نظمیں ۔۔۔ ممتاز حسین

شہ رگ کا جکڑا کنگن یوں ٹوٹا

 

شہ رگ کا جکڑا کنگن یوں ٹوٹا

کہ نگاہ ساتویں آسمان کے تخت سے ٹکرائ

تھکی ماندی بصارت تب لوٹی

جب سورج گرہن کی نماز قضا ہوئی

ناف سے لٹکی آنت نے ان جل کو روک دیا

نیچے کا آسمان تو چراغوں سے آراستہ تھا

بھڑکتی آگ کا ثواب تھا یا عذاب تھا

جو اپنے ان داتا کی رگوں میں ثور پھونک رہا تھا

کیا تمہارے کانوں میں کوئی ڈر نہیں سنایا گیا

کیا تیری زبان کو جہنمیوں کے نیزوں سے نہیں پرویا گیا

گناہ کے انگاروں پے سڑاند چھوڑتا تیرا ثواب

بخشش کی چوکھٹ پے ہاتھ باندھے کھڑا ہے

اس کی سلطنت تو سارا کھیت ہے

جس میں تو دھنسا ہاتھ نکالے کھڑا ہے

سر پے بیٹھے کوے اپنی چونچوں سے

تیری آنکھیں نوچ رہے ہیں

کون ہے وہ جو تجھے روزی دے گا

کون ہے وہ جو تیری روزی روک لے گا

تو سرکش ہے تو اوندھا چلے گا

اندھا بن اور سجدہ کر اپنے ان داتا کو

پیشانی ٹیک قدموں پر جس نے تیرے سر پر

کان آنکھ اور ہونٹ چپکا دیے ہیں

٭٭٭

 

 

 

مجھے میرے ہاتھ واپس کر دو

 

مجھے میرے ہاتھ واپس کر دو

کیوں چبا ڈالے ہیں تم نے؟

تاکہ میں صرف اور صرف

تمہارے جوتوں کے تسموں

کا پھول گانٹھتا رہوں

تمہارے منافع کی سلک میں

سلک اگلتے میرے کشیدہ کار کیڑے

جو

میرے خون کی سرخ واہین ہے

جس کی چسکیاں تم لیتے رہو

بنتے رہو سلک کی تاروں میں

میری انگلیاں

تمہاری انگلیوں نے میری ہتھیلی کی تختہ مشق پر لکھی میری قسمت کا ماضی، حال، مستقبل نابود کر ڈالا

لکیریں جو میرے ہاتھ کی رگیں

پُتلی کے دھاگے جو تیرے

حکم کے یکے، غلام اور جوکر

ساڑھیاں کھولتے

تمہاری رکھیلوں کے مخملی ابھاروں

کو برہنہ کرنے کا بہانہ بناتے

میری انگلیوں سے رستی پیپ کے

سود خور کریڈٹ کارڈ کے ان داتا

اب تمہارے دانتوں کی ڈیٹ ایکسپائر ہو چکی ہے

مجھے میرے ہاتھ واپس کر دو

اب چبانے نہ دوں گا۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے