آنکھوں کے زخم اور ہلدی ۔۔۔ تنویر قاضی

سبین علی کی کہانیوں کی کتاب ”ہلدی بیچاری کیا کرے ‘

‘سفید خون کی بڑی قیمت ہے ‘ باری علیگ کی کتاب ” کمپنی کی حکومت” کالونیوں کی بربادی کی داستانیں سناتی ہے۔ ۔ کہانی ” گاڈ سیو دا کنگ” میں تاریخ کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے جوڑ کر ایک ایسا پُل بن جاتا ہے۔ ۔ جس پر کھڑے ہو کر ہم ‘ایسٹ انڈیا کمپنی’ کی چیرہ دستیاں دیکھ سکتے ہیں۔ ۔ ان سفید لوگوں کا حریص چہرہ نمایاں ہو جاتا ہے۔ ۔ سرکاری مورخ کی لکھی تاریخ میں کارپٹ کے نیچے فرمانرواؤں کے لہو لتھڑے کرتوت بیان کرنے کی بجائے ان کی مدح سرائی کا عنصر غالب ہوتا ہے اور فکشن رائٹر کی کتھا اپنے علامتی اور تجریدی طریقے سے اس وقت کا سارا مسخ شدہ نظام سامنے لے آتی ہے۔ وہ ایسے ممنوعہ علاقوں تک بھی پہنچ جاتا ہے جہاں اجتماعی قبریں اور مفتوحہ علاقے کے لوگوں کی چیخیں صاف سنائی دیتی ہیں۔ ۔ سرکاری کارندے کچھ اور سناتے ہیں۔ ۔ عبداللہ حسین نے ‘اُداس نسلیں ‘ میں جلیانوالہ باغ کا واقعہ جو ایک مچھیرے کی زبانی بیان کیا ہے وہ اصل تاریخ ہے۔ ۔

"ہلدی بیچاری کیا کرے ” کم وسائل لوگ متاثرہ جگہ پر ہلدی لگا لیا کرتے ہیں۔ ۔ یہاں تو آنکھیں زخمی ہیں۔ ۔ قلبوت کے ساتھ روح بھی لنگڑاہٹ کا شکار ہے۔ ۔ ہلدی بیچاری کیا کرے۔ ۔ جبر کے ماحول میں پرندے بھی متاثر ہوتے ہیں۔ انسان بھی تو ذرا بڑے پنجرے کا پرندہ اور قیدی ہے۔ ۔ قفس سے سر ٹکراتا تصویر بن جاتا ہے۔ ۔ سبین علی نے اس کہانی مین اچھا نقش بنایا۔ ۔

"کتن والی” نچلے طبقے کے لوگوں کا مرثیہ ہے۔ ۔ غُربت جو کُفر کے قریب لے جاتی ہے۔ ۔ وہ اس کہانی میں نظر اتی ہے۔ ۔ بھولا پُڑی پر لگا ہوا۔ ۔ قبر کی دیواروں سے وقت سے پہلے جا لگا۔ ۔ وقت سے پہلے ٹوٹ جاتے ہیں جن کھلونوں کی دیکھ بھال نہ ہو۔ ۔ یہ ایڈکشن افغان جہاد کے مالِ غنیمت میں سے بانٹی گئی۔ جس نے بے شمار گھروں میں موت بن کر دستک دی۔ ۔ مائی جس کا ایک چھوٹا سا خواب ڈھائی مرلے کا مکان تھا وہ اس کی جھگی بھی بہا کر لے گیا۔ ۔ اور اُدھر ناجائز دولت سے عمرے اور حج کرنے والے بھیڑیئے ہزاروں ایکڑ کی رہائش میں خوابِ خرگوش کے مزے لوٹتے رہے۔ ۔ جن کا مذہب کہتا ہے۔ ۔ دوسروں کے لئے بھی وہی پسند کرو جو اپنے لئے کرتے ہو۔ ۔ یہاں مصنفہ نے صحیح کہا "روئی کی پُونی کی بجائے کسی نے مائی کا وجود تکلے کی سُوئی میں پرو ڈالا ہے ” masses کی کہانیاں لکھنے کے لئے ان جیسا روپ دھارنا پڑتا ہے۔ ۔ ان کرداروں جیسے چولے پہننے پڑتے ہیں۔ ۔ جیسے ” مٹی کی مونا لیزا” میں اے حمید نے چولا پہنا اسی طرح سبین علی نے مائی کا روپ بدلا۔ ۔ میرے خیال میں تو اس جاں لیوا مایوسی کو اور بڑھنا چاہئے کہ اسی میں سے امید کے در وا ہوں گے۔

"پُتلیاں ” وہ کھوپڑیوں میں شراب بھر کر پیتے تھے۔ ۔ یہ فٹ بال بنا کر کھیلیں گے۔ ۔ جیت کس کی ہو گی۔ ۔ ڈاہڈے کی۔ ۔ جس کے ہاتھ میں ان پتلیوں کی ڈور ہو گی۔ وسائل والے ہی یہ روبوٹ خرید سکیں گے۔ ۔ emporium میں بھاؤ لگیں گے۔ ۔ سکت نہ ہونے پر اُفتادگانِ خاک ایک دوسرے کا منہ تکیں گے۔ ۔ سنا ہے آنے والے دنوں میں aging بھی ختم ہو رہی ہے۔ ۔ لوگ اپنی مرضی کی زندگی من بھاتی عمر کے ساتھ جئیں گے۔ ۔ لیکن یہ مہنگا سودا کون خرید سکے گا۔ ۔ ایسے میں تو غریب غربا کے اعضاء کی قیمت لگے گی۔ ۔ تیسری دینا جس میں ترقی یافتہ لوگوں کا خام مال پڑا ہے۔ ۔ اس کا استحصال پہلے جیسا ہی ہو گا۔ ۔ وہ اپنے آقاؤں کے سامنے قرض کے لئے اپنا ہی سامان خریدنے کو گڑ گڑا رہے ہوں گے۔ ۔ بچپن میں وہ چارپائی پر پردہ ڈال کے پیچھے بیٹھا شخص پتلیاں نچاتا تھا۔ اب وہی پتلیاں digitalized ہو کر رقص کرتی ہیں۔ ۔ ان میں زیادہ بے باک پتلیاں missing persons میں شمار ہونے لگتی ہیں۔ ۔ یہ ایک اچھی کہانی ہے۔ ۔

"لپ اسٹک” گھریلو فضا مین جو کشمکش ہے وہاں انا، پرانی اقدار کے آگے جھکاؤ اور نئی روش اختیار کرتے ہوئے نفسیاتی کھچاؤ کی اچھی تصویر کشی ہوئی۔ ۔ صابرہ کا لپ اسٹک لگانے کا شوق اب اس کی بیٹی پورا کرے گی میکے سے سسرالی دہلیز پار کرتے تشکیک، ، اندیشے اور روایتی رسوم و رواج کی بکل اوڑھے۔ ۔ صابرہ کی لنگڑاہٹ کے سائے میں گھرا یہ گھر شاید آہستہ آہستہ نئے زاویہ نگاہ کو اپنا لے۔ ۔ ۔

"ییرنٹس ڈے ” اپنی اپنی خواب گاہوں کی کھڑکیوں میں کھڑے ہم ارد گرد کے ماحول کی گھمبیرتا کو بھولے ہوتے ہیں۔ ۔ اس کہانی میں تیسری آنکھ اس لڑکی کے لئے پُل کا کام کرتی ہے اور ڈھارس دیتی ہے۔ ۔

"گگڑی” یہ ایک ایسا کردار ہے جو ہماری بد بُو اُٹھائے پھرتا ہے یعنی ہم اپنی بد بُو سے کتراتے اپنے آپ کو بھینسوں کے باڑے میں چھوڑ آتے ہیں۔ اور ہمیں خبر تک نہیں ہوتی۔ ۔ یہ بیگانگی کے نہایت پست درجے میں چلے جانے کی طرف اشارہ ہے۔

” کافی مگ” یہ مراعات یافتہ لوگوں کی کمیں گی اور پسے ہوئے طبقے کی نمائندہ خادمہ کا قصہ ہے۔ ۔ جو کچن سے ان کے مردانہ بیڈ رومز تک کھلونا بنی ہوئی ہے۔ خادمہ کو دیکھ کر ایک زر خرید غلام کا تصور بھی آتا ہے ۔

” چیونٹیاں ” ایک خوبصورت کہانی جو اپنی گنجلک حیثیت میں خواب سے حقیقت اور حقیقت سے خواب تک سفر کرتی ہے۔ ہیلوسینیشن کا شکار کردار جہاں جاتا ہے چیونٹیاں اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔ ۔ اسی خوف کی بھینٹ اس کی بیوی چڑھ گئی۔ ۔ شاید یہ بھی ایک خواب ہو جو اس کا پیچھا کرتا ہے۔ ۔

” مٹی کی ٹھوٹھیاں ” کہانی کو اچھا پینٹ کیا گیا۔ ۔ گلوبل ویلج کے دو مختلف منطقوں کی اقدار اور جینریشن گیپ کا المیہ بیان کیا گیا ہے۔ ۔ تہزیبوں اور لسانیات کا ٹکراؤ ایک خلیج پیدا کرتا انسان کے اندر چھناکے کرتا ہے۔ ۔ جسموں میں یورک ایسڈ بھرتا جوڑوں کا مرض دیتا روحوں کو چھلنی کرتا روند تا چلا جاتا ہے۔ ۔ تضاد دیکھتے ہیں۔ ۔ ” ایسا محسوس ہوا گویا کسی نے مٹی کی ٹھوٹھیوں میں کسٹرڈ جما کر ان کے آگے رکھ دیا ہو”

کچھ سادہ بیانئے کی ایسی کہانیاں جو ابھی افسانہ بننے کو خود سپردگی پر مائل ہیں۔ ۔ لیکن سبین علی کشتیاں جلا کر ان پانیوں میں اُتری ہیں۔ ۔ دعا ہے لکھتی رہیں اور ہمیں نئی نئی کہانیاں سناتی رہیں۔ ان کی لگن سچی ہے۔ مشاہدہ اچھا ہے اور انہیں خواب دیکھنا بھی آتا ہے۔ میرے خیال میں شاعر اور فکشن رائٹر ایک سو نظمیں یا کہانیاں لکھتے ہیں تو ایک نظم یا ایک کہانی ان کے ہاتھ لگتی ہے۔ ۔ منٹو۔ بیدی، کرشن چندر کے ساتھ بھی ایسا ہوا۔ سبین علی بھی مجھے کسی ایک ایسی کہانی کی جستجو میں نظر آتی ہیں۔ ۔ ۔ ۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے