

ماتھے پہ اُن کے دستِ مرصع غزل کا ہے

اعضائے خوش بدن ہیں کہ مجمع غزل کا ہے

 

ابرو ہے یا دھنک کے مقابل کوئی دھنک

دیدہ وروں کے حق میں مرقع غزل کا ہے

 

قربان جائیے یہ نشیب و فراز کے

سینہ کشا یہ مطلع و مقطع غزل کا ہے

 

اصنافِ نظم و نثر بہت خوب ہی سہی

ہر پھر کے نام اعلیٰ و ارفع غزل کا ہے

 

اُس کم سخن پہ بار نہ ہو حرفِ آرزو

اظہارِ مدعا پہ ملمع غزل کا ہے

 

وہ حسنِ بے پناہ اب آیا ہے بام پر

سچ پوچھیئے تو خیرؔ یہ موقع غزل کا ہے

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے