ثلاثی : ( ایک بحر میں ) حمایت علی شاعر

ثلاثی : ( ایک بحر میں )

حمایت علی شاعر

الہام

کوئی تازہ شعر اے رب جلیل

ذہن کے غار حرا میں کب سے ہے

فکر ، محو انتظار جبرئیل

اسلوب

کس طرح تراش کر سجائیں

نادیدہ خیال کے بدن پر

لفظوں کی سلی ہوئی قبائیں

شاعری

ہر موج بحر میں کئی طوفان ہیں مشتعل

پھر بھی رواں ہوں ساحلِ بے نام کی طرف

لفظوں کی کشتیوں میں سجائے ، متاع دل

اساس

کب ہوا کی کوئی تحریر نظر میں آئی

گر زمیں ہو، تو ہر اک بیچ میں امکانِ شجر

بے زمیں ہو، تو ہر اک نقشِ نمو ہے کائی

 

علم

مرنا ہے تو دنیا میں تماشا کوئی کر جا

جینا ہے تو اک گوشہ تنہائی میں اے دل

معنی کی طرح لفظ کے سینے میں اُتر جا

حرف آخر

ہر لفظ میں پوشیدہ ہے خود اپنا جواز

ایماں میں نہ کیوں علم ہو شرط اول

’’اقراء‘‘ ہے نبوت کا بھی حرف آغاز

یقین

دشوار تو ضرور ہے یہ سہل تو نہیں

ہم پر بھی کھل ہی جائیں گے اسرار شہر علم

ہم ابنِ جہل ہی سہی ، ’’بو جہل‘‘ تو نہیں

انکشاف

عالم تھے ، با کمال تھے ، اہل کتاب تھے

آنکھیں کھلیں تو اپنی حقیقت بھی کھل گئی

الفاظ کے لحاف میں ہم محوِ خواب تھے

زاویہ نگاہ

یہ ایک پتھر جو راستے میں پڑا ہوا ہے

اسے محبت سنوار دے تو یہی صنم ہے

اسے عقیدت تراش لے تو یہی خدا ہے

مابعد الطبیعیات

حرف و رنگ و صوت سب اظہار کے آداب ہیں

ماورائے ذہن ہر تمثیل ، ہر کردار میں

آدمی کی آرزو ہے ، آدمی کے خواب ہیں

 

ارتقاء

یہ اوج اِک فرار ہے آوارہ بادلو

کونپل نے سر اٹھا کے بڑے فخر سے کہا

پاؤں زمیں میں گاڑ کے سوئے فلک چلو

شرط

شب کو سورج کہاں نکلتا ہے

اس جہاں میں تو اپنا سایہ بھی

روشنی ہو تو ساتھ چلتا ہے

نمائش

قرآں ، خدا ، رسول ہے سب کی زباں پر

ہر لفظ آج یوں ہے معنی سے بے نیاز

لکھی ہو جیسے نام کی تختی مکان پر

رویتِ ہلال

خود آگہی نہ جدتِ فکر و نظر ملی

وہ قوم آج بھی ہے پرستار چاند کی

جس قوم کو کہ رویتِ ’’شق القمر‘‘  ملی

وابستگی

جب بھی دیکھا اسے تو یاد آئے

چاند کے گرد، گھومتے تارے

دھوپ کے گرد، بھاگتے سائے

سرشاری

میں ہوں اپنے نشے میں کھویا ہوا

آنکھ کیسے کھلے کہ میٹھی نیند

زیرِ مژگاں ہے کوئی سویاہوا

 

شغل

اُس کے ہونٹوں کے پھول چُن لینا

اور اُن کو بسا کے آنکھوں میں

کچھ ادھورے سے خواب بُن لینا

    دیوانگی

یار تو بھی عجیب انساں ہے

ایسی کشتی میں ڈھونڈتا ہے پناہ

جس کے اندر خود ایک طوفاں ہے

ہم سفر

شاید اک دوسرے سے جلتے ہیں

ایک منزل کے راہرو ہیں مگر

کب مہ و مہر ساتھ چلتے ہیں

المیہ

مجھ کو محسوس ہو رہا ہے یوں

اپنی صورت میں ہو ں نہ دنیا میں

زنگ آلود آئینے میں ہوں

من توشدم

دیکھ کر اُس کو اور کیا دیکھوں

اب تو یوں بس گیا ہے وہ مجھ میں

جب بھی دیکھوں تو آئینہ دیکھوں

بعد از خدا

زندگی یوں گزارتا ہوں میں

پہلے ہونٹوں پہ تھا خدا کا نام

آج تجھ کو پکارتا ہوں میں

 

زہر خند

جانے کس بات پر ہنسی آئی

رنگ برسے، بکھر گئے اور پھر

اپنی اوقات پر ہنسی آئی

٭٭٭