غزلیں ۔۔۔ محمد صابر

عجیب پھیر ہے دیوار و در پھرے ہوئے ہیں

مرے پڑوس کے آدم نگر پھرے ہوئے ہیں

 

تمہارے شہر کے لوگوں سے کیسے بات کروں

تجھے نکال کے ساروں کے سر پھرے ہوئے ہیں

 

ہمارے بت بھی پڑے ہیں مراقبے میں یہاں

کئی خمار میں ہیں بیشتر پھرے ہوئے ہیں

 

ڈرے ہوئے تھے پرندوں کے سر پھٹے ہوئے تھے

دو چار چھوڑ کے اکثر کے پر پھرے ہوئے ہیں

 

بنی ہوئی ہے یہاں بھی خمار ساز فضا

دھمال کرتے ہوئے کچھ شجر پھرے ہوئے ہیں

 

ترے پیام میں جو خاص تھا مٹا ہوا تھا

ترے پیام کے زیر و زبر پھرے ہوئے ہیں

 

سمندروں نے یہاں ساحلوں سے تلخی کی ہے

یہی ہے آج کی تازہ خبر پھرے ہوئے ہیں

 

چمن میں بانٹ کے موسم رتیں چلی گئی ہیں

جو رہ گئے تھے کھڑے بے ثمر پھرے ہوئے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

مِری مان اے اخی! اچھی نہیں ہوتی

بہت سنجیدگی اچھی نہیں ہوتی

 

بہت دیوانگی اچھی نہیں ہوتی

مگر کیا واقعی اچھی نہیں ہوتی

 

ہمیں کیا زندگی کا تجربہ کم ہے

نہ ہوتی ہو بُری، اچھی نہیں ہوتی

 

ہر اک شے میں تری جلوہ گری توبہ

نظر جیسے بُری اچھی نہیں ہوتی

 

تری آنکھیں بہت کچھ بول دیتی ہیں

ادھوری خامشی اچھی نہیں ہوتی

 

بہت پابند مُلّانی سی لگتی ہے

غزل آزاد بھی اچھی نہیں ہوتی

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے