اردو کی کہانی ۔۔۔ پروفیسر منیر احمد چودھری

کوئی ساڑھے سات سو برس ہوئے اردو نے ہندوستان کے ایک درویش فنکار امیر خسرو کے آنگن میں آنکھ کھولی تو اس بھلے انسان نے اس ننھی منی گڑیا کو ہندوی کا نام دیا۔ پھر اسے اپنی پیار بھری پہیلیوں کا پہناوا پہنایا، اس کے گلے میں گیتوں کی مالا ڈالی، بانہوں میں دوہے کے کنگن، ماتھے پہ مثنوی کا ٹیکا، کانوں میں قصیدے کی بالیاں۔ اور یہ سجی سجائی لاڈلی غزل کی اوڑھنی اوڑھے پیار کی لوریاں سنتی، کہہ مکرنی کے جھولے جھولتی بابل کے محل میں ہر سو اٹھکیلیاں کرتی پھرتی تھی۔ لیکن سنگ دل آسمان کتنے دن اس کی خوشیوں پہ چپ رہتا؟

ادھر امیر خسرو نے آنکھ موندی تو اس ننھی منی گڑیا کو اپنے ننھال حیدر آباد دکن جانا پڑا، ننھال میں یہ دکھنی کے نام سے پکاری جانے لگی۔ لیکن ابھی پہلے صدمے سے ہی نہ سنبھلی تھی کہ ننھال سے محرومی کے باعث گجرات کا سفر درپیش ہوا جہاں اسے گوجری کے نام سے یاد کیا جانے لگا۔ مقدر نے اس کے لیے کچھ ایسی ہی سختیاں لکھ دی تھیں کہ ٹکڑوں میں بٹی زندگی اٹھائے اس نو عمر بچی کو ایک بار پھر شمالی ہند واپس آنا پڑا، اکبر اعظم کا دور حکومت تھا۔ دلی والوں نے اس کی حالت زار کو ریختہ کا نام دیا۔ مقدر کی ستم رانیاں بڑھتی چلی گئیں اور یہ یتیم بچی شاہجہانی بازار میں کس مپرسی کے دن کاٹنے لگی۔ کسی نے کچھ بھی عطا کیا اسے ہنس کر قبول کرنا پڑا۔

مشرق وسطی کے کسی تاجر نے عربی کے الفاظ خیرات کر دیے، اصفہان سے آئے کسی امیر نے فارسی بندشیں جھولی میں ڈال دیں، کسی ہندو بنئیے نے ترس کھا کر بھاشا کا بھوجن عنایت کیا، کسی نے کشکول میں سنسکرت کے سکے پھینک دیے، کسی نے پنجابی کی تشبیہیں پکڑا دیں، کسی نے ترکی تراکیب بخش دیں، کسی نے گورمکھی کا محاورہ دیا، کسی نے کشمیری استعارہ اچھالا۔ حتیٰ کہ آتے جاتے گورے بھی ترس کھا کے کبھی پرتگالی، ولندیزی اور انگریزی کے حروف و الفاظ اس کے پلو میں ڈال جاتے۔ غرض جہاں سے جو ملا اس بد نصیب نے مسکینی کا صلہ سمجھ کے لے لیا۔ پس لشکریوں نے اس کا نام ہی اردو رکھ دیا۔

بے شک اس یتیم اور مسکین بچی نے اپنی غربت دکن، گجرات، دہلی، آگرہ اور لکھنو کی دربدری میں گزاری تھی لیکن جونہی جوانی میں قدم رکھا تو زبان دانی کی دنیا میں بڑی بڑی منچلی شریف زادیاں اس کے سامنے ماند پڑ گئیں۔

جب یہ پور پور محاورے کی مہندی رچائے، گلے میں بلاغت کی مالا لٹکائے، کلائیوں میں روز مرہ کے کنگن کھنکاتی، کانوں میں اعجاز کے جھمکے چمکاتی، اس کے عارض دریائے لطافت کی بہار، ابرو مثنوی گلزار نسیم کی تلوار، انکھڑیوں میں اشعار میر کے کجرے کی دھار، مژگاں میں فکر غالب کے تیر، لب لعلیں معانیِ مومن کے نخچیر، سلاست کا سرمہ مسی، فصاحت کے زر و زیور، تلمیحات کی کنگھی چوٹی، دزدیدہ نگاہ میں لف و نشر کے فسانے، ماتھے پہ کہاوتوں کی بندیا، مانگ میں تمثیلات کی افشاں، ناک میں نازک خیالی کی نتھنی، پیشانی پہ تشبیہ کا جھومر، غزلوں کے غمزے، ایجاز کے عشوے، جب یہ سندرتا کے سب ہتھیاروں سے لیس اشعار کی گلناری پوشاک پہنے، نثر کی جھلملاتی چنریا اوڑھے اظہار کی چلمن سے نکلتی تو بڑے بڑے زبان دان انگلیاں دانتوں میں دبائے کھڑے رہ جاتے۔

اس کا ناک نقشہ ہی کچھ ایسا تھا کہ جدھر سے گزری قافلے ٹھٹھک کر رک گئے۔ گلی کوچے میں نکلی تو راہ چلتے اپنی گفتگو میں محتاط ہوئے، دوکانوں اور مارکیٹوں میں گئی تو حساب کتاب میں رکھ رکھاؤ آ گیا، محلے کٹٹری میں ٹھہری تو روا داری نے رواج پایا۔ جامعہ اور مدرسے میں پہنچی تو شستگی اور شائستگی نے راہ پکڑی، مساجد میں گئی تو فصاحت و بلاغت کے دریا بہا ڈالے، قلعہ معلی میں پہنچی تو قصائد کے انبار لگا دیے، رزم گاہ میں اتری تو جوش و خروش کے طبل بج اٹھے، بزم میں جلوہ آرا ہوئی تو تمیز و تہذیب کی سرپرست ٹھہری، خوشی کی گھڑی آئی تو محفلوں کو نغمہ بار کر ڈالا، غموں نے دستک دی تو نوحہ و مرثیہ کے سیاہ علم لہرا دیے۔ اس کی برنائی کے ڈنکے چار دانگ عالم میں کچھ اس طرح بجے کہ اگر کلکتہ کے فورٹ ولیم کالج میں فرنگی اس کے عشق میں مبتلا تھے تو لال قلعہ دہلی میں مغل شہزادے بھی اس کی یاد میں محو فغاں تھے

 

چنانچہ ایک چاہنے والے نے اعلان کیا کہ

 

ابھی تہذیب کا نوحہ نہ لکھنا

ابھی کچھ لوگ اردو بولتے ہیں

 

تو دوسرے نے دعوی کیا کہ

 

سیکڑوں اور بھی دنیا میں زبانیں ہیں مگر

جس پہ مرتی ہے فصاحت وہ زباں ہے اردو

 

اور اساتذہ تو یہاں تک کہہ گئے کہ

 

اپنے محبوب کی خاطر تھی خدا کو منظور

ورنہ قرآں بھی اترتا بہ زبان اردو

 

سبھی جانتے ہیں کہ یہ تو لوح ازل پہ تحریر کر دیا گیا ہے کہ جہاں حسن ہو گا وہاں حسد بھی ہو گا۔ پس جب مقبولیت کا عالم یہ ہوا تو لازم ٹھہرا کہ اس کی سوتیلی بہن "ہندی” بھی اس سے حسد میں مبتلا ہو۔ سو تاریخ کے اس دورا ہے پہ ہندی اردو تنازعے نے جنم لے لیا۔ بھاشا بولنے والوں نے کوشش کی کہ اسے درباروں، دفتروں اور مدرسوں سے نکال دیا جائے۔ تاہم اس مشکل گھڑی میں برصغیر کے مسلمان خم ٹھونک کر نکلے اور اپنی لاڈلی زبان کے حفاظت کے لیے کھڑے ہو گئے۔

وہ وقت تو کسی نہ کسی طرح ٹل گیا لیکن جب بر صغیر کے مسلمانوں کو ایک آزاد مملکت ملی تو اردو زبان کے حصہ میں بھی ہجرت ہی آئی۔ اسے بھی سرحد پار دھکیل دیا گیا۔ یہاں تک بھی خیریت تھی لیکن جب یہ زبان اپنے ہی بچوں کے گھر پہنچی تو اس پہ جو بیتی وہ ناقابل بیان روداد ہے۔ اس نے بچپن سے جوانی تک در در کی ٹھوکریں کھائی تھیں لیکن اپنی اولاد کو تمیز و تہذیب سکھانے میں کچھ کوتاہی نہ برتی تھی لیکن دولت کی ہوس نے اور حصول زر کے آسان اور جلدی راستوں کی تلاش نے اس کے بچوں کو اپنے گھر کے سارے اصول اور سارے راستے بھلا دیے تھے۔

اس بے سہارا ماں بولی کو انگریزی نے دفتروں سے بے دخل کیا اور عربی نے مدرسوں سے نکال باہر کیا۔ علاقائی بولیوں نے گھروں سے دھکے دے کے باہر کیا تو گلیوں بازاروں میں آوارہ لہجوں (slang) نے اس پہ آوازے کسے۔ سائنس اور ٹکنالوجی نے عام آدمی کے ہاتھ میں موبائل تھمایا تو اس کے بجائے رومن اردو دل اور در کی مالکن بن بیٹھی۔

آج اگر اردو اپنے ہی گھر میں بن باس کاٹ رہی ہے تو اس کے بددعائے بچے بھی سب خوشیوں سے محروم ہیں۔ زندگی کبھی کندھوں کا بوجھ ہوتی تھی اب دل کا بوجھ ہو گئی ہے

 

سب ترے چاہنے والے ہیں، مرا کوئی نہیں

میں بھی اس ملک میں اردو کی طرح رہتا ہوں۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے