’’آگے ہو میخانے کے نکلو‘، فارحہ ارشد کی افسانوں کی کتاب ’مونتاژ‘ کے تناظر میں ۔۔۔ تنویر قاضی

میخانے کا ایک ماحول بن گیا ہے اس سے نسبت کریئے عہد بنایئے بادہ گُسار آتے جائیں گے ’مونتاژ‘ یہی سکھلا رہا ہے بہکا رہا ہے ’سُوئے میخانہ سفیرانِ حرم آتے ہیں‘ کی کیفیت ہونے کو ہے۔

فارحہ بھیتر کہیں دبی بیٹھی کہانی کو طشت از بام لے آئی جو انقلاب آفرین ہے وہ بے بس کسمپرسی کے مارے کرداروں جن کی پھٹی پوشاک پر نمبر لکھے ہیں انہیں نام دینے کی سعی میں ہے ..

سرِ ورق ڈسٹربنگ ہے چُبھتا ہوا تیز کہیں باہر سے لایا ہوا اپنا اپنا نہ لگا کہ یہ آنکھیں اور ہونٹ ہمارے نہیں ہماری آنکھیں کیچ بھری گدلی اشک اشک ہیں ہونٹ پپڑی جمے بھدے جن پر کبھی اخروٹ دنداسہ نہ ملا گیا ہو۔ پاورٹی لائن جن کے اوپر سے ہو گزرتی ہے ان کی روٹی اور پانی تو مافیاز چوری کر گئے سو اگر یہ ٹائیٹل کسی این سی اے کے سٹوڈنٹ سے بنوا لیا جاتا تو کچھ نئی جہت اور نیا زاویہ دیتا۔ سر ورق بھیتر مواد کو گھیر نہ پایا کوئی اور زبان بولتا ہوا۔ ٹائیٹل خوابیدگی و بیگانگی کو سامنے لاتا جو اس افسانوں کی کتاب کا لُبِ لباب اور ایسینس ہے۔

انتساب مصنفہ نے بہت اچھا لکھا اپنے بابا اور ماں کو خراج دیا اس سے بہتر کیا ہو سکتا تھا یہاں شعر اس کی تاثیر کم کرتا دکھائی پڑتا ہے اسے اگلے صفحے پر لے جاتے تو بہتر ہوتا۔

فلیپ یا پیش لفظ اس کتاب کو ڈیمیج کر رہا ہے نقاد اپنی لینگوئج میں کچھ کہتا جاتا ہے جو پلے نہیں پڑ رہا اندر کہانی کی گھمبیرتا سِوا ہے یہ اُتھلا بیان ہے جو یہاں کہہ دیا گیا۔

اب آیئے فارحہ ارشد کی طرف۔ ان کے ہاں کچھ افسانے ایسے ہیں جہاں وہ اپنے آپ کو اِسی طرح الگ تھلگ کرتی ہیں۔ الگ تھلگ، قدرے اوپر اور زہر خند۔ جیسے وہ سارا تماشا دیکھ رہی ہوں جو وہ نہیں دیکھنا چاہتیں اور وہ دکھی ہو کر کسی اور طرف دیکھنے پر مجبور ہوں۔

بعض اوقات پڑھے بغیر بھی پیش لفظ لکھ دیئے جاتے ہیں۔ کبھی آپ ’اُفتادگانِ خاک‘ the wretched of The Earth کا سارترے کا لکھا پیش لفظ پڑھ لیں تو میری بات کو سمجھ پائیں گے جو کہنا چاہتا ہوں۔ جتنی درد مندی سے فرانز فینن نے لکھا اسی مناسبت اور گیرائی سے نقاد نے تعارف میں بات کی۔ کچھ لوگوں نے تو یہ مضمون لکھ کر رکھے ہوتے ہیں لاہور میں تو یہ رواج برسوں رہا۔ اس طرح کی لکھت سے قاری ذہن ہی کچھ اور بنا لیتا ہے کتاب بارے۔ سو میرے خیال میں کتاب پہلے پڑھی جائے۔

’مونتاژ‘ مائیکرو اور میکرو کے درمیان Equilibrium کا نام ہے۔ مصنفہ جانتی ہے کہ کیمرہ کہاں نزدیک رکھنا ہے اور کہاں دور۔ اُسے پاتال کی کائی اور عرش کنگرہ دیکھنے کی سکت ہے کہ وہ سلیبسی فیشنی صحافتی کہانی نہیں لکھتی۔ اور اصل تاریخ دان بھی فکشنسٹ ہوتا ہے وہ اس سیارے کو لیبارٹری کے سکیلیٹن (انسانی پنجر) کی طرح پرکھتے استعارے کا جوہر استعمال کرتی ہے۔ میلان کُندیرا نے شاید Immortality میں کہا تھا کسی فرد کا جوہر استعارے کی روشنی میں آشکار ہوتا ہے۔

سریلزم پینٹنگ کی مسافت سے فکشن میں بھی در آیا فارحہ کی کہانیوں کے بھیتر کی توڑ پھوڑ میں جس کی جھلک عمیق دِکھتی ہے۔ اجسام، تخیل اور کیفیت کو شکل دینا اور پھر بے شکلا کرنا یعنی تشکیل اور ردِ تشکیل کی کار فرمائی غیر محسوس طریق سے یہاں دیکھتے ہیں اور جدیدیت و مابعد جدیدیت کا پرتو تو ہر کہانی ساتھ لیے ہوءے ہے .مغرب سے امپورٹڈ آگاہی اور مقامی رَس بتاتا ہے کہ اس کا مطالعہ وسیع تر ہے .اِن شارٹ وہ ایک ماڈرن شارٹ سٹوری رائیٹر ہے۔

فارحہ کو اگر مختص نہ کیا جائے کہ وہ فلاں صدی کی کہانی کار ہے تو بہتر ہے کہ یہ صدی تو ابھی رواں ہے اور اس کے دو عشرے ہی گزرے ہیں۔ یا یہ کہا جائے کہ فلاں صف کی فنکارہ ہے تو بجا نہ ہو گا کہ اس طرح اس کا کینوس محدود ہونے کا اندیشہ ہے کہ وہاں لینڈ سکیپ وسیع تر ہونے کی گنجائش ہے وقت کے دھارے نے ایسیس کرنا ہے کہ اس نے ابھی صفیں ترتیب دینی ہیں۔

قدرے سینئر لکھاریوں کے ہاتھ کتاب تھما کر تصویر بنوانا مونتاژ کی قدر میں اضافہ نہیں کرتا۔ ایڈوائیزرز کے کم اعتماد ہونے کی غمازی ہے۔ یہ جیسچر اس یونیک فکشن کو ٹیک دیتا وقتی جذباتیت لگی جو کسی طور مصنفہ کے حق میں نہ جائے گی۔ ایسا کرنا کتاب بھیتر افسانے کی ساکھ کو مشکوک اور گدلا کرنا ہے۔

 

آئیں جراتِ رندانہ مختلف کہانیوں سے منفرد فکشن میں ڈھلی دیکھتے ہیں۔

’مٹی کے بُت کے کان میں کُن کہا جا رہا تھا اور وہ فیکُون کی صُورت اُٹھ کر بیٹھ گیا‘ (بی فار دی ایور آفٹر)

’اور اس عمر کے لڑکے اپنے غسل خانوں میں صابن کی چکیاں گھسا کر بڑھتے ہوئے ہارمونز کو پانیوں میں بہا رہے تھے‘ (زمیں زادہ)

’اُس نے اداسی سے سوچا پھر تو اس کا خدا بھی یقیناً آسمانوں میں اُس کی طرح کہیں کانپ رہا ہو گا۔ آہ بیچارہ خدا‘ (ڈھائی گز کمبل کا خدا)

’ایسی غضب کے روپ کی دھُوپ کہ چیل انڈا چھوڑے‘ (حویلی مہرداد کی ملکہ)

’تخیل تمہاری پوروں سے یوں نکلتا ہے جیسے جادوگر کے رو مال سے کبوتر‘ (بی بانہ اور زوئی ڈارلنگ)

’خالی کوکھ تو اندام نہانی کو بھی گالی بنا دیتی ہے‘ (شریکا)

’نکاح سے لے کر چھ گھنٹے کی مسافت تک میں نے محبت کو اپنے تن من پر کسی وحی کی طرح اُترتے دیکھا‘ (دس گھنٹے کی محبت)

’پُر تشدد مگر جادوئی لمحات اُسے ایک دائرے سے دوسرے دائرے میں پھینک رہے تھے۔ جسم چُور تھا لیکن مزید تھکن مانگتا تھا‘ (شب جائے کہ من بودم)

’جب بلاسٹ میں مجھے مارا گیا تو میں وہاں موجود نہ تھی پاس سے گزرتی ایک قبر دوسری سے کہہ رہی تھی‘ (آرکی ٹائپل کُڈھب کردار)

’فیصلے والوں کو جو بحث، ادب، زبان، کلچر، عقیدہ ناپسند ہوا اسے پسند کرنا تخریب کاری و غداری کے حاشیے میں آ سکتا ہے‘ (امیر صادقین۔ تم کہاں ہو)

’کرتوت کالے اس لیے ہوتے ہیں کہ یہ بھی کالے شہتوتوں کی طرح لذیذ ہوتے ہیں‘‘ (گرہن گاتھا)

’مہنگے لباس کی ریشمی سرسراہٹ میں انگلیاں تتلیاں بن گئیں اور قرار کی خواہشِ بے تابانہ کا رس نچوڑنے لگیں‘ (ان سکرپٹڈ)

’اس نے پھولوں کے جھنڈ کے بیچ ایسی دنیا بنائی جہاں تتلیوں کو سزا کے طور پر انسان بنا دیا گیا تھا‘

’یاد داشت سے جھانکتا جہان، ایک ایسی تصویر جس میں عورت خدا کو جنم دے رہی تھی‘ (ایک تصویر خدا کے بغیر)

’بی فار دی ایور آفٹر‘ جہاں چیزیں اپنی جگہ پر نہیں رہیں۔

جدلیاتی سطح پر ایک replacement کارفرما ہے جو بہت گہرے دبے نوحے میں رُلاتی ہے مقسوم ہوتے ہوئے بھی انسان کُرلاتا ہے آنسُوؤں میں بہتا چلا جاتا ہے۔

’’جو بھی اس گلی سے گزرتا اس سہ منزلہ عالیشان عمارت کی طرف متوجہ ہوئے بنا نہ رہتا۔ ایک چیز جو اس حویلی کو دوسرے گھروں سے ممتاز کرتی تھی وہ اس کا خوبصورت اور منفرد فن تھا‘‘

’’عمارت کی شان و شوکت سے نگاہ پھسل کر جب ان دکانوں پر رکتی تو یوں لگتا جیسے ایک خوبصورت قیمتی پوشاک پہن کر نک سک سے تیار ہوئی کسی ماہ پارہ نے پھٹے پرانے گندے سے جوتے پہن رکھے ہوں اونچی چھت والے برآمدوں کے محرابی دروازوں پر بنے لکڑی کے شہتیروں میں جب کبوتروں کی غُٹر غُوں سنائی دیتی تو ویرانی کا احساس سِوا ہونے لگتا‘‘

مسلسل مشقت کے بعد کا عزم بھی دیدنی ہے زہرا لال حسین سے کہتی ہے ’’جب تم مجھے سکھا دو گے نا تو ہم ٹائلز نما پچی کاری، شیشہ گری اور مینا کاری کے چھوٹے چھوٹے اقلیدی نمونوں کے ٹکڑے مختلف بڑی کمپنیوں کو فروخت کریں گے‘‘

ایک دن لال حسین اور زہرا بھی اس حویلی کے در و دیوار میں معدوم ہو جائیں گے جیسے ان سے پہلے پُرکھوں کی مٹی مٹی میں مل گئی اور دلوں میں تریڑیں ڈالتی مکینوں کی جو روح بھی ہے ازلی پہلی باقاعدہ مخلوق سے ملنے کو بے تاب۔

’اسیں کھڈیاں تے اُنے ہوئے لوک وے

تے لوکی ساڈا مُل لاوندے‘

اُس کی تحریر میں کہیں تکان، سانس اُکھڑنے اور ہانپنے کی رمق نظر نہیں آئی۔ یہاں عدسے کا بھی مسئلہ ہے جیسے گدھ کا دیکھنا اُسے چیزیں کئی گنا زیادہ بڑی کر کے دکھاتا ہے یعنی دھرتی کے قحط کی تصویریں کھینچتا رہتا ہے اور فوراً وہاں پہنچ جاتا ہے جہاں بھوک کی آفت نے آن لیا ہو۔ فوٹو گرافر اپنے سسٹم کے ساتھ اور فارحہ اپنی کہانی کِٹ کے ساتھ وہاں آپریشن کرتی ہے۔ چاک گریباں والوں کے چاک اور نمایاں کرتی ہے۔ بیچ چوراہے اُدھیڑ بُن کرتی ہے۔ کرداروں کو اپنی جگہ رکھتے ہوئے میں اس کی کہانیوں کے بھیتر کیریکٹرز کے توسط سے جاتا ہوں۔ ان کرداروں کا بھی فکشن میں عجیب کھیل ہے۔ مجھے بہت سے ایسے کردار ازبر ہیں جن کے ناولوں اور افسانوں کے نام تک بھول چکا ہوں۔ ’فکشن میں کرداروں کا کھیل‘ کے عنوان سے ایک مضمون بھی لکھ چکا ہوں۔ آئیں کچھ کردار دیکھتے ہیں۔

 

’’وہ پوسٹ مارٹم کی انتظار گاہ سے بارہ دری میں دھرے ادھورے مجسمے کی طرف بھاگ رہی ہے بستی والوں نے بتایا اس کے محبوب مجسمہ ساز کو اس لئے غائب کر دیا گیا کہ وہ مجسمہ سازی کے اوزار نہیں قتل کے ہتھیاروں سے لیس باغی ہے۔‘‘

فارحہ ارشد کے افسانے ’دنانیر بلوچ‘ کا مجسمہ ایک کردار بن کر اپنی شبیہہ میں مِسنگ پرسنز کی کہانی کہتا ہے۔ مجسمہ چُپ ہے بے جان ہے لیکن ذرا غور سے تکیں اس کے ہونٹوں کے اخروٹ وا ہو رہے ہیں جیسے اس میں جان پڑ گئی ہو۔ جو جبر کی مرگ کتھا بھی سنائے گا۔ اس کہانی میں اصل کردار ادھورے مجسمے کا ہے جو بظاہر چُپ سادھے ہے مگر اس کا خالی پن بھید بھرا اور سُچل تاریخی حروف سے پُر ہے۔ یہ تسلسل ہے قفسی ماجرا سُناتا۔ ایک دن مجسمہ ساز مجسمے سے نئے سرے سے نمودار ہو گا۔ اپنی مخروطی اُنگلیاں مِٹی پر ثبت کِئے اپنے گُم شدہ سامان اور چھینے ہوئے لینڈ سکیپ کی تلاش میں۔

فارحہ ارشد کی ایک اور کہانی ’آدھی خود کشی‘ جس کا کیریکٹر سرد ہال ہے جس میں لاشیں پڑی ہیں اور محوِ گفتگو ہیں۔

’’یہ ایک سرد ہال ہے جہاں ہم سب مختلف نمبروں کی میزوں پر سفید کپڑے کے نیچے پڑے ہیں۔ ہماری شناخت ہمارے پاؤں کے انگوٹھوں میں پڑے دھاگے کے ساتھ لگی چِٹ پر ہماری میز کے نمبر تک رہ گئی ہے۔‘‘ میں خود کو بھی اسی ہال کا ایک بے روح مانس سمجھنے لگا ہوں۔ مجھے تو یہ سرد ہال انہی بیس لاکھ لوگوں کا مقتل لگتا ہے جو تقسیم کی بھینٹ چڑھ گئے۔ اسی کا تسلسل نئے سرد ہال بناتا چلا گیا۔ جن کے لئے نیا ملک بنا وہی مارے گئے اور ان کے افسوس کے لئے کوئی دری نہ بچھی، کوئی کمشن یا کمیٹی کیا بنتی۔ اس ہال کا ماحول ہمارے اطراف سے resemble کرتا ہے۔ پارٹیشن کی دی ہوئی منٹو کی کہانی ’کھول دو‘ کا سین دیکھ لیں اور آج کی بھوک، بربریت اور سرد مہری ایک جیسے یا پھر سِوا ہیں۔ جتنی بے تقصیر لاشیں یہاں گرائی جاتی ہیں منٹو کی ’موزیل‘ کے پُرزوں کے پسارے سے بھی ان کی برہنگی نہیں ڈھانپی جا سکتی۔ یہ سرد ہال کیوں کہ اپنی طرزِ تعمیر میں مستقل بے چہرگی، ڈر اور آسیب زدگی کی بھی علامت ہے اس لئے سٹیٹس کو والے اس کی حفاظت پر پکی نوکریوں کے سیکیورٹی گارڈز ایستادہ رکھتے ہیں۔ میں خود اس سرد ہال سے نہی نکل سکا۔ ہم اس کی خاموشی کی چیخیں سن کر اس کی جانب بھاگتے اس کے اسیر ہو جاتے ہیں۔ پوسٹ مارٹم کروانے والی سفید چادریں اوڑھے میتوں میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔

یہ لوگ کیا اُسے سندِ قبولیت دیں گے ابھی جو خود سہارے ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں یہ مصنفہ کی سادگی اور انکساری ہے کہ ان چاپلوسوں کو اتنا ویٹیج دے گئی وہ خود کہیں بہتر افسانہ نگار ہے میں نے اسے نقاد کے طور بھی گہری باتیں کرتے دیکھا۔

میری ٹیلی پیتھی میں عجیب منظر آیا کہ ایک بہت سطحی ذہن کے صاحب جھمکوں کی تعریف میں لگ گئے دوسرا پہلے والے کو سراہنے میں آگے جانے لگا بہت ridiculous بولیاں بولی جانے لگیں نتیجے میں لائیکس بھی آنے لگے۔ جھمکوں کی بات آگے بڑھاتے کوئی ایک اور کہنے لگا کہاں سے آئے ہیں یہ جھمکے۔ کس نے پہنائے ہیں یہ جھمکے۔ اور اس غیر سنجیدگی میں اور غریب ذہنیت کے مارے نالائق بھی ’لائک‘ کے ذریعے شامل ہوتے گئے یہ خرافات ایک بہت اعلی۔ سنجیدہ۔ اور خوبصورت افسانوں کی کتاب پر کچھ بیمار سوچ کے حامل مانسوں کی طرف سے تھیں۔ صحت مند باتیں کرنے کی بجائے جھمکوں سے بے جا حظ اٹھانا انتہائی گھٹیا اور لاغر رجحان کو ہوا دینا ہے۔ ابھی تک سوچ رہا ہوں یہ کیسی روش تھی کہ ہم لکھنے والے بھی عورت کو کماڈٹی ہی سمجھتے ہیں۔ یہی بات مذاق میں کسی بازار میں کی جاتی تو ان کو جوتے پڑتے۔ افسانوں اور ان کے بھیتر بات کرتے یہ جُگت بازی تو لچر سٹیج ڈراموں میں پھبتی ہے اس کا مطلب ہے کہ یہ لوگ لکھاری سے متعلق بیچ کہیں گِلٹ، گرَج۔ تضحیک اور بے توقیری چھپائے بیٹھے تھے۔ It was so hopeless‘‘

’گرھن گاتھا‘ افسانہ بہت گیرائی سے لکھا گیا۔ مشکل موضوع تھا یہاں تجاوز اسے ڈیمیج کر سکتا تھا ’کُتا زبان نکالے کھڑا ہانپ رہا تھا‘ ’میری نظر اُن کے اُلٹے پائینچوں پر پڑی‘ کفائت لفظی سے کمال چابک دستی کو کام میں لایا گیا اور ایک یاد رہنے والی کہانی ہمارے سامنے لائی گئی۔ سیکس بھی دوسری ضروریات اور خواہشات کی طرح ہے۔ پیاس پر پانی کے مٹکے کی جانب جانا ہوتا ہے۔ اسے LUST نہ سمجھا جائے۔

مونتاژ میں Hybrid جگہ جگہ کوڑا پھینکتا پیش منظر کو دھُندلاتا ہے اور پھر اوپر سے کچرے کو آگ لگا دی جائے تو چلتے لوگوں کا سانس تو اُکھڑے گا۔ یہ اس دورِ ابتلا کی خاص دین کتاب کے اندرون براجمان ہے۔ مخلوط النسلی پہچان مٹاتی انفراد اور اجتماع دونوں سطحوں پر اپنا سیمینٹ کرتی ہاتھ میں کانڈی لِئے پھرتی ہے۔ دوغلا پن اس سوسائیٹی کا طرہ امتیاز ہے۔ دو چہروں کا معاشرہ اپنی بساند کے ساتھ ان کہانیوں میں پوٹی پوٹی ہگتا، تنفس اُکھیڑتا ہے، اپنائیت کے در بھِیڑتا ہے۔

ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ

دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھُلا ۔غالب

اصل باتیں وہ ہوتی ہیں جو ہم کہہ نہیں پاتے۔ فسانہ نگار بھی بین السطور کچھ کہتا ہے، اسے باہر کیسے لایا جائے؟ ایسینس تو وہ ہے پُر مغز کونٹینٹ کو چھوڑ نقاد اِدھر اُدھر کی باتوں میں مگن رہے اپنی صلاحیت کے مطابق یا پھر فارحہ کے افسانوں کے نیچے گری جگالی جھاگ اُٹھانے کی کوشش میں ایک فیشنی سی رائے دیتے رہے۔ ہاں میری ٹیلی پیتھی میں محمود احمد قاضی اصغر ندیم سید اور زاہد حسن قدرے مختلف پیرائے میں مونتاژ کو جانچتے لگے۔ باقی لوگ تو جیسے ان افسانوں کو انشائیہ سمجھ کے پڑھتے رہے۔ کچھ ادبی بھیڈو بلا جواز ہوائی تعریف میں ایک دوسرے سے سبقت لے جاتے نظر آئے۔ لِٹریچر میں زور نہیں ذہن لگتا ہے لکھاری کا اور نقاد کا بھی۔ تجاوز کہیں بھی ہو سوہنا نہیں لگتا۔ مونتاژ ایبنارمل توصیفی تجاوز اور عامیانہ جُگتوں کے درمیان اعلی فکشن مکدر ہو رہا ہے المیہ ہے۔ کسی کو افسانے پر بات ہی کرنا نہ آئی فوکس کیا ہوتا افسانہ اور اس کے مضمرات جو اس کتاب بھیتر بھید بنائے عیاں ہو رہے ہیں۔

افسانہ فارحہ کا passion ہے وہ اس کے بہت بھیتر جا چکی ہے اس کے لئے افسانہ لکھنا اتنا ضروری ہے جتنا پیاس بجھانا۔ اسے ہر وقت اپنی ادبی چھاگل میں H2O چاہیئے جو زندگی ہے، آدرش ہے۔ مطمع نظر ہے، نصب العین ہے، عشق ہے، کومٹمنٹ ہے، جو آکسیجن کی طرح اس کی کہانیوں میں پھیلے نظر آتے ہیں۔ قدرت اُس کو اِس AROMA کی اسیر رکھے۔ آدرشی تھوڑے گھمنڈی بھی ہوتے ہیں جینون لکھاری کا ایرو گینٹ ہونا ضروری ہے۔ وہ مُلتجی نہیں ہوتا، فرشی سلام نہیں کرتا، کسی کے زیرِ سایہ نہیں ہوتا، بچھ بچھ نہیں جاتا، ایٹ پار رہتا ہے، ’بے حد شکریہ‘ ’مؤدبانہ گزارش‘ ’سر جی سر جی‘ نہیں کہتا۔ اِس کے حضور اُس کے حضور، احترامات۔ تسلیمات۔ آداب عرض۔ سلام عرض، جُگ جُگ جیو، محبتیں، دعائیں سلامتی ہو وغیرہ وقت کا ضیاع اور غیر ضروری ہیں۔

مونتاژ چیخیں ہیں، آہ و بکا ہے، مرثیہ ہے، نوحہ ہے، وڈیرا شاہی، محلوں کی روح فرسا داستان، آستانوں سجادوں کی مسیحائی کے پچھواڑے بیگانگی کے بڑھاوے کی نشان دہی ہے۔ یہاں کہیں تخلیقیت کا دامن نہیں چھوٹتا۔ بہت سلیقگی سے اُفتادگانِ خاک کی بے بسی کی جنگ لڑی گئی کہ سوئے درد بھی جاگ اُٹھے۔ خوابیدہ درد کی ٹیسوں کو سننے کے لئے قوتِ سماعت باریک اور کشادہ آنکھیں درکار تھیں جو آج کے خود ساختہ نقادوں کے پاس نہیں ہیں کہ وہ ان کہانیوں کا تجزیہ کما حقہ کر سکیں۔ ان کہانیوں کے پیچھے بھی ملکیت کی گھناؤنی شکل کار فرما ہے جہاں انسانوں اور خصوصی طور پر سوانیوں کے بھاؤ گاجروں مولیوں کی طرح لگتے ہیں۔ منڈی کی کماڈٹی بن گئے لوگ مجھے یوں لگا بھیتر افسانے کہہ رہے ہوں۔ زمینی ملکیت کا اعلان ہی اس سیارے کی بے گھری، بھوک اور بے لباسی کے الھے زخموں پر پھاہے رکھ سکتا ہے۔ جہاں سب کے لئے ایک سے مواقع اور دولت کی ریشنل تقسیم ہو انسان انسانیت کے پنگھٹ پانی پئے اور ڈھور ڈنگر اپنے رھٹ کا آبِ شفاف۔ میں تو لکھاری ہی لیفٹ میں رہنے والے کو مانتا ہوں دوسرے سب آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں۔ دامِ خالی دیکھا اس میں جا گھسے حیات وہاں گزار دی۔ فارحہ کی کہانیوں میں Monologue زیادہ ہے جو اس خلفشاری، تشنج زدہ چفیرے کی دین ہے۔

مژدہ اے ذوقِ اسیری کہ نظر آتا ہے

دامِ خالی قفسِ مُرغِ گرفتار کے پاس ۔۔۔ غالب

لیفٹ تو یہاں ہے نہیں، سلطان راہی اکیلا دبی آوازوں کی آواز بنا رہا جب وہ کہتا ’اوئے جاگیردارا‘ تو سینما ہال بب بب بب بب بب بب سے گونج اُٹھتا میں نے اُس کے جیسچرز۔ کھلونی، لُک اور لہجے سے فیوڈلز کو ڈرتے دیکھا ہے۔ یا پھر کسی حد تل الطاف حسین نے وڈیروں۔ رسہ گیروں۔ فرسودگی لبریز زمین دارانہ نظام پر ضربیں لگائیں۔ میں اسی لئے اس کی واپسی چاہتا ہوں۔ فکشن میں نظریاتی سطح پر ہم فکشنسٹس کو اُنگلیوں پر گن سکتے ہیں۔ انور سجاد، سمیع آہوجہ، محمود احمد قاضی، اسلم سراج الدین، راشد جاوید احمد اور اب ان میں نپے تُلے تُرش اور کسیلے لہجے کے ساتھ فارحہ ارشد بھی شامل ہو گئی ہیں۔

’’اماں ھُومو نکھے کاری کرے ماریندا‘‘ کتنا بڑا المیہ ہے اتنے جدید دور میں عورت کا کاری ہونا۔ یہ حکومتوں۔ این جی اوز مذہبی ٹھیکیداروں کے منہ پر طمانچہ ہے، روایتوں کی بھینٹ چڑھتی سوانیاں اپنے پیروں کے نیچے جنت لِئے دہکتے کوئلوں پر چلاتے مار دی جاتی ہیں۔ یہ پنچایتی کھڑپینچ (مرد) جنت میں اعلی درجے کی دعائیں کرواتے ہیں۔ ایک جاہل مولوی سے جو انہیں سونے چاندی سے مزین دروازے سے گزرنے کی نوید دیتا ہے۔ بیمار معاشرے کا ڈاکٹر سانول بے تقصیر سُکھاں کے خیالوں میں در اندازی کرتا اسے کاری کروا دیتا ہے۔ یہ جھاڑیوں کا جگنو راہیں اور بھی تاریک کر جاتا ہے۔ یہ ایک بساند بھری رعونت کی بے چین کرتی کہانی ہے۔

ایک کہانی ہے ’امیر صادقین۔ تم کہاں ہو‘۔ میں تو اسے اس کتاب کی کہانیوں کی کہانی کہوں گا یہاں بیانیہ علامت اور تجرید کا ملگجا نہایت خوبصورتی سے استعمال ہوا ہے۔ یہ ایک جدید تر لہجے کی کہانی ہے۔ لڑکی خود ہی امیر صادقین بنتی کئی جہتوں میں پھیلتی موجودہ صورت حال کو جوڑتے ہائی برڈ وار۔ فلاسفی، وحدت الوجود۔ شیزوفرینک شکل اور تاریخ کی مختلف سطحیں چھوتی، کہیں بائیوگرافک ٹچز بھی رکھتی ہے۔ حالانکہ یہ کہانی جس کا مرکز رومینس ہے، وہاں سے پھُوٹتی اپنے پاؤں پسارتی ہمارے دل و دماغ پر چھا جاتی ہے۔ اس پیراگراف کے تناظر میں اسے دیکھتے ہیں

’’ایک اجتماعی قبر میرے دل میں بنی اور اس پر بیٹھ کر زار زار رونے لگی۔ زمین کی رگوں نے میرے قدموں کے نیچے سانسیں لینا شروع کر دیں اور پھر ان رگوں سے خون اُبلنا شروع ہوا اور میرا وجود اُس خون کی اونچی ہوتی لہر میں آنکھوں تک ڈوب گیا۔ سکوتِ مرگ ہر طرف چھانے لگا‘

’’تو شاہ بانو وہ آپ ہیں جو تاریخ کے اوراقِ پارینہ میں لکھی اپنی ہی کہانی سے خود باہر رہ گئیں‘‘۔

ہر کوئی تنہائی کے جمگھٹے اور ہجوم کی تنہائی میں کھو گیا۔ کہانی کی ہیروئن، امیر صادقین، اماں اور بنجر کولیکٹِو وزڈم اجتماعی قبروں کے مکین ٹھہڑے۔ کہانی کیا تھی در و دیوار جھُلاتا بھونچال تھا۔ ایک ملٹی لیئرڈ نپی تُلی یونیک کہانی۔ تا دیر نیند تو خراب کر دیتی ہے۔ یہاں قبریں، انسان، گدھ، بستی، قبرستان اور آدرش ایک سیدھ میں ہیں کسی تخصیص کے بغیر اپنی پہچان سے عاری ایک دوسرے میں اِک مِک ہوئے اپنی تجسیم ہونے سے ڈرتے ہوئے عجیب اضطراب میں ڈوبے ہوئے۔ منہ موڑے ہوا سے باتیں کرتے یا پھر خود کلامی سے ناطہ جوڑے۔ ’آر کی ٹائپل کُڈھب کردار‘ یہ زندہ بستی کا نقشہ ہے۔ آئیے دیکھیئے۔

’’بھوک لگی ہے‘‘ پیٹ پر ہاتھ رکھ کر اُس نے بائیں ہاتھ چلتے گدھ کی کھوپڑی والے کو بتایا۔ میری بھوک چھوٹے گوشت کی بُو سے اتنی طاقتور ہو گئی ہے کہ پاتال سے آسمان تک وہ اس جھرجھری کو اپنے پنجوں میں لے کر اُڑ سکتی ہے جو شہ رگ کاٹنے سے پیدا ہوتی ہے‘‘

’’گدھ کی کھوپڑی والا سوچ رہا تھا۔ شہر اور شہرِ خموشاں ایک دوسرے سے مسابقت میں ہیں جہاں دوسرے والا نمایاں نظر آتا ہے۔‘‘

مسافت سے بھی اس نے بہت کچھ لیا اور بہت گنا زیادہ کر کے ہمیں لوٹایا اس کی آنکھوں کے کھیت زرخیز ہوئے اس سفر سے تو اسے اپنی دھرتی پر ظُلم و زیادتی کا درد سِوا ہوا . وہ ایک لحاظ سے Cosmopolitan person ہے وطن کے خوابوں کا تقابل جب دوسرے ملکوں سے کرتی ہے تو ایک کُرلاہٹ سی بھر لاتی ہے ہم سے شئیر کرتی. وہ ریسرچر کے طور قدیم کنوؤں میں گرے جانوروں کا پتہ دیتی ہے اب کوئی مزکورہ چیز وہیں پڑی رہنے دیں اور غلاظت اور بد بُو کا پرچار کرتے پھریں اور کہتے پھریں کہ دسیوں بوکے پانی نکال دیا ہے مگر بساند نہیں جانے کی۔ سٹیٹس کو برقرار رکھنا اسی کو کہتے ہیں جس کا اظہار فارحہ نے کڑوے کسیلے انداز میں جا بہ جا کیا۔ جو قابلِ تحسین ہے۔

’زمیں زادہ‘ کو چھوٹی آنکھوں نہیں دیکھا جا سکتا اس کی گیرائی کینوس وسیع تر کر جاتی ہے۔ یہ ایک زمین زادہ دہشت گردی کی بھیٹ چڑھتے لاکھوں مانسوں کا غم لئے زندگی کی بازی ہارتا ہے وہ پرائی جنگ میں اسی ہزار نہیں مرے بلکہ کئی لاکھ امیدوں کے گھر خاکستر ہوئے۔ ’’مگر ایسی برزخی کیفیتوں میں کیا سوچتے؟ جب خون سے مستقل صندل اور اگربتیوں کی زعفرانی خوشبو آتی ہو اور جن کے جسم ہی ان کی قبریں ہوں، قبریں بھی بھلا کبھی سوچتی ہیں‘‘ لیکن اس کیفیت میں بھی ’’وہ جس کے سر سے جنگلی کبوتروں کی خوشبو آتی تھی، اُسے کافور کی بُو نے بد حواس کر دیا‘‘ اور وہ زندگی کی مہک کے پیچھے بھاگتا تندور والی عورت کے ہاتھوں کی گندمی روٹی کا رسیا ٹرک کے پہیوں کی چرچراہٹ کا شکار ہو گیا۔ ایک موت سے بے شمار اموات ہوئیں جیسے مصنفہ نے مقتل سے گھر تک لہو لکیر کھینچ دی ہو ’’آہ وہ سیاہ سفر کا پہلا باغی‘‘

اُس کی آنکھیں مضافاتی اور دل شہری ہے وہ ایک دیسی لڑکی اور انگریز عورت ہے محقق کے طور چیزوں کو کھوجتی اسے لوگوں کے بھیتر دیکھنا اور نیند پینڈنگ کر کے ’’جدوں راتیں چا لوک آرام کر دے اسیں اُٹھ کے کار کماونے آں۔ ۔ پنڈ پنڈ پھرنا ہے زُہد ساڈا تے گھرو گھری الکھ جگاونے آں‘‘’ کی وارث شاہ کی صدا سے ملاپ کرنا آ گیا کہ رات میں تخلیقی لمحے زیادہ میسر آتے ہیں۔ وژن بہتر ہو جاتا ہے۔

دو طرح کے فکشنسٹ ہیں۔ ایک اکہرے اور سطحی پن کا شکار اور دوسرے بھیتر اور دیوار کے اُدھر دیکھنے والے، منظر سے نیا منظر بنانے والے۔ فارحہ دوسری والی افسانہ نگار ہے۔ گلی میں اپنی ایک گلی بناتی شہر میں ایک اور شہر تعمیر کرتی۔ کہیں اسے تعمیر شدہ بستی کی بربادی کا بھی سامنا ہوتا ہے۔ وہ لیپا پوتی ایک حد تک کرتی ہے۔ اصل کو قائم رکھتے ہوئے روح تک جاتی ہے، جہاں ’آدھی خود کُشی‘ کہانی اسے بلا رہی تھی۔ فارحہ قاری کو ابہام کے گرداب میں گو مگو کی حالت میں چھوڑ اِدھر اُدھر نہیں ہو جاتی بلکہ وقوعہ سے کہانی اور کہانی سے افسانہ بناتی ترسیل کرتی ہے اور پھر اسی طرح واپسی پر ترتیب سے reconciliation کرتی ہے انجام تک abstract کا بھرم رکھتے ہوئے۔

