نظمیں ۔۔۔ اقصیٰ گیلانی

میں خوبصورت ہوں!

 

والدین نے ریت

اساتذہ نے سیمنٹ

ریاست نے کنکر اور گدلا پانی

میرے ذہن میں ڈالا

ایک مضبوط بند باندھنے کے لیے

اتنا مضبوط جتنا ایٹم

دیوار چین اور اہرامِ مصر ہے

یہ مضبوط بند

میرے ذہن میں

زندگی کو داخل ہونے ہی نہیں دیتا

میں سمجھتی رہتی ہوں

دنیا بہت بری ہے

زندگی بہت بری ہے

اصل میں دنیا بری نہیں ہے

دنیا تو خوبصورت ہے

زندگی تو خوبصورت ہے

بری تو میں ہوں؟

میں بھی بری نہیں

برا تو ذہن ہے؟

ذہن بھی برا نہیں

پھر برا کیا ہے؟

برا تو وہ بند ہے

جس نے میرے بہاؤ کو روک کر

مجھے تعفن زدہ کر دیا ہے

محبت سے بالکل خالی

متشدد اور زنگ آلود

اب خود پہ

فکر کے بادلوں سے

محبت برسا رہی ہوں

اور

تب تک برساتی رہوں گی

جب تک سارا زنگ نہ اترے

جب تک گیان کا سیلاب

ہر بند

ہر دیوار

بہا کر نہ لا جائے

٭٭٭

 

 

 

لا = زندگی*

 

زندگی کبھی بھی مساوی نہیں رہتی

یہ تو پلکوں، سانسوں

اسٹاک مارکیٹ کے شئیرز

اور بٹ کوائن کے گراف کی طرح

ہمیشہ اوپر نیچے ہوتی رہتی ہے

تیز رفتاری کے ساتھ

ایسے راستوں پہ لے جاتی ہے

جہاں سامنے کھائی نظر آتی ہے

گرنا ناگزیر ہوتا ہے

لیکن عین وقت پر

یہ ایسا موڑ مڑتی ہے

کہ ہمیں صحیح سلامت

کسی اور سمت لے جاتی ہے

اگر زندگی کی کتاب کا

ایک صفحہ ہنساتا ہے

تو اگلا ہی صفحہ رلا دیتا ہے

زندگی اتنی لا مساوی ہوتی ہے کہ

فلسفہ، تاریخ اور نفسیات سمیت

کوئی بھی انسانی علم

اب تک اس کی سمت کی

درست پیش گوئی نہیں کر پایا

—–

*اس نظم کا عنوان ن م راشد کی کتاب ’لا=انسان‘ سے ماخوذ ہے۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے