انتخاب و ٹائپنگ : احمد بلال
اک دفعہ میں کسی گنجان نگر سے گزرا
ایک رونق تھی عیاں شہر کے بام و در سے
فن تعمیر کی تابندہ مثالیں دیکھیں
شہر کی رسم و روایات بھی تھیں پیش نظر
مری آنکھوں نے اس انداز سے سب کچھ دیکھا
کہ میرے ذہن میں باقی رہے ہر چیز کا نقش
تاکہ اس نقش سے کچھ کام لوں آگے چل کر
اب جو کرتا ہوں نظر ذہن کے تہہ خانوں پر
تو وہاں نقش کسی چیز کا موجود نہیں
شہر کی یاد دھندلکے میں یوں پیوست ہوئی
جیسے بھولا ہوا قصہ ہو، یا گم گشتہ خیال
گو مرے ذہن کو اس شہر سے کچھ ربط نہیں
بات اک ایسی ہے جو دل سے نکلتی ہی نہیں
اور وہ بات جو اس شہر سے وابستہ ہے
یاد آتا ہے اسی شہر کی اک عورت نے
روک رکھا تھا مجھے کیونکہ محبت تھی اسے
شہر کو بھول گیا، اس کو نہ میں بھول سکا
دن گزرتے گئے اور جذبہ باہم کی بنا
پختہ تر ہوتی گئی ہر سحر و شام کے ساتھ
قرب باہم کے لئے کوئی رکاوٹ نہ رہی
گم ہوئی جاتی ہے گو حافظے سے شہر کی بات
غرق تھی جذبہ الفت میں مگر وہ عورت
جو مری ذات سے پیوستہ ہوئی جاتی تھی
ہم کبھی شوق کے جذبے میں بہک جاتے تھے
ہاتھ سے ہاتھ چھڑا لیتے کبھی ہم دونوں
پھر اسی جذب محبت کا سہارا لے کر
اس نے پھر ہاتھ دبایا مرا اصرار کے ساتھ
’مجھ سے تم دور نہ ہو، آؤ مرے ساتھ رہو‘
آج بھی دیکھتا ہوں میں اسے اس عالم میں
کہ مرے پاس کھڑی ہے لب خاموش کے ساتھ
پیکر حزن بنی، کانپتی تھراتی ہوئی۔۔!!
٭٭٭