نیا ادب، بنگلورو ۔۔۔ مبصر: اعجاز عبید

ایک ضخیم جلد میرے پیشں نظر ہے۔ یہ ’سہ ماہی ادبی سلسلہ ’نیا ادب۔۳‘ یعنی ’نیا ادب‘ کا تیسرا شمارہ ہے۔ اور جیسی کہ آج کل ہندوستان میں روایت بن گئی ہے کہ بجائے ماہناموں، اور سہ ماہی جریدوں کے  ادبی سلسلے جاری کر دیے جاتے ہیں اور اس طرح سے رجسٹریشن اور دوسری سرکاری شرائط کی حدود سے آزادی حاصل ہو جاتی ہے۔ (ہند میں کچھ ہی غیر سرکاری جرائد ہیں جو اب بھی اپنا  دورانیۂ اشاعت کی پابندی کرتے ہیں۔ جیسے ماہنامہ شاعر،  ممبئی، ماہنامہ سب رس، حیدر آباد، ماہنامہ تحریرِ نو، ممبئی۔ )۔ میرا ارادہ طنز کرنے کا قطعی نہیں ہے لیکن اس اظہار حقیقت پر مجھ پر یہ الزام لگایا جا سکتا ہے۔ بہر حال میرا ضمیر  اس معاملے میں صاف ہے اور اگر ایسی غلط فہمی ہو گئی ہے، تو اس قسم کے جریدوں ( بلکہ انہیں ’مجلّے‘ کہنا بہتر ہو گا) کے مدیران اور بطور خاص خلیل مامون سے میں معذرت چاہتا ہوں۔

بہر حال اس مجلدڈیمائی سائز کے ۱۳۶۲ صفحات پر مشتمل اس جلد کے خوش نما سرورق (وان گو کی تصویر’راستے پر سپرس اور ستارا‘) پر محض ’نیا ادب‘ اور ’خلیل مامون‘ لکھا ہوا ہے۔ جس سے Uninitiated  کو یہ غلط فہمی ہو سکتی ہے کہ یہ نئے ادب پر خلیل مامون کے مضامین کا مجموعہ یا تنقیدی کتاب ہے۔ اندرونی صفحات  میں ضرور خلیل مامون کا نام بطور  مدیر اعلیٰ اور شفیع شوق، اعظم شاہد اور انور داغ کے نام  بطور دیگر مدیران دئے گئے ہیں۔ ناشر کا نام بھی خلیل الرحمٰن ہے جو شاید خلیل مامون کا ہی اصل نام ہو جو ان کی تعلیمی ڈگریوں میں شامل ہو۔

ایک ہزار روپیے قیمت کے اس جریدے کی سب سے نمایاں خصوصیت اس کے دس عدد گوشے ہیں۔ اور یہ سارے گوشے محض Run of the Mill  قسم کے نہیں ہیں۔ کئی ادیبوں کو اردو کے اہم ناقدوں نے اہمیت ہی نہیں دی۔ یا با قاعدہ منظم طور پر ان کو اگنور کر دیا۔ جیسے قاضی عبد الستار اور کلیم عاجز۔ پہلے گفتگو اب گوشوں پر ہو جائے۔ کہ یہ اپنی ذات میں علیٰحدہ علیٰحدہ کتب کہی جا سکتی ہیں۔

پہلا گوشہ افتخار جالب کے نام  ہے اور  یہ ۱۱۰ صفحات پر محیط ہے۔ اس کے تحت پانچ مضامین۔ وزیر آغا، ادیب سہیل،  محمود واجد، ذکیہ سلطانہ، احتشام علی اور اورنگزیب نیازی اور  اس کے بعد افتخار جالب کی تخلیقات: چار مضامین، اور ۲۲ نظمیں۔

دوسرا گوشہ رابندر ناتھ ٹیگور کا ہے، جس میں بنگالی داں ادیب شبیر احمد کا گیتانجلی پر مضمون ہی نہیں بلکہ اس کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ  گیتانجلی اور دوسری بہت سی نظموں کے تراجم بھی اصل بنگلہ سے کئے گئے ہیں۔ ٹیگور نے خود اپنی بنگلا گیتانجلی کا جو انگریزی ترجمہ کیا تھا، اب تک ہر گفتگو کا محور وہی ہوتا تھا، یہاں تک کہ نوبل پرائز بھی محض اسی ترجمے کی بناء پر ٹیگور کے حصے میں آیا۔ گیتانجلی کی ۳۹ نظموں کے علاوہ دیگر ۱۲ نظموں کے ترجمے بھی شامل ہیں۔  یہ گوشہ ۸۱ صفحات پر محیط ہے۔

تیسرا گوشہ جو سب سے ضخیم ہے، ۳۰۰ صفحات پر مبنی عبد اللہ حسین کے نام سے موسوم ہے۔ اس گوشے میں عبد اللہ حسین کی ’آپ بیتی‘ کے علاوہ اصغر ندیم سید اور فخر زماں کی گفتگوئیں، قرۃ العین حیدر کا خط،  عبد اللہ حسین کے فن اور ’اداس نسلیں‘ پر محمد علی صدیقی، محمود الحسن، محمد خالد اختر، اسلوب احمد انصاری،  عزیز ابن الحسن، عبد السمیع، محمد غالب نشتر،  معاذ احمد، محمد علام الدین اور محمد مقیم خان  کے دس مضامین کے بعد عبد اللہ حسین کے ناول ’اداس نسلیں‘ سے اقتباسات (۶۱ صفحات)، اور چار افسانے۔ ’ندی‘، ’سمندر‘، ’دھوپ ‘ اور ’مہاجرین ‘ شامل ہیں۔

سو صفحات  پر محیط اگلا گوشہ زیب غوری پر ہے۔ مود واحمود  اس کے تحت زیب کا ایک مضمون (دیباچہ) ، شمس الرحمٰن فاروقی کے دو مضامین (زیب کی کتابوں کے پیش لفظ)،  چھ مختلف مضامین (عشرت ظفر، ایاز محمود، ابو الحسنات حقی، شعیب نظام،  فیاض رفعت اور ثاقب فریدی) اور زیب غوری کی منتخب  ۲۶ غزلیں شامل ہیں۔

نوے صفحات پر پھیلا قاضی عبد الستار کا گوشہ میرے نزدیک بہت اہم ہے۔ قاضی صاحب کو علی گڑھ کے فکشن گروپ کے علاوہ شاید ہی کسی نے توجہ دی ہو۔سید محمد اشرف، طارق چھتاری، پیغام آفاقی  اور غضنفر کی نسل کے ادیبوں کے نزدیک وہ فکشن کے استاد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ لیکن اس سے باہر؟ جدیدیوں نے ان کو ترقی پسند سمجھا کہ ان کا قلم محض یو پی کے جاگیر داروں کے بارے میں چلتا تھا۔ اور ترقی پسند اس لئے ان کو لفٹ نہیں دیتے تھے کہ وہ زمینداروں کے خلاف نہیں لکھتے تھے۔ ان کا شہوارِ قلم محض اس زمینداری کے خاتمے سے پیدا شدہ  صورت حال اور اس طبقے کے نفسیاتی خلجان کے بارے میں دوڑتا تھا، جس طبقے کے وہ خود نمائندے رہے۔ان کی زبان کا میں ہی کیا، ہر زبان جاننے والا داد دئے بغیر نہیں رہ سکے گا۔  وہ زبان ،  جس سے تاریخی ناول لکھتے وقت جاہ و جلال ٹپکتا تھا، اور المیہ لکھتے وقت خون کے آنسو۔ اس کے تحت ۶۵ صفحات پر قاضی عبد الستار سے راشد انور راشد کی گفتگو شامل ہے (اس میں بھی ان کی زبان کی جادو بیانی کی جھلکیاں ضرور دکھائی دیں گی)۔ ناول شب گزیدہ سے اقتباسات کے علاوہ قاضی صاحب کے پانچ افسانے: چنگیز کی موت، پیتل کا گھنٹہ، آنکھیں، رجو باجی اور میراث اور ان کے فکشن پر  شبیر احمد، صغیر افراہیم، راشد انور راشد، اور نوشاد منظر کے مضامین اور  ان کے ڈاکٹریٹ کے مقالے ’اردو شاعری میں قنوطیت‘ پر ثاقب فریدی کا مضمون شامل ہے۔

حبیب جالب پر ۱۵ صفحات  کے گوشے میں محض اصغر ندیم سید  کا مضمون اور جالب کی نظمیں غزلیں شامل ہیں۔

اس گوشے کے بعد کلیم عاجز کے نام کا گوشہ ہے اور یہ حصہ مکمل سرور الہدیٰ کی پیش کش ہے۔ یعنی پہلے کلیم عاجز سے تحریری انٹرویو، اس کے بعد  انہیں کا کلیم عاجز کی غزل گوئی پر مضمون،  اور پھر ’ایک نوٹ‘ کے بعد انہیں کا کیا ہوا انتخاب کلامِ کلیم عاجز۔ فہرست کے اعتبار سے اسی گوشے میں ایک غیر متعلق تخلیق بھی سہواً شامل ہو گئی ہے۔ یہ ہے فیاض رفعت کے ناول ’’بنارس والی گلی‘‘ کا ایک باب (تیسرا)۔یہ خود سوانحی ناول واقعی پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے، کم از کم فیاض رفعت کی زبان کی چاشنی کے اعتبار سے۔

اگلا گوشہ اس شخصیت کا ہے جس سے دکن کے علاوہ شاید ہی کوئی اور واقف بھی ہو۔ ساغر جیدی  گمنامی میں زندگی بسر کرنا پسند کرتے تھے اور گمنام ہی رہے۔ یہ گوشہ ان کے لیے بہترین خراج عقیدت ہے۔ لیکن افسوس کہ ان کی غزلوں یا نثری نظموں پر کوئی مضمون شامل نہیں۔ ’ساغر جیدی کی تحریروں سے اقتباسات‘ کے تحت محض ایک تخلیقی نوٹ  (یا چار عدد تخلیقی نوٹ) دیے گئے ہیں، جن کے سرنامے پر اقبال خسرو قادری کا نام ہے۔ گمانِ غالب  ہے کہ یہ چاروں تحریریں ساغر جیدی کی تحریریں اور اقبال خسرو قادری کا انتخاب ہے۔ لیکن مدیر ان کی طرف سے بھی اس کی کچھ وضاحت نہیں ملتی۔ ساغر کی منتخب غزلوں   اور رباعیات میں سے یہاں ایک شعر ، ایک نظم اور ایک رباعی آپ بھی سن لیجیے، کہ شاید عالمی ادب کے لیے یہ ان سنی آواز ہو، انتخاب کلام میں غزلوں، رباعیوں کے علاوہ نثری نظمیں، اور دوہے بھی شامل ہیں۔

اب یہ شعر، پوری غزل اسی شمارے کی غزلوں میں ملاحظہ کریں:

اس چوراہے پر ساغرؔ
اب تک ٹوٹی عینک ہے

 

رباعی

کھونٹی پہ لٹکتا ہوا کرتا دیکھو

سوئی سے نکلتا ہوا دھاگا دیکھو

مفلس کی تگ و دو کو سمجھنا ہے اگر

ہانڈی میں ابلتا ہوا لاوا دیکھو

 

ایک مختصر نظم بھی

 

کچی مٹی کی گاڑی

دوڑنا چاہتی ہے

دور تک، کہکشاں تک

کچی مٹی کی گاڑی

 

’ہست اشعار‘ پر مشتمل اگلا گوشہ ہربن سنگھ تصور کا ہے۔ ستیہ پال آنند کے تعارف اور ہربن سنگھ تصور کے نوٹ کے بعد  یہ ‘ہست اشعار‘ دیے گئے ہیں جو حروف تہجی کی ترتیب (الف تا ہ،  و اور ی اس ترتیب میں شامل نہیں، ردیفوں کے  اعتبار سے) سے شامل اشاعت ہیں۔یہ گوشہ محض ۱۶ صفحات کا ہے۔

۱۲۸ صفحات پر محیط اگلا گوشہ  البیلی شخصیت دیویندر ستیارتھی کے نام ہے۔ یہ گوشہ عبد السمیع کی پیش کش ہے  جس میں ایک مضمون ستیارتھی کی  سوانح اور شخصیت پر، ایک ان کے افسانوی مجموعے ’شہر شہر آوارگی ‘کی تنقید،  اور آخری مضمون ‘گائے جا ہندوستان‘ ستیارتھی کے جمع کردہ لوک گیتوں کے مجموعے پر مضمون۔  ان کے بعد دیویندر ستیارتھی کے تین افسانے،  ان کے جمع کردہ کئی  لوک گیت۔ اور آخر میں رتن سنگھ کے دوہے۔ یہاں بھی مدیران کی

ادارتی غلطی کا اظہار ضروری ہے۔ اسی گوشے  میں جو دیویندر ستیارتھی کے نام موسوم ہیں، یہ دوہے کیوں شامل ہیں؟ کیا یہ دوہے بھی ستیارتھی کی تخلیق ہیں اور محض انتخاب رتن سنگھ کا ہے؟ یا یہ تخلیق رتن سنگھ کی ہی ہے (اگرچہ رتن سنگھ کے افسانوں کے علاوہ ان کے دوہوں کا کبھی راقم الحروف نے کہیں نہیں سنا) اور یہاں غلطی سے شامل ہو گئی ہے۔ یا یہ  رتن سنگھ کا دوہوں کی شکل میں دیویندر ستیارتھی کو خراج عقیدت ہے۔ اصل بات  فی بطن مدیر۔ کہ اس کا اداریے میں بھی کوئی ذکر نہیں۔

آخری گوشہ اقبال خسرو قادری سے موسوم ہے، ان کی شاعری پر ایک مضمون مصحف اقبال توصیفی کا ہے، اور پھر موصوف کی بیس عدد غزلیات دی گئی ہیں۔

ان دس عدد رنگا رنگ اور اہم گوشوں کے بعد  ایک اور اہم گوشہ تراجم کا ہے۔  گجراتی شاعر اوما شنکر جوشی کے بارے میں ابہام رشید کا مضمون اور انہیں کے لیے ہوئے  ۱۸ نظموں  کے ترجمے اس گوشے کا سب سے ضخیم حصہ ہے۔ باقی تین تراجم سلویا پلاتھ (انگریزی، جسے نہ جانے کس خوشی میں ’سلویہ‘ پلاتھ لکھا گیا ہے۔) زنگونیا زنگونی (ہسپانوی) اور لوک ناتھ یشونت (مراٹھی) کی نظموں کے ہیں، جو بالترتیب انور داغ، شائستہ یوسف اور ماہر منصور نے کئے ہیں۔ سلویا پلاتھ پر سید خالد قادری،اور زنگونی پر شائستہ یوسف  کے مضامین بھی شامل ہیں۔

ان سو اہم ترین حصوں کے علاوہ اس مجلے میں شروع میں نقد و نظر کے تحت پانچ تنقیدی تحقیقی اور سوانحی مضامین  ہیں، ساجدہ زیدی (نوائے زندگی) سوانحی)، سرور الہدیٰ  (فیض کا ایک نایاب دیباچہ) ، شفیع شوق (منٹو کے افسانے کا ’میں‘)، تبسم کاشمیری (میرا جی اور جدید نظم کی تفہیم کا فریم ورک) اور ساقی فاروقی (خود نوشت، راشد اور فیض، چند تاثرات ، چند یادیں، ماخوذ از ’پاپ بیتی‘)، ایک مزید مضمون  ’معاصر غزل: ایک تجزیہ (آفاق عالم صدیقی) جو کسی زمرے کے  تحت نہیں۔ شامل ہے۔

اس ضخیم مجلے میں صرف تین کہانیاں مظہر الزماں خاں کی ’ناف کے اندر‘، آنند لہر کی ’کورٹ مٕارشل‘ اور محمد حامد سراج کی ’کالی دیواریں‘ شامل ہیں۔ جب کہ ۱۷ نظمیں (جینت پرمار، صبا اکرام، مصحف اقبال توصیفی، علیم صبا نویدی، اوم پربھاکر وغیرہ) اور بیس شاعروں کی غزلیں  (ندا فاضلی، ہمدم کاشمیری، رفیق راز، پرتپال سنگھ بیتاب، مدحت الاختر، جینت پرمار وغیرہ) بھی شمارے کی زینت ہیں۔

اتنے اہم مجلے میں پروف کی لا تعداد اغلاط بہت بری طرح کھلتی ہیں۔ نثر میں تو کچھ الفاظ اگر چھوٹ جائیں تو معلوم نہیں ہوتا لیکن غزلوں کے اشعار تو وزن سے ساقط ہو جاتے ہیں، اور ذہین قاری فوراً ذہن پروف کی غلطی پکڑ لیتا ہے۔ لیکن کیا ہر قاری ذہین ہوتا ہے؟  یہ بہر حال مدیر کی  ایک بڑی کمزوری ہی ہی جائے گی جو اس اہم شمارے کی قیمت کم کر دیتی ہے۔  حالانکہ اس ہارڈ کور مجلے کی قیمت ایک ہزار روپئے ہے۔

ملنے کا پتہ:

146 /A-2, First Main, 4th Cross

Bhuvneshwari Nagar, PO C V Raman Nagar,

Bangalore- 560 093

٭٭٭

 

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے