غزلیں ۔۔۔ فیصل عجمی

میں زخم کھا کے گرا تھا کہ تھام اس نے لیا

معاف کر کے مجھے انتقام اس نے لیا

 

میں سو گیا تو کوئی نیند سے اٹھا مجھ میں

پھر اپنے ہاتھ میں سب انتظام اس نے لیا

 

کبھی بھلایا کبھی یاد کر لیا اس کو

یہ کام ہے تو بہت مجھ سے کام اس نے لیا

 

نہ جانے کس کو پکارا گلے لگا کے مجھے

مگر وہ میرا نہیں تھا جو نام اس نے لیا

 

بہار آئی تو پھولوں سے ان کی خوشبو لی

ہوا چلی تو ہوا سے خرام اس نے لیا

 

فنا نے کچھ نہیں مانگا سوال کرتے ہوئے

اسی ادا پہ خدا سے دوام اس نے لیا

٭٭٭

 

کچھ پرندے ہیں، نہیں پیڑ کے عادی وہ بھی

چھوڑ جائیں گے کسی روز یہ وادی وہ بھی

 

خواب میں کچھ در و دیوار بنا رکھے تھے

جانے کیا سوچ کے تعمیر گرا دی وہ بھی

 

میرے گھر میں نئی تصویر تھی اس چہرے کی

رنگ دیوار کا بدلا تو ہٹا دی وہ بھی

 

ایک کشتی تھی مسافر نہ تھے زندہ جس کے

آج سیلاب نے ساحل سے لگا دی وہ بھی

 

میں نے کچھ پھول بنائے تھے مٹا ڈالے ہیں

ایک تتلی بھی بنائی تھی اڑا دی وہ بھی

 

مجھ کو جادو نہیں آتا تھا پری سے سیکھا

بن گیا آپ بھی، پتھر کی بنا دی وہ بھی

 

میں نے اک راہ نکالی تھی زمانے سے الگ

تُو نے آتے ہی زمانے سے ملا دی وہ بھی

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے