اسے نہ پڑھئے، پلیز! ۔۔۔ محمد اسد اللہ

براہ کرم اس مضمون کو نہ پڑھئے! یہ آپ کے کسی کام کا نہیں۔ اس رسالے میں آپ کی ضیافتِ طبع کے لیے اور بھی عمدہ قسم کے پر مغز مضامین جمع کئے گیے ہیں، آپ ان سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں، معلومات میں بھی اضافہ ہو گا۔۔۔۔۔

ارے! آپ پڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ اسے چھوڑ دیجئے پلیز، آ گے بڑھ جائیے۔ اسے نہ پڑھنے سے کوئی نقصان نہیں ہو گا اور پڑھ کر بھی کوئی فائدہ نہیں۔ ایسا کام کیوں کیا جائے جس سے تضیعِ اوقات کے سوا کچھ حاصل نہ ہو۔ دنیا میں بے شمار ایسی کتابیں رسالے اور تحریریں ہیں جن کا مطالعہ انسان کے لئے بے حد نفع بخش ہے۔ بعض نگارشات انسان کو اندر تک جھنجھوڑ ڈالتی ہیں اور اس کی زندگی بدل کر رکھ دیتی ہیں۔ یقین مانیے یہ اس قسم کی تحریر ہر گز نہیں ہے، آپ بلا وجہ اس میں اپنا سر نہ کھپائیں۔۔۔۔ آپ مانتے کیوں نہیں؟ ایک بار کہہ دیا کہ اسے نہ پڑھیں تو چھوڑ کیوں نہیں دیتے۔ کیا اس مضمون میں سر خاب کے پر لگے ہیں جو آپ پڑھتے چلے جا رہے ہیں!

بڑے ادب کے ساتھ یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ شوقِ مطالعہ کے ہاتھوں آپ اتنے ہی بے بس ہیں تو دنیا میں پڑھنے کے لیے بے شمار چیزیں پڑی ہیں۔ اخباروں میں چھپی جھوٹی خبریں پڑھئیے، وہ سچی خبریں بھی پڑھئیے، جو ان اخباروں سے ایسے غائب ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔

سوشل میڈیا پر آئیے۔ واٹس ایپ میسیج دیکھئے۔ تھوک کے بھاؤ سے مبارکباد کے پیغامات، تحسین و آفرین کے روح افزا جملے، تعریفی کلمات، عیادت کے سندیسے، تعزیتی فقرے، گھٹیا لطیفے، نصیحتیں اور اقوالِ زرین، ملفوظاتِ حکمت، مظاہرِ حماقت وغیرہ دعوتِ مطالعہ دے رہے ہیں، وہاں اقبال اور غالب ؔکے نام کے ساتھ پیش کئے گئے وہ گھٹیا، بے تکے، پٹری سے اترے ہوئے بے وزن اشعار ملاحظہ فرمائیے جو ان عظیم شعرا کو ان کی حیات میں سنائے جاتے تو یقیناً ان کی تاریخ وفات کچھ اور پیچھے سرک جاتی۔

راستے پر آئیے اور رنگوں کی طرح بدلتے ہوئے ان شاہراہوں کے نام پڑھیئے، شہروں کے ناموں کے تغیرات سے عبرت حاصل کیجئے، اشتہارات، سائین بورڈ، ہدایات اور دیواروں پر لکھے جملوں کی بے بسی پڑھئیے مثلاً (اشتہاروں کے درمیان) یہاں اشتہار لگانا منع ہے، (کوڑے کے ڈھیر پر) یہاں کچرا ڈالنا منع ہے، (بدبو دار دیوار پر) یہاں پیشاب کرنا منع ہے، اور (ایسی ہی کسی دیوارِ قہقہہ پر طنزیہ تیور کے ساتھ) دیکھو دیکھو یہاں ایک گدھا۔۔۔، وغیرہ وغیرہ اس کے علاوہ بھی کئی چیزیں آپ کے ذوقِ مطالعہ کی منتظر ہیں۔ بجلی پانی، وغیرہ کے بل، بنک کا پاس بک، رسوئی گیس کا ریکارڈ بک اور ان سب کو پڑھنے والوں کے ماتھے کی شکنیں وغیرہ۔ ان سب کو پڑھتے پڑھتے تھک جائیں تو لوگوں کے چہرے پڑھئے، زندگی ایک کھلی کتاب کی طرح ہے اس کا مطالعہ کیجئے، غرض پڑھنے پر آئیں تو یہاں ہزاروں چیزیں ہیں۔ خدارا اس ایک مضمون کو بخش دیجئے۔

جنابِ من! آپ کا مسئلہ یہ ہے کہ آپ صرف پڑھتے ہیں اور پڑھتے ہیں، سنتے کہاں ہیں، کتابیں اور مضامین آپ سے باتیں کرتی ہیں، کچھ کہنا چاہتی ہیں، آپ سے کچھ مانگتی ہیں مگر شاید کان پور میں ہڑتال ہے یا عقل کنواں (اکل کنواں) میں کرفیو لگا ہوا ہے، آپ کو صرف پڑھنے کا ہَوکا ہے۔ آپ کتابیں پڑھتے ہیں، ان کی بات سنتے کہاں ہیں۔ ہم، اتنی دیر سے کہے جا رہے ہیں کہ اسے نہ پڑھئیے مگر آپ کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔

اس تحریر میں مضمون جیسی کوئی چیز ہے ہی نہیں، جیسا کہ آج کل بیشتر مضامین میں ہوا کرتا ہے اور جو آپ اس قدر انہماک کے ساتھ پڑھ رہے ہیں یہ اس قبیل کی چیزوں میں بد ترین مضمون ہے۔ مذکورہ تحریروں پر اکثر کسی مضمون کا دھوکہ ہوتا ہے، اس مضمون میں وہ بھی نہیں ہے۔ اُن فالتو مضامین میں آخر تک ہر سطر پڑھتے ہوئے یہ محسوس ہوتا ہے گویا آپ پیاز کے چھلکے اتار رہے ہیں، کچھ پانے کی امید کسی سراب کی طرح آپ کو آ گے بڑھنے پر مجبور کرتی رہتی ہے۔ سیاسی رہنماؤں کے وعدوں کی طرح لگتا ہے آج نہیں تو کل کچھ ضرور حاصل ہو گا۔ مگر آخر میں پیاز یعنی مضمون کے ختم ہونے پر کچھ بھی ہاتھ نہیں آتا سوائے ایک ناگوار بو کے جو پیاز چھیلنے کے بعد انگلیوں سے چمٹ جاتی ہے۔ تاہم لگتا ہے کہ جس چیز کی جستجو تھی وہ تو نہ ملی، بلکہ کچھ بھی نہ ملا مگر اس بہانے سے آپ نے دنیا دیکھ لی۔ اپنی ہٹ دھرمی کے سبب، بار بار روکنے کے باوجود جس نگارش کو آپ مسلسل پڑھے چلے جا رہے ہیں، اس سے آپ کو وہ احساس بھی حاصل نہیں ہو گا کیونکہ اس میں کچھ ہے ہی نہیں۔ سوائے روک ٹوک کے جو ہمارے اکثر مضامین میں ہوا کرتی ہے، مگر وہاں کچھ تو ہوتا ہے جس سے روکا جاتا ہے تاکہ آپ اپنے قدم روک لیں اور دنیا کا یا کم از کم آپ ہی کا بھلا ہو، یہاں آپ کو کوئی ایسی چیز نظر نہیں آئے گی جسے اپنانے سے آپ کو خبر دار کیا جا رہا ہے، سوائے ایک مضمون کے جس کے مطالعے سے آپ کو منع کیا جا رہا ہے مگر آپ ایسے ڈھیٹ ہیں کہ بار بار دی جانے والی ہدایت کو نظر انداز کر کے اس طرح آگے چلے جا رہے ہیں جیسے۔۔۔ خیر اب ہم کیا کہیں!

آپ پڑھتے کیوں ہیں؟ اس سوال پر کبھی آپ نے غور کیا ہے؟

(بعض لوگ اتنا پڑھتے ہیں کہ ان کے پاس غور کرنے کے لیے وقت ہی نہیں ہوتا۔ یعنی کتابیں انھیں یہ موقع ہی نہیں دیتیں، بس خود سے چمٹائے رکھتی ہیں اور خود کو پڑھوائے چلی جاتی ہیں)

کچھ لوگ یہ کارِ خیر اس لیے انجام دیتے ہیں تاکہ با خبر رہیں کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے، جب سے اس کے بنانے والے نے ’ہو جا‘ کہہ کر اس پر پھونک ماری ہے یہاں ہر لمحہ کچھ نہ کچھ ہوتا ہی رہتا ہے۔ کچھ لوگ با مقصد زندگی گزارنے کے عادی ہیں، وہ بنئے کا پوت بن گئے ہیں جو بغیر کچھ دیکھے کہیں گرتا بھی نہیں۔ اس قسم کے صاحبان صرف وہ کتابیں پڑھتے ہیں جن کی افادیت اظہر من الشمس ہے مثلاً بینک پاس بک۔ اب دنیا میں ایسے لوگوں کی آبادی میں بے تحاشا اضافہ ہو رہا ہے۔ علم و ادب، فلسفہ، نفسیات وغیرہ کی کتابیں ان کے قیمتی معیار پر پوری نہیں اترتیں۔ بعض لوگ صرف امتحان کی ان کتابوں کو دیکھنا پسند کرتے ہیں جن کی مدد سے انھیں ڈگری حاصل کرنی ہے اس کے بعد وہ ان کتابوں کو کباڑی کے ہاتھوں بیچ دیتے ہیں۔

عام موضوعات کی کتابیں بھی عام آدمی کی طرح بے وقعت ہو کر رہ گئی ہیں۔ انھیں کوئی پوچھتا نہیں۔ علم تو علم ہے کہیں سے بھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ میرے دل میں آپ کی بڑی عزت ہے کہ آپ بلا امتیاز کسی بھی قسم کی تحریر پڑھ جاتے ہیں۔ اب کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ۔

تاہم ان دنوں شائع ہونے والی سینکڑوں کتابوں کی طرح میں آپ کو دھوکہ نہیں دینا چاہتا۔ ان کتابوں کے مصنفیں وہ بازیگر ہیں جو قارئین کو کھلا دھوکہ دیتے ہیں۔ وہ نہ اپ کی اخلاقی یا روحانی تربیت کرتے ہیں، نہ حفاظت، نہ ہی کسی صنف میں طبع آزمائی کر کے اس کی آبیاری کرتے ہیں، نہ وہ آپ کی خدمت میں ایسی تخلیقات پیش کرتے ہیں جن سے طبیعت میں بالیدگی اور فرحت پیدا ہو، آپ کی شخصیت کسی نئے افق سے آشنا ہو۔ وہ صرف اس لیے لکھتے ہیں کہ انھیں ادبی دنیا میں ادیب اور قلم کار بن کر ابھرنا اور شہرت پانا ہے۔ میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے نہ ہی میں ادب میں کوئی نئی ادبی صنف ایجاد کر کے اس ایجادِ بندہ کے زور پر مشہور ہونا چاہتا ہوں۔ میں تو بس یونہی آپ کا ظرف، جذبہ فرمانبرداری اور مطالعہ پر عمل درآمد کی صلاحیت آزمانے کے لیے اور اپنے صبر کا امتحان لینے کے لیے کاغذ قلم لے کر بیٹھ گیا ہوں۔

