پل دو پل کی کہانی (آپ بیتی) ۔۔۔ ڈاکٹر سیّد اسرار الحق سبیلی

تصنیف: ڈاکٹر محمّد اسلم فاروقی

سالِ اشاعت: ۲۰۲۳ء

صفحات: ۱۳۰

قیمت: دو سو روپے

ناشر: تعمیر پبلی کیشنز حیدرآباد

ملنے کے پتے: ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی، فون: ۹۲۴۷۱۹۱۵۴۸، ہمالیہ بک ڈپو نام پلّی حیدرآباد، ہدیٰ بک ڈپو پرانی حویلی حیدرآباد

 

ڈاکٹر محمّد اسلم فاروقی حیدرآباد و ریاست تلنگانہ کے علمی و ادبی حلقوں میں ایک استاد، ادیب، ناقد، مصنّف، مضمون نگار، اردو کمپیوٹر، اردو صحافت، ماس میڈیا اور سوشل میڈیا کے ماہرین میں شمار ہوتے ہیں۔ ادھر انہوں نے طنزیہ و مزاحیہ ادب بھی تحریر کرنا شروع کیا ہے۔ ان تمام خصوصیات کے علاوہ انہوں نے اپنی آپ بیتی بعنوان: ’’پل دو پل کی زندگانی‘‘ کے نام سے شائع کر کے خود نوشت سوانح نگار کی حیثیت سے بھی اپنا نام درج کرایا ہے۔

زیرِ نظر کتاب میں حافظ اسلم فاروقی نے خاندانی حالات، پرائمری اور ہائی اسکول کی یادیں، حفظ اور انٹر کی تعلیم، ڈگری اور جامعات کی اعلیٰ تعلیم، شادی خانہ آبادی، ملازمت، والدین کے سایہ سے دوری، تصنیف و تالیف، ترجمہ نگاری، ٹیکنالوجی کا سفر، اردو زبان و ادب سے وابستگی، مذہبی وابستگی، سفرِ حج اور زندگی کے دیگر رویّے سے متعلّق عام فہم اور سلیس انداز میں اپنی آپ بیتی تحریر کی ہے۔

اس آپ بیتی تحریر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اردو ذریعۂ تعلیم اختیار کرنے والوں کو حوصلہ ملے کہ ان کے لئے بھی ترقّی کے یکساں مواقع ہیں۔ نیز ان کے دوست احباب اور اردو کے شاعر و ادیب کو بھی اپنی آپ بیتی لکھنے کی تحریک و ترغیب ملے۔

’’پل دو پل کی زندگانی‘‘ کی وجہِ تسمیہ انہوں نے یہ بتائی ہے کہ دنیا کی اس لاکھوں سال کی زندگی میں ایک انسان کے پچاس سال صرف ایک یا دو لمحے ہوتے ہیں۔ یا یوں کہئے کہ آخرت کی دائمی زندگی کے مقابلہ میں دنیا کی محدود زندگی پل دو پل سے زیادہ نہیں ہے۔

سببِ تالیف بیان کرتے ہوئے انہوں نے لکھا ہے کہ:

’’مجھے آپ بیتی لکھنے کا خیال اس وقت آیا جب جناب مجید عارف صاحب نے اپنی ویب سائٹ مائی نظام آباد

ڈاٹ کام کے لئے مجھ سے نظام آباد کی یادوں پر مشتمل کچھ مضامین لکھوائے تو میں نے اپنے اسکول کی یادوں پر تفصیلی

مضمون لکھا۔ یہ مضمون اہلِ نظام آباد اور میرے بچپن کے ساتھیوں اور اساتذہ نے بہت پسند کیا تھا۔ اس کے بعد والد

صاحب کے انتقال پر جو تاثّراتی مضمون لکھا اس میں بہت سی باتیں کام کی جمع ہو گئیں۔ تیسرا مضمون میں نے ریڈیو کی

دنیا کے تعلّق سے لکھا۔ اس کے بعد دسہرہ کی تعطیلات میں مسلسل مختلف عنوانات پر لکھتا رہا۔ اس طرح میری عملی زندگی کی پچاس سال کی یادیں اس آپ بیتی میں محفوظ ہو گئیں۔‘‘ (ص: ۵)

کتاب کا پیشِ لفظ ڈاکٹر محمد ناظم علی کا تحریر کردہ ہے۔ انہوں نے ڈاکٹر اسلم فاروقی کو اردو ایک ایسا مجاہد قرار دیا ہے جس نے ناکامی نہیں دیکھی، بلکہ جہدِ مسلسل کے ساتھ زندگی کے میدان میں کامیابیاں حاصل کرتے رہے۔ انہوں نے اس بات کا اظہار کیا ہے کہ بہت عرصہ سے اردو کے کسی ادیب و شاعر نے اپنی آپ بیتی پیش نہیں کی۔ اس لحاظ سے ڈاکٹر اسلم فاروقی نے اپنی زندگی کی نصف صدی کے تجربات کو آپ بیتی کی شکل میں پیش کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے وہ خوش آئند قدم ہے۔ اس آپ بیتی میں ایک داستاں گو اور قصّہ گو کی کیفیت ہے۔ اسلوبِ بیاں سادہ اور دل چسپ ہے۔ اس آپ بیتی میں شہر نظام آباد اور حیدرآباد کی گزشتہ نصف صدی کی سماجی اور تہذیبی داستاں کی جھلک بھی مل جاتی ہے۔ (ص: ۶۔ ۷)

فاروقی صاحب کے آباء و اجداد کا تعلّق نظام آباد اور بودھن کے درمیان واقع ایک موضع جانکم پیٹ سے تھا۔ بودھن شہر کی وجہِ تسمیہ کے بارے میں یہ روایت مشہور ہے کہ اورنگ زیبؒ نے جب دکن فتح کرنے کے لئے اس علاقہ میں قیام کیا تو رات میں ان کی تہجّد کی نماز چھوٹ گئی۔ ان کی زندگی میں کبھی تہجد اور فجر کی نماز قضا نہیں ہوئی تھی، تو انہوں نے اس علاقہ کے بارے میں کہا: ’’ایں جائے بودن نیست‘‘ یعنی یہ رہنے کی جگہ نہیں ہے۔

اسلم فاروقی صاحب کے دادا اسمٰعیل فاروقی جانکم پیٹ سے نظام آباد محلہ بھوئی گلی منتقل ہو گئے۔ ڈاکٹر اسلم فاروقی کا بچپن ۱۹۸۵ء تک نظام آباد کے محلہ پھولانگ کے آبائی مکان یعقوب منزل میں گزرا۔ ان کے پردادا یعقوب کے نام پر اس گھر کا نام یعقوب منزل رکھا گیا تھا۔ اسلم فاروقی کے بقول: ’’یہ مکان آج بھی ہمارے خوابوں میں آیا کرتا ہے، حالاں کہ زندگی میں کئی مکانوں میں رہنے کا اتّفاق ہوا، لیکن وطن کی مٹّی کی ایسی کیا محبّت رہی کہ وہی کویلو والا گھر ہماری یادوں اور خوابوں کا حصّہ رہ گیا۔‘‘ (ص: ۱۰)

اسلم صاحب کے دادا اسمٰعیل فاروقی کروڑ گیری کے بڑے افسر تھے، اور جب نظام حکومت میں دیہاتوں کے معائنے کے لئے جاتے تو ان کی کافی قدر ہوتی تھی۔ اسلم صاحب کے والد محمد ایّوب فاروقی ابھی ساتویں آٹھویں جماعت کے طالبِ علم تھے کہ ان کے دادا کے دادا اسمٰعیل فاروقی کا مختصر علالت کے بعد انتقال ہو گیا۔ ان کی دادی رحمت بی صاحبہ نے بڑے نامساعد حالات میں اپنے بچوں کی پرورش کی، اور سب کو پڑھا لکھا کر اچھا انسان بنایا۔ ان کے سبھی بیٹوں کو سرکاری ملازمت ملی، اور بیٹیوں کی اچھے گھرانوں میں شادیاں ہوئیں۔

اسلم صاحب کے والد صاحب نے عثمانیہ میڈیکل کالج حیدرآباد میں ایک سال تک ایم بی بی ایس کی تعلیم حاصل کی، لیکن مالی مجبوریوں کی وجہ سے تعلیم مکمّل نہیں کر سکے۔ پھر انہوں نے ایوننگ کالج سے بی اے کیا۔ اس کے بعد انہوں نے جامعہ عثمانیہ سے ایم۔ اے اردو میں داخلہ لیا تھا۔ اس وقت ان کے درسی ساتھیوں میں پروفیسر سیّدہ جعفر اور پروفیسر اشرف رفیع صاحبہ تھیں اور صدرِ شعبہ پروفیسر مسعود حسین خان تھے۔ لیکن وہ ایم۔ اے مکمّل نہیں کر پائے۔ ان کی خواہش کی تکمیل ان کے بیٹوں کے ذریعہ پوری ہوئی۔ ان کے بڑے فرزند ڈاکٹر محمد احسن فاروقی نظامیہ طبّیہ کالج چار مینار میں پروفیسر ہیں، اور دوسرے فرزند ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی گورنمنٹ ڈگری کالج ظہیرآباد میں پرنسپل ہیں۔ پہلے انہوں نے آئی ٹی آئی میں ملازمت اختیار کی، بعد میں محکمہ امپلائمنٹ اینڈ ٹریننگ میں نوکری کی اور ترقّی کرتے ہوئے امپلائمنٹ آفیسر عادل آباد کے عہدہ سے سبک دوش ہوئے۔ اس کے بعد دو سال تک سنچری ہائی اسکول انگلش میڈیم ٹولی چوکی حیدرآباد میں پرنسپل کی خدمت بھی انجام دی۔

ان کے والد محمد ایوب فاروقی صابر (۱۹۳۳۔ ۲۰۱۸ء) ایک اچھے شاعر تھے۔ پاگل عادل آبادی، بیلن نظام آبادی اور تنویر واحدی اکثر اصلاح سخن کے لئے ان سے رجوع ہوتے تھے۔ ان کا شعری مجموعہ ’’آخر شب کے ہم نشیں‘‘ کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔ انہوں نے چند مزاحیہ مضامین اور کچھ افسانے بھی تحریر کئے ہیں۔ انہوں نے کئی نوجوان شعراء کی سرپرستی کی ہے۔ ان کی ایک نظم: ’’تیری میری آس وہی ہے‘‘ گری راج کالج نظام آباد کے اردو نصاب میں شامل کی گئی ہے۔ ان کا ایک شعر ہے:

مجھ سے بھی وہ یہ پوچھ رہے ہیں کہ میں کیا ہوں

اب کیسے بتاؤں انہیں آپ اپنی صدا ہوں

اسلم فاروقی صاحب کے چھوٹے چچا محمد انیس فاروقی ایک اچھے افسانہ نگار اور شاعر تھے۔ ان کے افسانوں کے پانچ مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ اسلم فاروقی کے والد کے ماموں سیّد واحد علی واحد بھی شاعر تھے۔ ان کے دو شعری مجموعے: ’’متاعِ غم‘‘ اور ’’انبساطِ الم‘‘ شائع ہو چکے ہیں۔ وہ ڈاکٹر حمید اللہؒ کے شاگرد اور بمبئی میں یوسف ناظم کے رفیقِ کار رہے ہیں۔ اسلم صاحب نے اپنے والد اور والد کے ماموں کی زبانی حیدرآباد کی ماضی کی علمی و ادبی محفلوں کا ذکر، ہندوستان کی آزادی، سقوطِ حیدرآباد کے واقعات، پولیس ایکشن اور نظام آباد کے فسادات کی خون ریز داستانیں سنی ہیں۔

اس طرح اسلم فاروقی صاحب کو اپنے آباء و اجداد کی علمی و ادبی وراثت حاصل ہوئی ہے۔ اور وہ اس وراثت کا تحفّظ اور ترقّی کے لئے پوری محنت اور جستجو میں ہمیشہ لگے رہتے ہیں۔ وہ اپنے والد ماجد کا دوسرا مجموعۂ کلام مرتَّب و شائع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

اسلم فاروقی صاحب کا حافظہ بہت قوی معلوم ہوتا ہے۔ ان کے حافظہ میں بچپن اور جوانی کی تمام باتیں، یادیں، واقعات، تمام ساتھیوں اور تمام اساتذہ و متعلّقین کے نام محفوظ ہیں۔ بچپن میں اسکول کی جس ٹیچر نے ان کے بکھرے بالوں میں کنگھا کیا تھا، بچپن کے کھیل، سرگرمیاں، کرکٹ کی کمنٹری اور ریڈیو کے پروگرام انہیں اب بھی یاد ہیں۔ تیلگو استاد عبد الجبّار صاحب انہیں کتابی کیڑا کہتے تھے۔ انگلش میں کمنٹری سننے سے ان کی انگریزی اچھی ہو گئی۔ انہوں نے ملک کے مشہور روزنامہ سیاست میں سب ایڈیٹر کی حیثیت سے انگریزی خبروں خصوصاً کھیل کی خبروں کے ترجمے کئے ہیں۔ ریڈیو، اخبارات اور کتب کے مطالعہ کے شوق سے ان کی معلوماتِ عامّہ میں کافی اضافہ ہوا، اور اس کے نتیجہ میں انہیں مسابقتی امتحانات میں کامیابی حاصل ہوئی۔

ان کا بچپن اور جوانی بڑی معصومیت میں گزری۔ آغا خاں اسکول نظام آباد میں سات سال کے دوران انہوں نے کسی بچی سے بات نہیں کی، یہاں تک کہ حفظ کے بعد ڈگری میں فیضانِ مکتب کے زیرِ اثر لڑکیوں کے ساتھ درس میں شریک ہونے سے گریزاں رہے۔ شریکِ حیات کے انتخاب کا خیال بھی انہیں نہیں آیا۔ ٹیچر ٹریننگ کے دوران ایک سنجیدہ لڑکی کے بارے میں کچھ ارادہ بھی ہوا تو معلوم ہوا کہ اس کی منگنی ہو چکی ہے، گویا عشق کی چنگاری سلگنے سے پہلے ہی بجھ گئی۔

اسلم فاروقی صاحب کا خاندان بھرا پرا خاندان ہے۔ ان کے والد پانچ بھائی اور چار بہنیں تھیں۔ سب صاحبِ اولاد، تعلیم یافتہ اور نوکری پیشہ ہیں، اور ملک و بیرونِ ملک پھیلے ہوئے ہیں۔ اسلم صاحب کا سبھوں سے ربط ہے۔ ان کے دوستوں کا حلقہ بھی کافی وسیع ہے۔ سوشل میڈیا کی وجہ سے اس میں اور بھی وسعت آ گئی ہے۔ ان کا شمار سوشل میڈیا، ماس میڈیا، صحافت، کمپیوٹر، انٹرنیٹ اور دیگر جدید ذرائع ابلاغ کے ماہر کی حیثیت سے ہوتا ہے۔ وہ اردو کو جدید ذرائع ابلاغ سے مربوط کرنے کے لئے ہمیشہ سرگرمِ عمل رہتے ہیں۔

میری اور اسلم فاروقی صاحب کی تعلیم، ملازمت اور وضع قطع میں بہت حد تک یکسانیت ہے، یہاں تک کہ اردو ٹیچر ٹریننگ میں ان کی جو استاد تھیں وہی میری بھی استاد رہیں: محترمہ قمر سلطانہ۔ اس لحاظ سے ان کی آپ بیتی میرے لئے زیادہ باعثِ کشش رہی، اور کہیں کہیں میری آپ بیتی محسوس ہوئی۔ میں سمجھتا ہوں کہ میری طرح اردو کے دیگر مسافر، طلبہ، اساتذہ اور اردو سے عشق رکھنے والوں کے لئے یہ کتاب مفید اور حوصلہ بخش ثابت ہو گی۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے