لو! وقت ہوا رات کا آوارہ! ندارد
بجلی ابھی آئی تھی ابھی واہ! ندارد
اس تیرگی میں ہوش ہے واللہ ندارد
اسرار اندھیرے میں جو ہے جھیلنا وہ جھیل
بجلی ہوئی پھر روزِ گذشتہ کی طرح فیل
غائب ہوئی بجلی تو ہوئی فکر کی لَو تیز
لوگوں نے اسی وقت کیا طنز کو مہمیز
تم لاکھ کرو اپنی طبیعت کو سخن خیز
ممکن نہیں اس وقت تخیل کی منڈھے بیل
بجلی ہوئی پھر روزِ گذشتہ کی طرح فیل
ہمدم نے کہا آج اندھیرے میں ہی کھاؤ
کچھ کیڑے مکوڑوں کو بھی سالن میں ملاؤ
بے خرچ مزہ مرغ مسلم کا اڑاؤ
یہ لطف و کرم جان پہ خود اپنی گیا جھیل
بجلی ہوئی پھر روزِ گذشتہ کی طرح فیل
جب موم کی بتّی نہ ہی ڈھبری نظر آئی
اک پوری کتاب اک نئی کاپی ہی جلائی
تب علم کی دولت سے ذرا روشنی پائی
دس بیس کتابوں کو جلایا کہ نہ تھا تیل
بجلی ہوئی پھر روزِ گذشتہ کی طرح فیل
ہم صورتِ معشوق طرحدار ہے بجلی
اسرار کے گھر میں بھی پُر اسرار ہے بجلی
ہر روز سرِ شام ہی بیمار ہے بجلی
چلتے ہوئے یک بارگی رُک جاتی ہے یہ ریل
بجلی ہوئی پھر روزِ گذشتہ کی طرح فیل
بجلی کے چلے جانے سے ٹکرا گئے کچھ لوگ
کپ چائے کا شیروانی پہ چھلکا گئے کچھ لوگ
تاریکی میں جیب اپنی کتروا گئے کچھ لوگ
ہر روز میرے شہر میں ہوتا ہے یہی کھیل
بجلی ہوئی پھر روزِ گذشتہ کی طرح فیل
اب پاس کے ہوٹل میں بھی جانا نہیں ممکن
احباب سے گپ جا کے لڑانا بھی نہیں ممکن
حد یہ ہے کلام اپنا سنانا بھی نہیں ممکن
بجلی کے چلے جانے سے اب گھر بھی بنا جیل
بجلی ہوئی پھر روزِ گذشتہ کی طرح فیل
٭٭٭