ہاں، تو بتائیے آپ مطالعہ کیوں کرتے ہیں؟

علم حاصل کرنے کے لیے؟ زندگی، دنیا، کائنات، لوگوں اور چیزوں کے بارے میں معلومات اکٹھا کرنے کے لیے؟ یعنی اپنی معلومات میں اضافہ کرنے کے لیے؟ (تاکہ لوگوں پر رعب ڈالا جا سکے اور انھیں نیچا دکھایا جا سکے، بعض لوگ تو صرف اتنا ہی اور ویسا ہی پڑھتے ہیں جس سے یہ مقصد حاصل ہو جائے) آپ کے مطالعے کا مقصد خود کو بہتر بنانا، سنوارنا، اچھا انسان بننا، دوسروں کو پڑھا کر ان مقاصد کا حاصل کرنا ہے یا بس ٹائم پاس کرنا؟ آج کل وقت گزاری کا اعلیٰ ترین آلہ سوشل میڈیا ہے اسی لئے لوگ فیس بک کو عام کتابوں پر ترجیح دیتے ہیں۔ کتابوں میں عموماً کتابیں ہی ہوا کرتی ہیں۔ (اور کبھی کبھی وہ بھی نہیں ہوتیں) جبکہ فیس بک پری چہرہ اور بے پر کے چہروں سے بھرا پڑا ہے۔ وہاں یہ مسئلہ بھی نہیں کہ، ’تم کو دیکھیں کہ تم سے بات کریں۔‘ اس کے علاوہ بھی وہاں اور بہت سے مواقع موجود ہیں۔ اس کے بر عکس کتابیں چار دیواری میں بند محض ایک دقیانوسی قسم کی چیز بن کر رہ گئی ہیں۔ اب کتابوں کے دیوانے بہت کم رہ گئے ہیں اور جو ہیں وہ دیوانے ہی سمجھے جاتے ہیں۔ بعض لوگ کتابیں اور رسائل صرف اس لئے خریدتے ہیں تاکہ انھیں ڈرائینگ روم میں سجا کر اپنے شوقِ مطالعہ اور دانشوری کا اعلان کیا جائے اور یہاں ایسے فنکار بھی موجود ہیں جو خریدنے اور پڑھنے کی زحمت اٹھائے بغیر بھی یہ ڈھنڈورا پیٹ لیتے ہیں۔

دیکھئے، نا۔۔ نا۔۔ کہنے کے باوجود آپ یہاں تک چلے آئے۔ کیوں پڑھ رہے ہیں آپ! کیا آپ بھی دنیا کے ان بے شمار لوگوں میں سے ہیں جو بے سوچے سمجھے کام کرتے چلے جاتے ہیں۔ کتابیں چھوڑئیے، وہ بندگانِ خدا تو زندگی بھی ایسے گزارتے ہیں کہ بس جینا ہے، جی رہے ہیں۔ انھیں یہ بھی پتہ نہیں ہوتا ہے کہ کیا پڑھنا ہے اور کیوں۔ سچ ہی ہے، کتاب کوئی نماز تو ہے نہیں جس کے پڑھنے کے لیے با قاعدہ نیت کرنی پڑے۔ مثلاً: نیت کرتا ہوں میں، مطالعہ کی، اس کتاب کے، خاص واسطے انجینیرنگ کے امتحان کے، منھ میرا نوکری شریفہ کی طرف۔ اس قسم کی کتابیں ان الفاظ کی ادائیگی کے بغیر ہی پڑھی جاتی ہیں۔ ڈگری ملنے کے بعد پھر کوئی ان کی طرف ایک نگاہِ غلط انداز ڈالنا بھی پسند نہیں کرتا۔ بلا وجہ کتاب یا رسائل خریدنا اور پھر انھیں سینت سنبھال کر رکھنا کوئی عقلمندی نہیں ہے۔ ڈگری مل جائے تو لوگ (ایک ہی سانس میں) سب سے پہلے وہ کتابیں اور ٹھنڈی سانس چھوڑتے ہیں۔ انھیں ٹھکانے لگانے کے بعد وہ نوکری حاصل کرنے کی دوڑ میں لگ جاتے ہیں۔

دنیا پڑھے لکھے لوگوں سے بھری پڑی ہے جن میں سے بیشتر اس طرح زندگی گزار رہے ہیں جیسے ان کے لیے کالا اکشر بھینس برابر ہو۔ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود انھیں انسانیت، ادب، تہذیب اور شائستگی سے کوئی لگاؤ نہیں بلکہ خدا واسطے کا بیر ہے۔ واشنگ مشین سے نکلے ہوئے کپڑے یقیناً صاف ستھرے ہو سکتے ہیں، ہمارے تعلیمی نظام کے اگلے ہوئے افراد کا انسان ہونا ضروری نہیں ہے۔ غالبؔ نے اسی موقع کے لیے کہا تھا۔

آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا۔

آخر اتنا پڑھ لکھ کر کیا ہوا۔ اسی لیے یہ عرض ہے کہ آپ جو اس مضمون کو صحیفۂ آسمانی سمجھ کر پڑھنے پر مصر ہیں، اگر اس سے دست بردار ہو جائیں تو قیامت نہیں آ جائے گی۔ قیامت سے یاد آیا کہ آسمانی کتابوں سے حروف کا اڑ جانا بھی قیامت کی نشانیوں میں سے ہے۔ ان دنوں یہ حال ہے زمینی کتابوں میں الفاظ کی بھر مار ہے مگر معانی مائلِ پرواز ہیں، لکھنے والے بے پر اڑانے لگے ہیں۔ یوں بھی ہر تحریر ادبِ عالیہ نہیں ہوتی اور جو آپ کے پیش نظر ہے وہ تو قطعی نہیں ہے۔ اس لئے براہ کرم اس سے صرفِ نظر کریں ہمارے علم و ادب کا بڑا حصہ اسی لائق ہے اور یہ مضمون بھی اس میں شامل ہے۔

یہ مضمون اگر آپ پہلی ہی تنبیہ پر چھوڑ دیتے تو میری خواہش ہوتی کہ آپ کے گلے میں فرمانبرداری کا ایک خوبصورت سا تمغا ڈال دوں مگر دنیا میں تمغا، انعام، اعزاز، معاوضہ وغیرہ یہ چیزیں ہی سب کچھ نہیں ہیں، اسی لئے مخلصین ان کی تمنا کے بغیر بھی بہت سے ہفت خواں طے کرتے ہیں۔ یہی مہم بذاتِ خود اس مہم جوئی کا حاصل ہوتی ہے۔ کبھی کشور کشائی ہمیں آمادہ سفر کرتی ہے اور کبھی کوئی سر کشی در در بھٹکاتی ہے۔ کچھ نہ ملنے میں بھی بہت کچھ مل جاتا ہے جو اس سفر کا حاصل ہوا کرتا ہے، کچھ نہیں تو عبرت یا تجربہ ہی سہی۔ افسوس! اس شوق مطالعہ سے آپ کو وہ بھی حاصل نہ ہوا۔ یقین آ گیا؟ میں غلط نہ تھا۔

آخر منع کرنے کے باوجود آپ نے کمالِ ڈھٹائی سے یہ پورا مضمون پڑھ ڈالا۔ آفرین!

خیر، کیا کریں، یہ پوری دنیا ہی چھوٹے بچوں کا ایک ایسا گھر بن گئی ہے جہاں لاکھ روکنے ٹوکنے کے باوجود بچے، جو ان کے جی میں آئے کر گزرتے ہیں، من مانی کرنے کا لطف ہی کچھ اور ہے۔ کچھ ملے نہ ملے، دلی تمنا پوری ہو جاتی ہے اور چین اور سکون مل جاتا ہے۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے