قومی اخبارات کے مطالعہ سے معلوم ہوا کہ حیدر آباد دکن (بھارت) میں مقیم اُردو زبان کے مایۂ ناز ادیب اور مزاح نگار مجتبیٰ حسین چوراسی برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ انسانیت کے وقار اور سر بلندی کے لئے انتھک جد و جہد کرنے والے اس ادیب کی رحلت پر ہر آنکھ اشک بار اور ہر دِل سوگوار ہے۔
میرا خیال ہے کہ موت یاس و ہراس کے سوا کچھ نہیں جو محض ایک آغاز کے انجام کا اعلان ہے کہ اب حشر تک کا دائمی سکوت ہی ہمارے خالق کا فرمان ہے۔ مجتبیٰ حسین جیسی نابغۂ روزگار ہستیوں کی رحلت سے ان کے اجسام آنکھوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں اور یہ عنبر فشاں پھول شہر خموشاں میں تہہ خاک نہاں ہو جاتے ہیں۔ ان کی روح عالم بالا میں پہنچ جاتی ہے اس کے بعد فضاؤں میں ہر سُو ان کی یادیں بکھر جاتی ہیں اور قلوب میں اُن کی محبت مستقل طور پر قیام پذیر ہو جاتی ہے۔ ذہن و ذکاوت میں ان کی سوچیں ڈیرہ ڈال دیتی ہیں۔ ان کے مداحوں اور الم نصیب پس ماندگان کے لئے موت کے جان لیوا صدمات برداشت کرنا بہت کٹھن اور صبر آزما مرحلہ ہے۔ مجتبیٰ حسین کی وفات سے اردو زبان و ادب کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔
ان کی شگفتہ تحریریں ویسے بھی قابل قدر ہیں لیکن جب معاملہ کسی شخصیت پر خاکے کا ہو تو یہ تحریریں دو دھاری ہو جاتی ہیں۔
مجتبیٰ حسین کی خاکہ نگاری کی سادگی اور پر کاری کی ہر طرف دھُوم مچی تھی۔ انھوں نے تصنع کی مظہر تکلف کی روا داری، ظاہری جاہ و جلال اور مرعوب کن اطوار و عادات سے بے نیاز رہتے ہوئے شخصیات کو زندگی کے اصل رُوپ میں سامنے لانے کی مقدور بھر کوشش کی ہے۔ مجتبیٰ حسین نے خاکہ نگاری کے وسیلے سے معاشرتی زندگی میں فعال کردار ادا کرنے والی شخصیات کے بارے میں اپنے تمام مشاہدات و تاثرات کو زیبِ قرطاس کرنے کی سعی کی ہے۔ قاری چشم تصور سے ان تمام شخصیات کو عام انسانوں کے رُوپ میں مصروف عمل دیکھ سکتا ہے۔ مجتبیٰ حسین نے اپنے احباب کی شخصیت کی لفظی مرقع نگاری کرتے وقت اس امر کا خیال رکھا ہے کہ ان کا سب احوال اس انداز میں پیش کیا جائے جیسے کہ وہ واقعتاً تھے نہ کہ جس طرح وہ دکھائی دیتے تھے۔ انسان شناسی ایک کٹھن مر حلہ ہے، یہ دیکھا گیا ہے کہ اہم شخصیات کی زندگی کے متعدد اہم پہلو عام آدمی کی زندگی سے پوشیدہ رہتے ہیں۔ مشاہیر کی کتاب زیست کے متعدد ایسے اوراق جن میں نا ہمواری اور بے اعتدالی ہو وہ اکثر نا خواندہ ہی رہ جاتے ہیں۔ ان کی زندگی کے یہ سر بستہ راز سوانحی کتب یا کسی بیاض میں مذکور نہیں ہوتے بل کہ مخلص احباب کی بیاض دِل پر نوشتہ عام آدمی کی نظروں سے مستور ہوتے ہیں۔ مجتبیٰ حسین نے اپنی ممدوح شخصیات کی زندگی کے یہی پہلو اپنے خاکوں میں اُجاگر کیے ہیں۔ مجتبیٰ حسین کے خاکوں کے عنوان ہی ان کے موضوع کی کلید بن جاتے ہیں۔ عالمی شہرت کے حامل مصور اور خطاط سید صادقین احمد نقوی (1930-1987) کے بارے میں مجتبیٰ حسین نے لکھا ہے:
’’دین آرٹسٹ کی عادت ہوتی ہے اور لین مداحوں کی مجبوری۔ صادقین کے گھر سے میں نے کسی کو خالی ہاتھ جاتے نہیں دیکھا۔ جب بھی وہ صادقین سے مِل کر واپس جاتا تو اس کے ہاتھ میں یا تو صادقین کے مصافحے کی گرمی ہوتی یا صادقین کے آرٹ کا کوئی نمونہ، دِل میں صادقین کی دی ہوئی محبت کا گداز ہوتا، آنکھوں میں صادقین کے فن پاروں کی چمک ہوتی یا کانوں میں صادقین کی رباعیوں کی گونج ہوتی۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ سکندر اگر صادقین کے گھر سے جاتا تو دنیا سے یوں خالی ہاتھ نہ جاتاجس کے ذکر سے تاریخ کی کتابیں بھری پڑی ہیں۔‘‘
سگریٹ نوشی کے سلسلے میں مشفق خواجہ کی زندگی کی بے اعتدالی اور نا ہمواری کو سامنے لاتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:
’’وہ سگریٹ نوشی کے معاملہ میں نہایت کفایت شعار واقع ہوئے ہیں۔ میرا خیال ہے صبح میں ایک بار اپنا سگریٹ جلاتے ہیں اور رات تک اس سگریٹ سے بعد کے سگریٹ جلاتے ہیں۔ سگریٹ نوشی کے اِس انداز سے ماچس کی بچت بہت ہوتی ہے۔‘‘
اُردو شاعری کے ٹیدی بوائے حکیم یوسف حسن کے بارے میں مجتبیٰ حسین لکھتے ہیں:
’’ حکیم صاحب دوستوں کا بہت خیال رکھتے ہیں لیکن اُن کے دوستوں سے میری گزارش ہے کہ وہ بھی کبھی کبھی حکیم صاحب کا خیال رکھیں۔ محض دوستوں کی خاطر میں نے حکیم صاحب کو کئی صعوبتیں اٹھاتے دیکھا ہے۔ اگر دوست اُن سے کہیں کہ وہ دوزخ چلے جائیں تو مجھے یقین ہے حکیم صاحب اپنے پاس بے شمار نیکیاں رکھنے کے باوجود دوزخ میں جانے پر مُصر رہیں گے۔‘‘
اپنی گل افشانیِ گفتار کے بارے میں مجتبیٰ حسین نے (ابو سید محمد مخدوم محی الدین خدری) مخدوم محی الدین ( 1908- 1969) کا یہ شعر اپنی کتاب ’’تکلف بر طرف‘‘ کے آغاز میں شامل کیا ہے:
ہم نے ہنس ہنس کے تری بزم میں اے پیکرِ ناز
کتنی آہوں کو چھُپایا ہے تجھے کیا معلوم
امریکی مزاح نگار مارک ٹوئن (1835-1910: Mark Twain) اور برطانوی مزاح نگار پی جی وڈ ہاؤس (1881-1975: P. G. Wodehouse) سے مجتبیٰ حسین بہت متاثر تھے۔ مجتبیٰ حسین کے پسندیدہ ادیبوں میں مرزا اسداللہ خان غالبؔ، جرمن فلسفی نطشے ( 1844-1900: Friedrich Nietzsche)، احمد شاہ بخاری پطرس، کینیڈا سے تعلق رکھنے والے مزاح نگار سٹیفن لیکاک ( 1869-1944: Stephen Leacock)، کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، شفیق الرحمٰن، رشید احمد صدیقی، کنہیا لال کپور، احمد ندیم قاسمی، ابن انشا، فکر تونسوی، اور ابراہیم جلیس شامل ہیں۔ اپنے شگفتہ مضمون ’’میں اور میرا مزاح‘‘ میں مجتبیٰ حسین نے اپنے من کی غواصی کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’میں گھنٹوں آئینہ کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے آپ کو پہچاننے کی کوشش کرتا ہوں لیکن میں اپنے آپ کو پہچان نہیں سکتا بل کہ مجھے ہمیشہ میرے مقابل آئینہ میں ایک بے وقوف آدمی کھڑا ہوا نظر آتا ہے جب کہ کمرے میں میرے سوا کوئی اور موجود نہیں ہوتا۔ اگر یہ بے وقوف آدمی میں ہی ہوں تو پھر بتائیے میں اپنے آپ کو پہچان کر بھی کیا کروں؟ چار و ناچار چُپ ہو جاتا ہوں۔‘‘
مجتبیٰ کی دوسری تحریریں بھی بہت قابل قدر ہیں۔ شگفتگی کی زیریں رو کے ساتھ، اگر غور کیا جائے، تو کئی جہتیں کھلتی نظر آتی ہیں۔ یہ اقتباس دیکھیے جو مجتبیٰ حسین کے شگفتہ مضمون ’’ڈائرکٹر کا کتا‘‘ سے لیا گیا ہے:
’’وہ ڈائرکٹر کا کتا تھا۔ ڈائرکٹر کی طرح ہی خونخوار اور رعب داب والا، کیوں نہ ہو آخر کو وہ ڈائرکٹر کی صحبت میں جو رہتا تھا۔ اُس کا نام کیا تھا، یہ کوئی بھی نہیں جانتا تھا۔ لوگوں کو بس اُس کا عہدہ معلوم تھا یعنی ڈائرکٹر کا کتا۔ ایک تو کتا اور اُوپر سے ڈائرکٹر کا کتا، گویا کریلا اور وہ بھی نیم چڑھا۔ بقول پطرس ’بہت ہی کتا تھا‘۔ ڈائرکٹر جب اپنی کار میں دفتر آتا تو یہ اس کی پچھلی نشست پر بیٹھا دفتر کی خاتون کلرکوں کو دیکھ دیکھ کر رال ٹپکایا کرتا تھا۔ کار ڈائرکٹر کو چھوڑتی اور کتے کو لے کر واپس چلی جاتی تھی۔ ڈائرکٹر اپنے ساتھ کتے کو کیوں لاتا تھا اس کی وجہ کسی کی سمجھ میں نہیں آتی تھی۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ ڈائرکٹر اپنی شخصیت میں کتے کی ملاوٹ کر کے اپنے رعب اور دبدبہ میں اضافہ کرنا چاہتا تھا۔‘‘
یہاں کتا محض ایک علامت ہے جسے ایک نفسیاتی کُل کے روپ میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اسی علامت کے معجز نما اثر سے لا شعور کی حرکت و حرارت کو متشکل کرنے میں مدد ملتی ہے۔
اپنی شگفتہ تحریروں میں مجتبیٰ حسین نے اپنے آنسو ہنسی کے خوش رنگ دامنوں میں پنہاں رکھنے کی جو کوشش کی ہے وہ قاری کو اس حقیقت کی جانب متوجہ کرتی ہے کہ زندگی کے مصائب و آلام کے بارے میں وہ سنجیدہ بھی ہیں اور رنجیدہ بھی۔
اپنی شگفتہ تحریروں میں مجتبیٰ حسین نے زندگی کی نا ہمواریوں، بے ہنگم تضادات، بے اعتدالیوں اور کجیوں کے ہمدردانہ شعور پر مبنی جو رائے دی ہے وہ ان کی فنی مہارت کا منھ بولتا ثبوت ہے۔
قحط الرجال کے موجودہ دور میں ہوس نے نوع انساں کو انتشار کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ مجتبیٰ حسین نے انسانی فطرت کے حوالے سے اس مسئلے کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیا ہے۔ مجتبیٰ حسین کا شمار اپنے عہد کے ان جری تخلیق کاروں اور ماہرین علم بشریات میں ہوتا تھا جنھوں نے حق گوئی و بے باکی کو سدا اپنا شعار بنایا۔ مجتبیٰ حسین کی شگفتہ تحریروں کے مطالعہ سے زندگی کے تلخ حقائق کے بارے میں کوئی ابہام نہیں رہتا۔
جاپان کے سفر کے بارے میں اپنے افسر مجاز سے بات کرتے ہوئے مجتبیٰ حسین نے کہا:
’’سر! جی تو ہمارا بھی بہت چاہتا ہے کہ نئی نئی زمینیں دیکھیں، نئے نئے آسمانوں میں جھانک آئیں، گھاٹ گھاٹ کا پانی پئیں، نئے لوگوں سے نئی نئی باتیں کریں، نئے چہروں کو نئے ڈھنگ سے دیکھیں، مگر ہمارا جذبۂ حب الوطنی ہمیں باہر جانے نہیں دیتا۔ ہمیں ہر دم یہ فکر رہتی ہے کہ اگر ہم باہر چلے گئے تو پھر ملک کا کیا ہو گا۔ ہمارے بغیر آخر ملک کیسے ترقی کر سکتا ہے۔ پھر ہم نے کچھ ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں جو دس دن کے لیے ہی سہی باہر کے کسی ملک میں جا کر آتے ہیں تو زندگی بھر اس ملک کے قصے اور وہ بھی من گھڑت قصے سنا کر اپنا اور اہلِ وطن کا وقت برباد کرتے ہیں۔ انھیں اپنے ملک کا سورج اچھا نہیں لگتا۔ چاند کی طرف دیکھتے ہیں تو منھ موڑ کے کہتے ہیں برطانیہ میں جو چاند ہم نے دیکھا تھا وہ چاند بھلا اس ملک میں کہاں نظر آئے گا۔ بھلا یہ بھی کوئی چاند ہے۔ غرض انھیں اپنے ملک کی کوئی چیز اچھی نہیں لگتی۔ اگر خدا نخواستہ جاپان کے لئے ہمارا انتخاب ہو گیا تو اِس ملک میں بقیہ زندگی کس طرح گزاریں گے۔‘‘ ( جاپان چلو جاپان چلو)
’’غفور صاحب جیسی شخصیتیں ہماری ادبی و تہذیبی زندگی کا اثاثہ ہوتی ہیں اور ایسی شخصیتوں کو دیکھ کر ہی ہمیں یک گونہ اطمینان ہوتا ہے کہ ابھی ہمارے ملک میں شریف اور نیک نفس بندوں کی پیدائش ممنوع قرار نہیں دی گئی ہے۔ شریف آدمی اگر پیدا ہونا چاہیں تو وہ پیدا ہو سکتے ہیں اور اپنے کیے کی سزا پا سکتے ہیں۔‘‘ (آدمی نامہ)
’’مشہور شخصیتوں کے بارے میں ہم نے سُن رکھا ہے کہ اِن کی موت اس وقت تک مکمل نہیں ہوتی جب تک کہ اُن کی یاد میں کوئی تعزیتی جلسہ منعقد نہ کیا جائے۔ کسی مشہور شخصیت کی موت پر تعزیتی جلسہ منعقد نہ ہو تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ شخصیت بے موت ماری گئی ہے۔ گویا تعزیتی جلسہ مرنے والے کے تابوت میں آخری کیل کا درجہ رکھتا ہے۔ بڑی شخصیتوں کو اچھی طرح مارنے کے لئے تعزیتی جلسہ کا حربہ استعمال کرنا ضروری ہے ورنہ اندیشہ لگا رہتا ہے کہیں یہ شخصیت پھر زندہ نہ ہو جائے۔ اس لئے مشہور شخصیت کی موت اور تعزیتی جلسہ کے انعقاد میں زیادہ فاصلہ نہیں رکھا جاتا۔ بل کہ اکثر اوقات تو یوں بھی ہوتا ہے کہ مرحوم کی زندگی کا خاتمہ اور تعزیتی جلسہ کا آغاز دونوں ساتھ ساتھ واقع ہوتے ہیں۔‘‘ (بہر حال: تعزیتی جلسے)
ایسا محسوس ہوتا ہے مجتبیٰ حسین کو اس بات کا شدید قلق تھا کہ معاشرے میں محسن کشی کی وہی قبیح صورت نمو پا رہی ہے جو بروٹس اور جولیس سیزر کے زمانے میں تھی۔ جب محسن کش اور نمک حرام بروٹس سنگِ ملامت لئے اہلِ درد کے خلاف صف آرا ہوتے ہیں تو ہر حساس تخلیق کار کو دلی صدمہ ہوتا ہے۔
٭٭٭