چھ ماہ بعد آپ سے بات کر رہا ہوں۔ جنوری میں ہندوستان میں شہریت ترمیمی بل کے پاس ہونے کی وجہ سے جو غم و غصہ تھا، اس کا اظہار اداریے کے اس صفحے کو سیاہ کر دینے کے ارادے سے تکمیل کو پہنچا۔ اپریل کے شمارے کے وقت کورونا وائرس کی تباہیاں شروع ہو چکی تھیں اور اس کے علاوہ دہلی کے فسادات کا زخم بھی تازہ تھا۔ اس کا اظہار اداریے کی جگہ ایک ہندی کہانی کی اشاعت سے ہوا جو دہلی کے واقعات پر مبنی تھی۔ کورونا کے بارے میں میں نے اس وقت شتر مرغ کا رویہ اختیار کر لیا کہ اس طرف سے آنکھیں بند کر لیں، کچھ اس وجہ سے بھی کہ ویسے ہی قارئین اس وائرس سے پریشان ہیں تو ان کو کچھ عرصہ اسے بھول جانے کا موقع فراہم کیا جائے، کچھ تخلیقات اس موضوع پر وصول بھی ہو چکی تھیں مگر ان کو اسی وجہ سے شامل نہیں کیا گیا۔ اب، جب کہ یہ احساس ہو چکا ہے کہ ہم سب کو اسی وائرس کے ساتھ کافی عرصے تک جینا ہی پڑے گا تو اب اس سے آنکھیں بند نہیں رکھی جا سکتیں۔
زیر نظر شمارہ افسانہ نمبر ہے، اور کوشش کی گئی ہے کہ کچھ مشہور لیکن کمیاب افسانے بھی شامل کئے جائیں۔ اس سلسلے میں ایک دلچسپ بات کا پتہ چلا۔ بیدی کا افسانہ ‘اپنے دکھ مجھے دے دو’ متعدد ویب سائٹ پر موجود ہے، لیکن سب سے پہلے شاید یہ ’اردو کے مشہور افسانے‘ نام کی کتاب کے تحت کتاب گھر ڈاٹ کام (http://www.kitaabghar.com) پر ان لائن شامل تھا، جہاں سے نقل کر کے میں نے اردو کی برقی کتابوں میں شامل کیا، یعنی مکمل کتاب ‘اردو کے مشہور افسانے’ لیکن یہ غالباً 2007 کی بات ہے، اس زمانے میں کمپیوٹر پر اردو اتنی عام نہیں تھی اور مائکروسافٹ ورڈ میں املا کی پڑتال بھی مشکل تھی، اس لئے اس افسانے میں کوئی ترمیم میں نے بھی نہیں کی! اور آج کل جہاں جہاں بھی یہ افسانہ آن لائن موجود ہے، وہ اسی شکل میں موجود ہے جو کتاب گھر ڈاٹ کام پر تھی۔ یعنی کچھ الفاظ جو کمپوزر کی سمجھ میں نہیں آئے تھے، وہ اس نے؟؟؟ لگا کر چھوڑ دئے تھے! اب اسے شامل کرنے کے لئے جو میں نے یہ غلطیاں دریافت کیں تو اصل افسانے سے دیکھ کر درست کی ہیں۔ اور اس افسوس کو آپ کے ساتھ ساجھا کر رہا ہوں کہ ویب کے اڈمن حضرات پوسٹ کرتے وقت درستی بھی کرنے کی کوشش کر لیا کریں تو کتنا اچھا ہو۔ بطور خاص دینی ویب سائٹس پر دینی مضامین میں علامات صلی اللہ و الیہ و سلم (ﷺ)، علیہ الاسلام (ؑ)، رضی اللہ تعالیٰ عنہ (ؓ ) اور رحمۃ اللہ علیہ (ؒ) کی بجائے انگریزی کے حروف نظر آتے ہیں کہ کمپوزر نے ایسے فانٹ استعمال کیا ہوں گے جو ہونی کوڈ نہیں تھے!!
ان شاہکار افسانوں کے شمول کے علاوہ کچھ تجزیاتی مقالے بھی شامل کئے گئے ہیں، اور جن افساوں کا تجزیہ ہے، ان کو بھی شچامل کیا گیا ہے۔ یہ بھی اگر چہ ’گاہے گاہے باز خواں‘ کے تحت ہی زیادہ تر آنے چاہئے تھے لیکن تجزیوں کا ایک نیا سیکشن قائم کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ نئے افسانے بھی تقریباً بیس دئے جا رہے ہیں۔
مجتبی حسین، آصف فرخی، انل ٹھکر، اسرار جامعی اور بہت سے دوسرے ادیب حضرات ہم کو اس سہ ماہی میں سوگوار کر گئے۔ ان کمیں سے کچھ کو یاد کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ اس بار قسط وار سلسلوں میں قرۃ العین طاہرہ کا سفر نامہ عمرہ بھی شامل کیا جا رہا ہے اور ایک ناول کا اقتباس بھی۔
امید ہے کہ یہ شمارہ بھی پسند خاطر ہو گا۔
ا ع