نئے سال کا پہلا شمارہ حاضر ہے، لیکن اس شمارے کے بارے میں بہت سی باتیں کرنے کو جی چاہ رہا ہے۔
پہلی بات یاد رفتگاں کے سلسلے میں، جن دو ادیبوں کو شمارے میں یاد کیا گیا ہے، ان سے میری ذاتی یادیں وابستہ ہیں۔
منیب الرحمان صاحب علی گڑھ میں ہمارے پڑوسی تھے۔ ۱۹۶۹۔۷۰ء میں ہم لوگ منیب صاحب کی کوٹھی گلِ رعنا سے ملحق کوٹھی قیصر لاج کے ایک حصے میں بطور کرایہ دار رہتے تھے۔ اور ہمارے سامنے ہی منیب صاحب نے علی گڑھ چھوڑ کر امریکہ بسایا۔ اور ہم نے قیصر لاج چھوڑ کر بیگم منزل میں اپنا گھر بسایا۔ ان کی بیگم الزبتھ رحمان میری استانی بھی تھیں کہ میں نے بی ایس سی سیکنڈ ائر میں فرانسیسی زبان کا سرٹفکیٹ کورس لے رکھا تھا (اطلاعاً عرض ہے کہ میرا علی گڑھ میں بی ایس سی آنرس (جیالوجی) کا دورانیہ ۱۹۶۸ تا ۱۹۷۱ اور ایم ایس سی جیالوجی کا ۱۹۷۱ تا ۱۹۷۳ تھا)۔ اس جوڑے سے تعلقات مگر صرف اس حد تک تھے کہ میں انہیں سلام کرتا تھا اور وہ جواب دے دیتے تھے۔ الزبتھ رحمان اپنے پسندیدہ طلبا میں میرا شمار کرتی تھیں۔ اس زمانے میں یونیورسٹی میں سبھی ان کو الزبیتھ ہی کہتے تھے، زیبا نام کا یہی سنا تھا کہ صرف منیب صاحب پکارتے ہیں۔ اور منیب صاحب سے یہ بھی تعلق تھا کہ یونیورسٹی کے مشاعروں میں وہ بھی شریک ہوتے تھے اور اکثر مشاعروں میں ابتدا مجھی سے ہوتی تھی، اور جہاں تک مجھے یاد آتا ہے، جذبی صاحب اور منیب صاحب پر ہی یہ مشاعرے ختم ہوتے تھے۔ کبھی سرور صاحب، جو صدرِ شعبہ تھے، انہیں مجبور کر دیا جاتا کہ آخر میں وہ کلام سنائیں۔
دوسری ہستی برقی صاحب کی تھی۔ جو مجھے پابندی سے اپنی تخلیقات اور شاعری، اکثر سجا سنوار کر تصویری شکل میں واٹس ایپ پر بھیجتے تھے۔ لیکن یہ تو حالیہ سالوں کی بات ہے جب سے کہ سمارٹ فون اور واٹس ایپ نے مواصلات کی کایا پلٹ دی ہے۔ پہلے پہل تو صرف ای میل سے بھیجتے تھے۔ ان سے پہلی بالمشافہ ملاقات بھی اس وقت ہوئی جب میں دفتر کے کام سے، بلکہ دفتر کے خلاف ایک مقدمے میں، جس کی نوعیت دیوانی یا فوجداری نہیں، بلکہ یہ حقِ اطلاع (Right to Information) کا معاملہ تھا، پیشی کے لئے دہلی گیا تھا۔ برقی صاحب سے فون پر بات ہوئی تھی اور میں نے یہ اطلاع دے دی تھی کہ میں فلاں تاریخ کو دہلی میں ہوں اور حکومتِ ہند کے انفارمیشن کمیشن میں مجھے اس دن صبح جانا ہے۔ برقی صاحب وہیں سوچنا بھون پہنچ گئے تھے۔ اور یہی نہیں بلکہ (کیونکہ مجھے پیشی میں کافی بعد میں وقت دیا گیا تھا) کچھ مسائل کے حل بھی انہوں نے مجھ سے پوچھے تھے اور میرے پاس اس وقت لیپ ٹاپ بھی تھا، تو میں نے وہیں ایک کمرے میں بیٹھ کر ان کے کمپیوٹر بلکہ اردو یونی کوڈ کے مسائل بھی حل کرنے کی کوشش کی تھی۔ وہ شاید آکاش وانی بھون، اپنے دفتر، سے ہی سوچنا بھون آ گئے تھے) اور تقریباً ڈیڑھ دو گھنٹے تک میرے ساتھ رہے۔ بس یہی ان سے پہلی اور آخری ملاقات تھی۔ اس کے بعد محض فون پر باتیں ہوتی رہیں۔
مجھے افسوس ہے کہ میں نے ان کی تخلیقات کو سَمت کے لئے معیاری نہیں گردانا اور شائع نہیں کیا۔ انہیں مشورہ دیتا رہا کہ کسی اچھے عروض داں سے ربط کیا کریں کہ اَدَبی کو اَدبی باندھنا اور ایسی ہی کچھ تلفظ کی اغلاط، اور ع، ہ، ح وغیرہ کو الف کی طرح وصل کر دینا عروضی اغلاط سے بچ سکیں۔ [اعجاز عبید اور سردار علی کو انہوں نے ہمیشہ مفعول فا (ع) باندھا ہے، اور جب جب سَمت کے نئے شمارے کی اطلاع فیس بک پر دی، کمنٹ میں ان کا ایک عدد قطعہ وصول ہوتا تھا] مگر پھر بھی انہوں نے کوئی شکایت نہیں کی۔ ان کی اہمیت بطور موضوعاتی شاعر کے ضرور تھی، اس لئے میں نے ان کا بھی گوشہ مختص کرنا ضروری گردانا (مگر ان کی موضوعاتی شاعری کی جگہ ان کی غزلیں ہی اس گوشے میں شامل ہیں۔)
اب تیسری بات۔ اس بار میں اپنے ہی ایک نا مکمل ناول کا پہلا باب بطور افسانہ شامل کر رہا ہوں۔ یہ پچھلے دنوں پرانے کاغذات اور فائلوں میں برامد ہوا۔ اس کا پیش منظر یہ ہے کہ ایم ایس سی کے بعد ۱۹۷۴۔۷۵ء میں کافی فرصت میسر آئی تھی اور ان دنوں مرحوم دوست شارق ادیب (بعد میں مظفر علی سید) کی صحبت میں بہت افسانے لکھے تھے۔ ان دنوں شارق ادبی نشستیں بھی برپا کیا کرتے تھے جس میں سید محمد اشرف، فرحت احساس اور آشفتہ چنگیزی شریک ہوتے تھے۔ یہ وہی زمانہ تھا جب اشرف نے لکڑ بگھے کو ہنسانا اور رلانا شروع کیا تھا۔ یہ ناول ’چھوٹی حویلی‘ بطور خاص قاضی عبد الستار کے سٹائل میں اور انہیں کے پسندیدہ موضوع پر لکھنا شروع کیا تھا۔ سوچا تھا کہ ان کو دکھایا جائے گا لیکن مکمل ہونے کے بعد، اور جہاں تک مجھے یاد آتا ہے، شارق نے بھی اس کا کچھ حصہ ہی پڑھا تھا۔ اور پھر نومبر ۱۹۷۵ء میں مَیں نے علی گڑھ کو خیر باد ہی کہہ دیا۔ بہر حال اب یہ مسودہ مل گیا ہے تو سوچا کہ اسے خود ہی کمپوز کر کے محفوظ کر دوں۔ احباب کی رائے کا انتظار رہے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ میری یہ خواہش بھی ہے کہ اب اور کوئی دوست اسے مکمل ناول کی شکل دے دے۔ کیا میری امید کوئی پوری کرے گا؟
’چھوٹی حویلی‘ پر ہی نہیں، مکمل شمارے پر آپ کی آرا کے لئے منتظر ہوں۔
ا۔ ع۔
پس تحریر:
یہ شمارہ مکمل ترتیب دیا جا چکا تھا کہ ہمارے دوست شموئل احمد کے انتقال کی خبر ملی۔ اگلے شمارے میں ان پر یاد رفتگاں کے تحت گوشہ شامل کیا جائے گا۔ احباب اس گوشے کے لئے بھی اپنی تخلیقات بھیجیں، پیشگی شکریہ۔