غزلیں ۔۔۔ منور رانا

کسی بھی چہرے کو دیکھو گلال ہوتا ہے

تمہارے شہر میں پتھر بھی لال ہوتا ہے

 

کبھی کبھی تو مرے گھر میں کچھ نہیں ہوتا

مگر جو ہوتا ہے رزقِ حلال ہوتا ہے

 

کسی حویلی کے اوپر سے مت گزر چڑیا

یہاں چھتیں نہیں ہوتی ہیں جال ہوتا ہے

 

میں شہرتوں کی بلندی پہ جا نہیں سکتا

جہاں عروج پہ پہنچو زوال ہوتا ہے

 

میں اپنے آپ کو سید تو لکھ نہیں سکتا

اذان دینے سے کوئی بلال ہوتا ہے

٭٭٭

 

 

 

ہاں اجازت ہے اگر کوئی کہانی اور ہے

ان کٹوروں میں ابھی تھوڑا سا پانی اور ہے

 

مذہبی مزدور سب بیٹھے ہیں ان کو کام دو

اک عمارت شہر میں کافی پرانی اور ہے

 

خامشی کب چیخ بن جائے کسے معلوم ہے

ظلم کر لو جب تلک یہ بے زبانی اور ہے

 

خشک پتے آنکھ میں چبھتے ہیں کانٹوں کی طرح

دشت میں پھرنا الگ ہے باغبانی اور ہے

 

پھر وہی اکتاہٹیں ہوں گی بدن چوپال میں

عمر کے قصے میں تھوڑی سی جوانی اور ہے

 

بس اسی احساس کی شدت نے بوڑھا کر دیا

ٹوٹے پھوٹے گھر میں اک لڑکی سیانی اور ہے

٭٭٭

 

 

 

 

کبھی تھکن کے اثر کا پتہ نہیں چلتا

وہ ساتھ ہو تو سفر کا پتہ نہیں چلتا

 

وہی ہوا کہ میں آنکھوں میں اس کی ڈوب گیا

وہ کہہ رہا تھا بھنور کا پتہ نہیں چلتا

 

الجھ کے رہ گیا سیلاب قریۂ دل سے

نہیں تو دیدۂ تر کا پتہ نہیں چلتا

 

اسے بھی کھڑکیاں کھولے زمانہ بیت گیا

مجھے بھی شام و سحر کا پتہ نہیں چلتا

 

یہ منصبوں کا علاقہ ہے اس لئے شائد

کسی کے نام سے گھر کا پتہ نہیں چلتا

٭٭٭

 

 

 

 

جرأت سے ہر نتیجے کی پروا کیے بغیر

دربار چھوڑ آیا ہوں سجدہ کیے بغیر

 

یہ شہرِ احتجاج ہے خاموش مت رہو

حق بھی نہیں ملے گا تقاضہ کیے بغیر

 

پھر ایک امتحاں سے گزرنا ہے عشق کو

روتا ہے وہ بھی آنکھ کو میلا کیے بغیر

 

پتے ہوا کا جسم چھپاتے رہے مگر

مانی نہیں ہوا بھی برہنہ کیے بغیر

 

اب تک تو شہرِ دل کو بچائے ہیں ہم مگر

دیوانگی نہ مانے گی صحرا کیے بغیر

 

اس سے کہو کہ جھوٹ ہی بولے تو ٹھیک ہے

سچ بولتا نہ ہو کبھی نشّہ کیے بغیر

٭٭٭

 

 

 

 

میاں میں شیر ہوں شیروں کی غراہٹ نہیں جاتی

میں لہجہ نرم بھی کر لوں تو جھنجھلاہٹ نہیں جاتی

 

میں اک دن بے خیالی میں کہیں سچ بول بیٹھا تھا

میں کوشش کر چکا ہوں منہ کی کڑواہٹ نہیں جاتی

 

جہاں میں ہوں وہیں آواز دینا جرم ٹھہرا ہے

جہاں وہ ہے وہاں تک پاؤں کی آہٹ نہیں جاتی

 

محبت کا یہ جذبہ جب خدا کی دین ہے بھائی

تو میرے راستے سے کیوں یہ دنیا ہٹ نہیں جاتی

 

وہ مجھ سے بے تکلف ہو کے ملتا ہے مگر راناؔ

نہ جانے کیوں میرے چہرے سے گھبراہٹ نہیں جاتی

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

جسے دشمن سمجھتا ہوں وہی اپنا نکلتا ہے

ہر اک پتھر سے میرے سر کا کچھ رشتہ نکلتا ہے

 

ڈرا دھمکا کے تم ہم سے وفا کرنے کو کہتے ہو

کہیں تلوار سے بھی پاؤں کا کانٹا نکلتا ہے؟

 

ذرا سا جھٹ پٹا ہوتے ہی چھپ جاتا ہے سورج بھی

مگر اک چاند ہے جو شب میں بھی تنہا نکلتا ہے

 

کسی کے پاس آتے ہیں تو دریا سوکھ جاتے ہیں

کسی کی ایڑیوں سے ریت میں چشمہ نکلتا ہے

 

فضا میں گھول دی ہیں نفرتیں اہل سیاست نے

مگر پانی کوئیں سے آج تک میٹھا نکلتا ہے

 

جسے بھی جرمِ غداری میں تم سب قتل کرتے ہو

اسی کی جیب سے کیوں ملک کا جھنڈا نکلتا ہے

 

دوائیں ماں کی پہنچانے کو میلوں میل آتی ہیں

کہ جب پردیس جانے کے لئے بیٹا نکلتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

بند کر کھیل تماشا ہمیں نیند آتی ہے

اب تو سو جانے دے دنیا ہمیں نیند آتی ہے

 

ڈوبتے چاند ستاروں نے کہا ہے ہم سے

تم ذرا جاگتے رہنا ہمیں نیند آتی ہے

 

دل کی خواہش کہ ترا راستہ دیکھا جائے

اور آنکھوں کا یہ کہنا ہمیں نیند آتی ہے

 

اپنی یادوں سے ہمیں اب تو رہائی دے دے

اب تو زنجیر نہ پہنا ہمیں نیند آتی ہے

 

چھاؤں پاتا ہے مسافر تو ٹھہر جاتا ہے

زلف کو ایسے نہ بکھرا ہمیں نیند آتی ہے

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے