تم کہاں گئے؟
تم بُری بلا کے پنجے سے
کیوں بچ نہ سکے
کس موہ میں آنکھیں بند کیے
پاپی پاتال میں اتر گئے
کس مُورکھ چَھل نے
دھیان کی جھیل میں
اگن بھری
تُم نُور کے ایک سمندر سے
کیوں ٹُوٹ گئے؟
تُم رُوٹھ گئے؟
کب کام دیو نے مَن کی
پاوَن کُٹیا میں بسرام کیا
کس کپٹی نے کیا منتر
پھونک کے رام کیا
کب پریم کی گاگر پلٹ گئی
بِن جَل کے مچھلی تڑپ اٹھی
تُم شبد نگر کے راجا تھے
اور آتے وقت کے گیانی تھے
تُم راج یوگ کا پربت تھے
اور پنج دریاؤں کا پانی تھے
تُم وارث شاہ کے وارث تھے
رانجھے کی امر کہانی تھے
تُم کھچی کمان کا ناوَک تھے
مَن موہنے اور مَن بھاوَک تھے
تُم بِھیتر میں اک سنیاسی
تُم چار دشاؤں کے باسی
کیوں پتھر کی دیوار بنے
تُم ہار گئے؟
تُم کیسے جھلمل تارے تھے
اور کن راہوں کی دھُول ہوئے
تُم بھول گئے؟
تُم نیل گگن میں پر پھیلاتے طائر تھے
تم پچھلے جنم میں
ایک رسیلے شاعر تھے
٭٭٭
سوکھا پتا
ہریالی کی قید میں اکثر
یوں لگتا ہے
میں بھی سوکھا پتا ہوتا
ہوا کی ہلکی سی تھپکی پر
زنداں کا دروازہ کھلتا
دھوپ کے اُجلے منظر
میرا تن سہلاتے
رنگ مہکتی کچی مٹی کا
میری بھی روح میں گھلتا
ہوا کی مدھم لہروں پر ہلکورے لیتا
بہتا جاتا
سوکھی چٹخی آنکھیں
کوئی خواب نہ بُنتیں
مُرجھانے کا، جھڑ جانے کا
دل میں کوئی خوف نہ ہوتا
ننھی ننھی جگمگ آنکھیں
مڑی مڑی سی پلکیں
چھوٹے چھوٹے پاؤں
حیرانی سے بڑھتے میری جانب
اور میں بہتا جاتا ۔۔۔
آتے جاتے قدموں کی آوازیں سنتا
قدموں کی آوازیں جیسے ۔۔ دھڑ دھڑ کوئی دھرتی کُوٹے ۔۔۔
یا پھر وہ آوازیں جن میں سُر گاتے ہوں
یا کچھ جھجھکی، گرتی پڑتی،
مدھم چاپیں ۔۔۔۔
دن بھر شہر کی گلیوں میں
یوں خاک اڑاتا ۔۔۔۔۔
گیلی ویراں سڑکوں پر
پھر رات گئے آوارہ پھرتا
اور پیڑوں کی اوٹ میں
ملنے والوں کی سرگوشی سنتا
ہریالی کی قید میں اکثر
یوں لگتا ہے ۔۔۔۔
آزادی کا اک دن
پوری عمر کی قید سے اچھا ہوتا
میں بھی سوکھا پتا ہوتا
٭٭٭