ایسا لگا فارحہ نے کسی حویلی میں گری ہوئی سیلفی ہمیں دکھا دی ہو۔ بہت ہوش رُبا مُکھو اور بوڑھے زمین دار کی سیلفی جس میں ملکہ کی اُٹھان اور بوڑھے کا بھدا پن چھپ نہ سکا اور ان حویلیوں کا کھوکھلا پن عیاں ہوتا ہی چلا گیا۔ منظر کھینچنا مصنفہ کو آتا ہے جس میں ریڈر بہے چلا جاتا ہے۔ وہ یہاں توازن نہیں بگڑنے دیتی۔ ایک اِٹی دیوار پر چلتے فیوڈلز کے کرتوتوں اور بھیتر فرسودگی کی جھلک دکھاتے ہوئے۔ ’’حویلی مہر داد کی ملکہ‘‘ میں کئی مقام آئے کہانی ہاتھ سے چھوٹ سکتی تھی، سپاٹ ہو سکتی تھی، پر کہانی کار کا سگھڑاپا اس کی خوبصورتی کا پالن کر گیا۔

کچھ لوگوں نے کہا وہ جینڈر سے اوپر ہو، اپنی کہانی کی علامت یا بیانیہ کو لاتی ہے۔ کسی حد یہ بات درست ہے لیکن وہ پُر اعتماد طریق سے اپنی ٹین ایج اور سُگھڑاپے تک کی پوری نسوانیت کے ساتھ کھڑی زندگی کے خیمے کی طنابیں کستی نظر آتی ہے۔ ایسا کبھی نہیں کہتی ’’مجھے اگلے جنم بِٹیا نہ کیجیو‘‘ اسے اگلے جنم بھی عورت ہونے پر کوئی شرمندگی نہیں۔ سوانی ہونا اس کا تفاخر ہے، ڈھال ہے۔ وہ تمسخر کرنے والے پر پوری طاقت سے حملہ آور ہوتی ہے۔ کہیں کہیں اس نے عورت کو عورت کا استحصال کرتے رگیدا ہے۔ وہ بھرپور جمالیات کے ساتھ حیات گزارتی خاتون ہے اور اس میل شاونزم کے شکار معاشرے سے نبرد آزما ہے۔ وہ ہجوم پسند خواب پرور تنہائی سے بر سرِ پیکار ہے یہ باہر بھیتر کی آئیسولیشن اسے ایک انرجی سے بھر دیتی ہے۔

مجھے لگا جیسے اُس کی کہانیاں اتنی پُر اثر اور ڈاؤن ٹُو ارتھ ہیں۔ اُس نے اپنے پرس میں منشی پریم چند صاحب کا انجمن ترقی پسند مصنفین کے پہلے اجلاس کی صدارت کا خُطبہ رکھا ہے۔ گاہے گاہے اُسے دیکھتی رہتی ہے۔ وہ تو رومینس کی بات کرتے بھی آدرش جُڑت سے غافل نہیں۔ اسی کو کومٹمنٹ کہتے ہیں۔ فارحہ کی کہانی اپنی تہداری میں گنجلک نہیں رہتی، اپنا بھید خود کھولتی ہے، پر پھیلاتی چھتری ڈھونڈتی ہے، سیٹیوں پر کبوتر بچھے چلے آتے ہیں، خواب بنتے بستی کے مانسوں کے۔

اس کہانی میں خدا عجیب شکست و ریخت کا شکار رہا اُس کی شکل بنتی بگڑتی رہی کبھی مہربان کبھی نا مہربان۔

’’اُس نے کئی بار مدرسے کے مولوی صاحب کو لڑکوں سے اکثر یہ کہتے سنا تھا کہ ہمیں جو کچھ دیتا ہے ہمارا خدا دیتا ہے۔ تو کیا اس کا خدا اتنا غریب ہے کہ اس کے پاس اسے دینے کے لئے کمبل ہی نہیں؟ اُس نے اداسی سے سوچا۔ پھر تو اس کا خدا بھی یقیناً آسمانوں میں اُس کی طرح کہیں کانپ رہا ہو گا۔ آہ بیچارہ خدا‘‘ ویسے بھی بچے خدا کا عجیب تصور رکھتے ہیں۔ میں نے راہ چلتے ایک بچے کو کہتے سنا کہ خدا اتنا بڑا اور اس کا گھر اتنا چھوٹا سا۔ بے بسی کی تصویر کھینچنی ہو یا اسے مجسم دیکھنا ہو تو یہ کہانی پڑھ لیں مگر یہ مورکھ مورت تڑپا دے گی۔ برفاب۔ abusing۔ ’’ڈھائی گز کمبل کا خدا‘‘۔ بچہ۔ شہر کی پامالی کی اس سے بد تر شکل کیا ہو سکتی ہے۔ ’’اچانک گہری نیند ہی کی حالت میں اسے لگا کمبل والا خدا اُس کی جان لے رہا ہے ۔۔۔ آہ ہ ہ۔ درد کی شدید لہر کے ساتھ کوئی سخت سی چیز اُس کی پُشت میں گھُستی چلی جا رہی تھی۔‘‘

محبت کے رنگ بڑے عجیب و غرب ہوتے ہیں۔ ایک شخص جو مرکز نگاہ ہو، چاہنے والے ایک سے زیادہ ہوں، ہم دوسرے کی اس پر پڑتی نگاہ کو ’سائکو‘ کہنے لگتے ہیں۔ یہاں بھی ایک ٹرائینگل جو پاپا۔ بی بانہ اور زوئی ڈارلنگ نے بنائی اس قدر خوفناک نکلی کہ جان لیوا ثابت ہوئی۔ یعنی بی بانہ موت کے منہ میں چلی گئی۔ سگی ماں اور بیٹی دُشمن دار ہو گئیں۔ یہ محبت کبھی اتنی ظالم ہو جاتی ہے۔ کہانی ’’بی بانہ اور زوئی ڈارلنگ‘‘ انجام تک پہنچتے آدمی کا در و بست ہلا کے رکھ دیتی ہے، نیند اُڑا دیتی ہے۔ وَٹ آ بیوٹی فُل شارٹ سٹوری۔

’’توبہ سے ذرا پہلے‘‘ کا موضوع مشکل تھا۔ چھوٹی سی کہانی بڑے وژن کو پالے ہوئے تھی۔ یہ جملہ ذرا کھٹکا ’’غُربت تو اب اک کلیشے بن چکی ہے‘‘ جو نئی پود کی بے سمتی کی طرف اک اشارہ بھی ہے۔ پُرانی تصویریں ہٹنے سے کہانی جس طرح من مانی کرتی ہے اپنی مرضی کے موڑ مُڑتی آئینے توڑتی، انہی کی کرچیوں سے دیواریں میں در بناتی، شگاف کرتی، نتارا کرتی یے۔ نیا منظر نامہ بناتی ہے۔ جاگیر دار۔ بلقیسی۔ جاگیر دار کا بیٹا۔ بلقیسی کی بیٹی۔ نکاح خواں اور ڈرائیور ایک اور نقشہ کھینچتے ٹاٹ میں مخمل کا پیوند دکھاتے ہیں۔ پہلے اس کی فضا دیکھئے:

’’بلقیسی جب بھی اُن کی قبر پر جاتی اسے لگتا بڑے جاگیردار صاحب اسے دیکھ کر جیسے استہزائیہ انداز میں قہقہہ لگا کر کہتے ہوں۔ کیوں بلقیسی کبھی سنا ہے کہ مخمل میں ٹاٹ کا پیوند لگا ہو‘‘ رومن سلطنت تک بہن بھائی کی شادی کر دی جاتی تھی۔ یہاں بھی بڑی عمیق دسترس سے مصنفہ نے کوئی وریدوں بھیتر چلتے مرد عورت کے رشتے کو جوڑ دیا یہاں اسی مشاقی کی ضرورت تھی۔

اُس نے فرد کے اکہرے پن اور اکلاپے کو استعارے میں ڈھال کر بھیتر تہہ در تہہ خوابوں کا جمگھٹا لگایا اور ان کا نیندوں سے دور رتجگا بنایا۔ میلان کندیرا نے صحیح کہا ’’فرد کا جوہر استعارے کی روشنی میں آشکار ہوتا ہے‘‘۔ اس کا استعارے کا استعمال اسے جدا اسلوب سے بھرتا ہے وہ ایک مشاق کہانی کار کی طرح اندر سے لبریز کرتی باہر آتی منظر نامے میں اپنا بھرپور حصہ ڈالتی ہے۔ اتنی ہی ملاوٹ کرتی جتنی اس کردار اور موضوع کو فکشن میں درکار ہے۔

’’اُس نے لپک کر دروازے کو پکڑنا چاہا اور ہوا ہی میں لڑکھڑا گیا جہاں دروازہ ہونا چاہیئے تھا، وہاں نہیں تھا اسے یوں محسوس ہوا جیسے دروازے نے اپنی جگہ کسی شرارتی بچے کی طرح بدل لی تھی۔ تاہم اُس کی انگلیوں کی اگلی پوروں نے شاید دروازہ عین وسط سے چھو لیا تھا کہ دونوں پٹ قدرے کھُل گئے تھے، ایک مدھم سی چرچراہٹ کے ساتھ‘‘۔ ’’مجھے دروازے تک پہنچنا ہے‘‘۔ ’’وہ سمت بھول چکا تھا‘‘، ’’تاریکی ظالم ہے جابر ہے‘‘۔ ہیلوسینیشن بھری حقیقت سے اس کردار کے توسط سے اطراف کی تیرہ و تار زمین کی کیفیت کو باندھا گیا ہے۔ ’’تلووں سے چپکا آخری قدم‘‘ ہی تو رخنہ ہے اس سوسائیٹی کا کالی رات نے ڈیرہ ڈال رکھا ہے اور وہ کُرلاتا ہے ’’مجھے تو سارے کام آنکھوں کی روشنی سے کرنے والے اتے ہیں‘‘ اور آنکھیں گدھیں اور چیلیں نگل چکی ہیں یہ کہانی اس سیارے کی تیسری دینا کے مانسوں کی ہے کیوں کہ مصنفہ کی کتھا کا کینوس اُفقی سطح پر چلتا فسوں سمیٹتا ہے۔

میں نے دو سال پہلے فارحہ کی پانچ چھ کہانیاں پڑھنے کے بعد کہا کہ وہ بہت نویکلی اور بڑی فکشنسٹ بننے جا رہی ہے۔ سو آج اُس کی افسانوں کی پہلی کتاب ”مونتاژ” زمین کو چھُوتی نقش بر خاک بن چکی ہے۔

 

مجھے ایسا لگا

میری اُس سے ملاقات ہو چکی ہے

کسی کہانی کے زمستان میں

ٹھٹھرتے

الاؤ کی تلاش میں

کہانی پڑھنے کو بلاتی ہے بیدار کرتی چرکے لگاتی ہے خوں چکاں کرتی بجرے پر بٹھاتی بیچ منجدھار اُچھالتی چلی جاتی ہے۔ پڑھنے والا کہانی ہی میں کہیں بے پناہ ٹھنڈ اور ریچھوں کے مقبوضہ برفاب میں گُم ہوا جاتا ہے پوری بیگانگی اوڑھنے کی کیفیت کے درمیان۔

وہ تپش پھیلاتا کُوکتا ہے

آگے ہو میخانے کے نکلو عہدِ بادہ گُساراں ہے

فارحہ۔ کہانی۔ قاری اور میر کا غم جیسے سانجھ میں آ گیا ہو۔

٭٭

’’ادبِ لطیف‘‘ اکتوبر 2022 میں شائع شدہ

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے