ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی ”تم سا کہاں دنیا میں“ ۔۔۔ ڈاکٹر محمد وسیم انجم

3علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے گریجویشن کے دوران اُردو زبان و ادب کے ساتھ اقبالیات کی کتب زیرِ مطالعہ رہیں۔  ایم فِل اقبالیات میں داخلہ ہونے کے بعد اسلام آباد کیمپس میں یکم دسمبر 1993ء میں ایک روزہ ورکشاپ منعقد ہوئی۔  ایم فِل کے دو سمسٹروں کے دوران اقبالیات کی بیشتر کتب کا مطالعہ اور کورس ورک کے دوران اسائنمنٹس کی تیاری اور ٹیوٹر صاحبان سے مسلسل روابط سے اقبالیات کے مطالعے میں وسعت آ گئی۔  دو سمسٹروں کے نتائج آنے کے بعد اور پہلی ورکشاپ کے ایک سال آٹھ ماہ بعد ہمارے بیج کے تمام محققین کو یونیورسٹی ہذا نے دوسری ورکشاپ کا ایک مراسلہ بھیجا کہ اس ورکشاپ میں تحقیقی خاکے اور کسی مطبوعہ کتاب پر ایک تبصرہ لکھ کر یکم جولائی تا 6 جولائی 1995ء حاضر ہوں۔  اس ورکشاپ میں پہلا لیکچر ”موضوع کا انتخاب اور تعین“ ڈاکٹر محمد صدیق شبلی، دوسرے دن لیکچر قائد اعظم یونیورسٹی سے ڈاکٹر وحید احمد نے تحقیق کے موضوع پر دیا۔  تیسرے دن ڈاکٹر رحیم بخش شاہین نے ایوانِ اقبال لاہور کے دورے کی تفصیلات کے ساتھ ”مقالے میں اقتباس“ کے استعمال پر لیکچر دیا۔  ان کے ساتھ ڈاکٹر محمد صدیق شبلی نے ”حواشی اور تعلیقات“ پر پُرمغز لیکچر پیش کیا۔  چوتھے دن شعبہ اقبالیات کے اساتذہ کرام، معاونین اور محققین یونیورسٹی کی کوسٹر کے ذریعے کوہ مری کی سیر کرائی گئی۔  اس دورے میں اورنٹیل کالج لاہور سے آئے ہوئے ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی بھی شامل تھے۔  ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی سے مختلف موضوعات اور کتب کی ترسیل کے سلسلے میں 10 جنوری 1995ء سے خط و کتابت جاری تھی۔  الحمد اللہ اس ورکشاپ میں تفصیلی ملاقات بھی ہو گئی۔  ان کے ساتھ میری خط کتابت میرے ریکارڈ کے مطابق 10 جنوری 1995ء سے 18 ستمبر 2013ء تک جاری رہی۔  یہ خطوط میرے مجموعہ ”انجم نامہ“ اور ”یادگار خطوط“ میں شامل ہیں۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، ڈاکٹر رحیم بخش شاہین اور ڈاکٹر شاہد اقبال کامران کی معیت میں کوسٹر کے ذریعے کوہ مری روانہ ہوئے۔  یاد رہے کہ ڈاکٹر شاہد اقبال کامران اس وقت یونیورسٹی ہذا سے ایم فِل اقبالیات کے موضوع ”اقبال درسیات پاکستان میں تحقیقی مطالعہ“ ڈاکٹر محمد صدیق خان شبلی کے زیر نگرانی 1991ء میں مکمل کر چکے تھے۔  یہ مقالہ ”اقبالیات درسی کتب میں“ کے عنوان سے انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز اسلام آباد نے کتابی شکل میں شائع کر دیا تھا۔  میں نے اسی کتاب پر تبصرہ ورکشاپ کے آخری دن پڑھا تھا جو بعد میں ماہنامہ افہام سیالکوٹ کے شمارہ اکتوبر 1992ء میں شائع ہو کر میری کتاب ”اقبالیاتی خاکے“ میں شامل ہے۔  ڈاکٹر شاہد اقبال کامران نے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے ”پاکستان میں اردو زبان و ادب کی درسیات و نصابات، تحقیقی جائزہ“ پر پی ایچ ڈی مقالہ ڈاکٹر محمد صدیق خان شبلی کی نگرانی میں مکمل کیا۔  ان کا زبانی امتحان 12 مارچ 2005ء کو منعقد ہوا۔  ان کے تحقیقی مقالے کے زبانی امتحان کے لیے برصغیر کے نامور محقق اور دانش ور پروفیسر ڈاکٹر قمر رئیس (دہلی یونیورسٹی) بھارت سے تشریف لائے تھے۔  انہوں نے اس مقالہ کو سراہا اور اس کے معیار کو اردو میں ہونے والی تحقیق سے چار گنا بہتر قرار دیا۔  اس مقالے کے زبانی امتحان کے ممتحن کے ساتھ بیرونی ممتحن پروفیسر ڈاکٹر قاضی افضال حسین صدر شعبہ اردو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ انڈیا بھی اسلام آباد میں منعقدہ عالمی اردو کانفرنس میں تشریف لائے ہوئے تھے اس کانفرنس کے موقع پر ڈاکٹر قاضی افضال حسین نے اپنے خطاب میں اس تحقیقی کام کو اردو درسیات و نصابات کے حوالے سے گزشتہ نصف صدی کا سب سے بڑا تحقیقی منصوبہ قرار دیتے ہوئے اس کے نتائج تحقیق کو ماہرین تعلیم اور درسی کتب کے مرتبین کے لیے اہم دستاویز قرار دیا ہے۔  اس کی اہمیت و افادیت کے پیش نظر اسے کتابی شکل میں شائع ہونا چاہئے۔ 4 جولائی 1995ء کو کوسٹر گورنمنٹ کالج کوہ مری پہنچی جہاں ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے ”تحقیق اقبالیات کے مآخذ“ پر اپنا مقالہ پیش کیا جو 1996ء میں اقبال اکادمی سے شائع ہو گیا۔  اس کے دیباچے میں لکھتے ہیں۔ ”علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے شعبہ اقبالیات نے جولائی 1995ء کے پہلے ہفتے میں ایم فِل اقبالیات کے طلبہ و طالبات کے لیے اسلام آباد میں ایک ورکشاپ منعقد کی تھی۔  شعبے کی دعوت پر راقم نے ورکشاپ میں 4 جولائی کو ”تحقیق اقبالیات کے مآخذ“ کے موضوع پر ایک لیکچر دیا“۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کی تجویز پر ڈاکٹر رحیم بخش شاہین نے پی ایچ ڈی مقالے کے لیے ”مکاتیب اقبال کا تنقیدی جائزہ“ پر ایک تحقیقی خاکہ بنا کر پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں جمع کرایا جہاں ان دنوں ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار صدر شعبہ اردو تھے۔  بعض وجوہ سے موضوع کی منظوری میں تاخیر ہوتی رہی تو ڈاکٹر رحیم بخش شاہین کچھ مایوس ہونے لگے تو دسمبر 1985ء میں اپنے نگران ڈاکٹر نجم الاسلام سے مشورے اور رہنمائی کے لیے حیدرآباد سندھ چلے گئے اور سندھ یونیورسٹی جامشورو سے 1988ء میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ ڈاکٹر رحیم بخش شاہین اور ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی گورنمنٹ کالج کوہ مری میں تعینات رہے۔  ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے لیکچر کے دوران بتایا کہ وہ پچیس سال بعد اس کالج میں تشریف لائے ہیں۔  توسیعی لیکچر کے بعد محققین مختلف گروپوں میں تقسیم ہو کر کوہ مری کے حسین مناظر دیکھنے کے بعد مقر رہ وقت پر کوسٹر کے قریب پہنچ گئے۔  کوہ مری سے واپسی پر چھتر پارک میں پون گھنٹہ تفریح کے بعد یونیورسٹی پہنچے۔ ورکشاپ کے پانچویں دن محققین نے تبصرے پیش کیے۔  چھٹے اور آخری دن ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کے لیکچر کے بعد ڈاکٹر صابر کلوروی نے ”دیباچہ، حوالہ جات اور کتابیات“ پر لیکچر پیش کیا اور محققین نے اپنے تحقیقی خاکے پیش کیے جن پر اساتذہ کرام نے اپنی تجاویز پیش کیں۔  میرے پیش شدہ خاکے اب میری کتاب ”اقبالیاتی خاکے“ میں شائع ہو چکے ہیں۔  مجموعی طور پر یہ ورکشاپ بڑی سودمند ثابت رہیں اور محققین کو ماہرینِ اقبالیات کے خطبات سے بہت سی نئی معلومات سے آگاہی ہوئی اور آئندہ ملاقاتوں کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے تمام محققین کو اقبال اکادمی پاکستان کی رکنیت کے فارم تقسیم کیے۔  اس فارم کے تحت میں اقبال اکادمی پاکستان کا 1995ء سے کئی برس سالانہ ممبر رہنے کے بعد تا حیات ممبر بن گیا تھا۔  اس دوران اقبال اکادمی پاکستان کے مجلات ”اقبالیات“ اور ”اقبال ریویو“ بھی ملنے شروع ہو گئے۔  اقبال اکادمی پاکستان میں مجلس حاکمہ کے لیے دو ارکان کو ووٹ دینے کا حق بھی میسر آ گیا۔  ایک دفعہ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، ڈاکٹر معین الدین عقیل، ڈاکٹر عبد القیوم اور ڈاکٹر وحید قریشی انتخاب میں شامل ہوئے تو میں نے دو ممبران کو ووٹ دے کر 26 جولائی 2005ء میں ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کو خط لکھا۔

ڈاکٹر رحیم بخش کی رحلت کے بعد ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے ڈاکٹر شاہین سے عقیدت و محبت کے ساتھ میری صلاحیتوں کو نکھارنے اور ادبی کام میں مصروف رکھنے کے لیے ڈاکٹر رحیم بخش شاہین پر احباب سے مضامین لکھوانے اور مضامین کی جمع و تدوین کی طرف متوجہ کیا۔  ابھی اس مجموعہ پر کام جاری ہی تھا کہ ڈاکٹر شاہین کے گھر سے شعری بیاض بازیاب ہوئی تو تلاش و جستجو کا رخ ان کی بکھری ہوئی شاعری کی طرف ایسا ہوا کہ ڈاکٹر شاہین کی ایک شعری فائل اور اخبارات و رسائل سے شاعری اور اس کے متعلق نادر و نایاب تحریریں مل گئیں۔ جن کے بعض حصوں پر تاریخ کا اندراج بھی تھا۔  ان مطبوعہ اور غیر مطبوعہ تحریروں کے مکمل حوالے اور حتی الوسع کوشش کے ساتھ زمانی اعتبار سے نامور ادباء و شعراء کے دیباچے لکھوا کر ”شہر جمال“ کے نام سے کل شاعری مرتب کر دی جس پر ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے 16 فروری 2002ء کے مکتوب میں تحریر کیا: ”میرے خیال میں ڈاکٹر رحیم بخش شاہین ایک خوش قسمت، محقق اور ادیب تھے۔  ایک تو اس اعتبار سے کہ انہوں نے ایک با مقصد زندگی گزاری۔  انہیں عمر بھر علم و ادب سے وابستگی رہی۔  سیکڑوں شاگردوں کے دلوں میں حصول علم کی شمع روشن کی اور ان میں سے بہتوں کو لکھنا پڑھنا اور تحقیق کرنا سکھایا۔  محمد وسیم انجم ان کے ایسے ہی شاگردوں میں شامل ہیں۔  مجھے خیال آتا ہے کہ شاہین اس اعتبار سے بھی خوش بخت ہیں کہ وسیم انجم اپنے مرحوم استاد کی یاد آوری کے لیے برابر کوشاں ہیں۔  انہوں نے پہلے تو ان کی شاعری کا مجموعہ ”شہر جمال“ مرتب اور شائع کیا اور اب زیر نظر مجموعہ مضامین شائع کر رہے ہیں۔  کسی مرحوم شخصیت کے بارے میں کچھ لکھوانا خود لکھنے سے کہیں زیادہ مشکل ہے۔  انجم صاحب لائق مبارک ہیں کہ انہوں نے شاہین مرحوم کے بارے میں مضامین لکھوائے اور اب یہ مجموعہ تیار کر کے شائع کر رہے ہیں۔ “ ڈاکٹر صاحب چند مقالات ایسے بھی ہیں جو مختلف جگہوں پر ایک ہی موضوع سے لکھے گئے۔  چند مقالہ نگاروں نے ایم فل کے موضوع چھوڑ کر پی ایچ ڈی کے موضوع پر کام کر کے ڈگریاں لے لیں۔  لیکن ان کا ذکر بھی شامل ہو گیا ہے۔  بہت سے سکالر اپنے موضوع پر کام نہیں کر سکے اور مقر رہ میعاد ختم ہو گئی یا انہوں نے خود ہی تحقیق چھوڑ دی ہے، وہ بھی شامل کتاب ہیں۔  امید ہے آئندہ اشاعت میں یہ کمی بھی دور ہو جائے گی۔  ”کتابیات اقبال“ شائع ہو گئی ہے یا اشاعت کے مراحل میں ہے “۔ ”جامعات میں اردو تحقیق“ کے دوسرے ایڈیشن کے لیے ترامیم اور اضافے کر چکے تھے جو ہائر ایجوکیشن کمیشن سے منتظر اشاعت ہے۔  ”کتابیات اقبال“ کا نیا ایڈیشن اقبال بین الاقوامی ادارہ برائے تحقیق و مکالمہ (آئی آر ڈی) اسلام آباد سے ان کی رحلت سے پہلے 2023ء میں شائع ہو گیا ہے جو دنیا کی اکتالیس زبانوں میں چھ ہزار سے زائد کتب، رسائل اور تحقیقی مقالات پر مشتمل 1732 صفحات پر محیط ہے۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی سے کئی یادگار ملاقاتیں ہوتی رہیں۔  ملاقاتوں میں زیادہ عرصہ ہو جاتا تو خط لکھ دیتے یا ٹیلی فون کر دیتے تھے۔  اسلام آباد میں تشریف فرما ہوتے تو ٹیلی فون کے ذریعے مطلع کر دیتے اس طرح ان سے ملاقات ہو جاتی۔  اب ان کی وفات 25 جنوری 2024ء کے بعد سلسلہ منقطع ہو گیا ہے۔  26 جنوری کو تجہیز و تکفین میں ہمارے شاگرد رشید اور وفاقی جامعہ اردو میں پی ایچ ڈی کے محقق سید فاروق حسین شاہ شامل ہوئے۔  انہوں نے اپنی پرنم آنکھوں کے ساتھ ایسی تفصیلات بیان کیں کہ میرے بھی آنسو نکل آئے۔  انہوں نے اس عظیم شخصیت کا نماز جنازہ پڑھنے کے ساتھ لحد مبارک میں اپنے مبارک ہاتھوں سے اُتارا اور یہ سعادت نصیب والوں کو ہی ملتی ہے۔  اللہ تعالیٰ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔  آمین

٭٭

ماخذ: نوائے وقت

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے