بلراج مین را : ایک زندگی ۔۔۔ سرورالہدیٰ

 

بلراج مین را کی کہانی وہ میں نے 1996میں پڑھی تھی۔ میرے چند دوستوں نے بھی اس کہانی کا مطالعہ کیا۔ مجھے یاد ہے کہ جے این یو کے کاویری ہاسٹل کے ایک کمرے میں اس کہانی کے معنی اور مفہوم کے سلسلے میں ہر شخص کی رائے ایک دوسرے سے مختلف تھی۔ جاڑے کی رات میں ایک نوجوان کو پوری دیوانگی کے ساتھ ماچس کی تلاش تھی۔ انھیں دنوں ہم لوگوں نے علامتی اور تجریدی افسانے جیسے الفاظ سنے تھے۔ یہ  کہاں معلوم تھا کہ کہانی میں ایک نوجوان کی دیوانگی دوسری شکل میں ادب کے ایک نئے طالب علم میں منتقل ہو جائے گی۔ وقت گذرتا رہا اور مین را کی کہانی مجھے پریشان کرتی رہی۔

میری دلچسپی میں اضافے کاسبب آج کل کے سابق مدیر محبوب الرحمن فاروقی بھی ہوئے۔ وہ رسالہآج کل کا ایک گوشہ مین را کے لیے مخصوص کرنا چاہتے تھے۔ انھوں نے مجھے حکم دیا کہ تم مین را کی چند کہانیوں کا تجزیہ  کرو اور ان سے گفتگو بھی۔ محبوب صاحب نے مین را کی شخصیت کے بارے میں کچھ اشارے کر دئیے تھے، اور  یہ  بھی بتایا تھا کہ مین را کے ساتھ ملاقات اور گفتگو میں مجھے کن باتوں کا لحاظ رکھنا ہو گا۔ شمیم حنفی صاحب کے مضمون چھلاوہ کے وسیلے سے بھی مین را کی شخصیت کے کئی رنگ میرے سامنے آئے۔ بالآخر ڈرتے ڈرتے بلراج مین را صاحب کو فون کیا کہ آپ سے ملنا چاہتا ہوں۔ آواز آئی آ جائیے ملنا کیا مشکل ہے۔

بس دوسرے ہی دن میں ماڈل ٹاؤن فرسٹ کے موڑ پرتھا۔ اس موقعے پر میرے دوست طارق کبیر بھی ہمراہ تھے۔ یہ  علاقہ ہم لوگوں کے لیے نیا تھا۔ مین را صاحب کے مکان کو تلاش کرنے میں خاصہ وقت گذر گیا۔ مجبور ہو کرالپناسنیماکے قریب سے انھیں فون کیا، انھوں نے فرمایا کہ آپ الپنا سنیماکے پاس رہئے میں آپ کی طرف آتا ہوں۔ ہم لوگ سوچ رہے تھے کہ شناخت کامسئلہ کیسے حل ہو، اتنے میں کہیں سے ایک صاحب نمودار ہوئے اور انھوں نے پوچھا کہ آپ لوگ مین را سے ملنا چاہتے ہیں۔ ہم لوگوں نے اثبات میں سرہلایاوہ مین را ہی تھے بڑے تپاک سے ملے، سرپرشفقت کا ہاتھ رکھا اور ہم ان کے گھر کی طرف چل پڑے۔ ملاقات میں مین را ایک کھرے، بے باک اور بے تکلف انسان معلوم ہوئے۔ ان کے بارے میں سنا تھا کہ وہ جلدی کسی کو خاطر میں نہیں لاتے اپنی بات بغیر منوائے دم نہیں لیتے اور اپنے علم اور مطالعے پر انھیں بہت اعتماد ہے۔ سامنے والے کی باتیں کم سے کم سننا چاہتے ہیں وہ  یہ  دیکھتے ہیں کہ جس شخص سے گفتگو ہو رہی ہے اس کی علمی اور ذہنی سطح کیا ہے۔ ممکن ہے  یہ  رویہ انکا اپنا ہم عصر دوستوں کے ساتھ رہا ہو مگر ہم لوگوں کے ساتھ ان کارو یہ  نہایت مشفقانہ تھا۔ یہ  ضرور ہے کہ بات کرتے ہوئے ان کا لہجہ تلخ ہو جاتا۔ ہم لوگ خوف زدہ تھے کہ پتہ نہیں کیا پوچھ بیٹھیں لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ انھوں نے جے۔ این۔ یو کا ذکر چھیڑ تے ہوئے کہا میں جے۔ این۔ یو جاتا رہا ہوں وہاں کے طلبہ سے بات کر کے طبیعت خوش ہو جاتی تھی۔ وہاں کے طلبہ بڑے ذہین اور کھلے دل و دماغ کے ہوا کرتے تھے کوئی اسپیکر وہاں جانے سے ڈرتا تھا کہ پتہ نہیں کون کیا سوال کر بیٹھے۔ جے۔ این۔ یو کاسیکولر کردار اور یہ  کھلا پن باقی رہنا چاہئے پتہ نہیں اب کیا صورت حال ہے ؟

اس وقت مین را صاحب کا مکان گرو تیغ بہادر ٹی بی ہاسپٹل سے متصل تھا۔ سامنے مین روڈ ہے، جس پر صبح سے دیر رات تک گاڑیاں دوڑتی رہتی ہیں جن کا شور ان کے گھر میں بیٹھ کر صاف سنائی دیتا ہے۔ تین کمرے کا یہ  مکان پہلی منزل پر ہے اس میں ایک چھوٹاساکمرہ مین را صاحب کے لیے مخصوص تھا۔ کمرے میں بمشکل چندکرسیوں دو الماریوں اور ایک ٹیبل کی گنجائش تھی اس کمرے میں ایک ٹی۔ وی بھی تھا جس کوبڑی دل چسپی سے مین را صاحب دیکھتے۔ الماری میں انگریزی اور اردو کی کتابیں رکھی ہوئی ہیں۔ کمرے کی دیواروں پرمارکس، لینن، دوستووسکی، ٹالسٹائے اور منٹو وغیرہ کی تصویریں آویزاں ہیں۔ سادہ سا یہ  کمرہ مین را صاحب کی کل کائنات ہے، جن لوگوں کی تصویریں دیواروں پر آویزاں ہیں وہ مین را صاحب کے لیے آئیڈیل کا درجہ رکھتے ہیں۔ ایسامحسوس ہوتا ہے کہ ان شخصیات کی روح مین را میں حلول کر گئی ہے بغیرکسی شعوری کوشش کے ان شخصیات کے نام مختلف حوالوں سے ان کی زبان پر آ جاتے ہیں۔ میں نے مپاساں کی کتاب Guy de Maupassant; the complete short storiesکا ذکر کیا تو کہنے لگے کہ آپ نے مپاساں کی کون سی کہانیاں پڑھی ہیں اور وہ کیسی لگیں۔ انھوں نے  یہ  بھی بتایا کہ روپا نے مپاساں کا جو مجموعہ شائع کیا ہے اس میں بڑی غلطیاں ہیں۔ آپ کتاب لے کر آئیں تو میں بتاتا ہوں۔ حافظہ بھی قیامت کا ہے وہ بڑی آسانی سے  یہ  بتاسکتے ہیں کہ کون سی کتاب کہاں اور کب چھپی اور اس کے موضوعات کیا ہیں۔ یہ  سب کچھ دراصل مین را کی غیر معمولی علمی و ادبی دل چسپی کو ظاہر کرتا ہے۔ مین را ادب کا مطالعہ روزگار یا عہدہ کی ترقی کے لیے نہیں کرتے بلکہ ادب لکھنا اور ادب پڑھنا ان کے لیے اتنا ہی ضروری ہے جتنا جینے کے لیے سانس لینا۔ جو تصویریں انھوں نے دیوار پر آویزاں کی ہیں ان کے بارے میں مین را صاحب نے بتایا کہ صبح و شام ان چہروں کو دیکھ کر خود کو زندہ اور تابندہ محسوس کرتا ہوں ورنہ اور کیا رکھا ہے۔ دوستوفسکی، ٹالس ٹائی، مپاساں، کافکا اور کامو کو پڑھنے کے بعد اگر اردو کا ایک افسانہ نگار ہم سے  یہ  کہتا ہے کہ آپ کیا لکھیں گے جوان لوگوں نے لکھ دیا ہے تو اسے اصل سیاق میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ لیکن دیکھنے کی چیز یہ  ہے کہ اس کے نزدیک کہانی اور فن کا معیار کیا ہے۔ وہ اس معیار کی وکالت کسی لالچ کی بنیاد پر نہیں کر رہا ہے۔

مین را اپنی کہانیوں کے بارے میں کہنے لگے کہ میں نے کم و بیش سینتیس کہانیاں لکھی ہیں آپ ان میں سے تین یا چار کہانیاں نکال کر دوسروں کے سامنے پیش کر سکتے ہیں۔ اب جو کہانیاں بچ جاتی ہیں ان کے بارے میں میں کیا کہوں۔ مین را کا یہ انداز فکر ان کے ایک سچے فنکار ہونے کا پتہ دیتا ہے۔ مین را کا مزاج  یہ  ہے کہ وہ ہمیشہ ادبیت پر اصرار کرتے ہیں وہ خراب لکھنے والوں کی تعریف نہیں کرتے۔ وہ کہانی کار کے روبرو یہ  کہنے کی ہمت رکھتے ہیں کہ آپ نے بہت خراب لکھا ہے یا ان دنوں آپ خراب لکھ رہے ہیں۔ مصلحت پسندی اور صلح کل جیسی چیزیں مین را کے مزاج کو کبھی راس نہیں آئیں۔ وہ  یہ  سمجھتے ہیں کہ خراب لکھنا اپنا اور قاری دونوں کا وقت ضائع کرنا ہے۔ یہ  کہا جا سکتا ہے ایک شخص ہمیشہ اچھا نہیں لکھ سکتا۔ اگر ایسا ہے تو کچھ برداشت کیا جا سکتا ہے۔ مگر جو لوگ مستقل خراب لکھ کر قارئین کا وقت ضائع کرتے ہیں ان کو پڑھنا بہت صبر آزما ہے۔ پھر جب وہ یہ اصرار کرنے لگیں کہ آپ مجھے بھی پڑھیے اور مجھ پربھی لکھیے تو صورت حال مزید خراب ہو جاتی ہے۔ یہ  کیا ضروری ہے کہ ہمیشہ اپنی تحریردوسروں کو پڑھائی جائے۔ کیا ایسانہیں ہو سکتاکہ ہم چند اچھی اور معیاری تحریروں کو منتخب کر کے اپنی علمی اور ذہنی آسودگی کاسامان کر لیں۔ مین را علم و ادب کے تئیں کسی سمجھوتے کے قائل نہیں۔ دوستی اور رواداری اپنی جگہ لیکن جب بات ادبی معیار کی ہو گی تواس میں ان کا نظریہ  قریب تردوستوں کے تئیں بھی سخت ہو جاتا ہے۔ 1969میں غالب اکیڈمی میں انور عظیم کے افسانوی مجموعہ قصہ رات کا پر گفتگو کرنے کے لیے لوگ جمع ہوئے تھے۔ اس جلسے کی صدارت سجادظہیر صاحب نے فرمائی تھی۔ اس موقع پر انور عظیم کے احباب موجودتھے لیکن سب اِدھر اُدھر کی باتیں کرتے رہے۔ انور عظیم کے افسانوی فن پر کوئی کچھ کہنے کو تیار نہیں تھا۔ مین را کو یہ  بات اچھی نہیں لگی وہ تھوڑی دیر کے لیے باہر آئے اور دوبارہ جلسہ گاہ پہونچے۔ اور کہا کہ مجھے کچھ کہنا ہے مین را نے انور عظیم کی کتاب پر نشانات لگا رکھے تھے۔ ایک گھنٹہ مین را نے ان مطبوعہ کہانیوں پر روشنی ڈالی اور  یہ  کہا کہ اس کتاب میں صرف ایک کہانی سات منزلہ بت ہے جو اچھی اور معیاری ہے باقی سب کمزور کہانیاں ہیں۔ یہ  کہانیاں کمزور کیوں ہیں، مین را نے اس پرسیرحاصل گفتگو کی۔ مجمع خاموشی کے ساتھ مین را کی گفتگو سنتارہا۔ آخیر میں انور عظیم نے افسوس ظاہر کیا کہ تمام لوگ خاموش ہیں۔ میں مین را کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انھوں نے میری کہانیوں کو پڑھ کر بے لاگ تبصرہ کیا۔ دوسرے دن انور عظیم اور مین را کاندھے پر ہاتھ رکھ کر گھوم رہے تھے اور لوگ حیرت زدہ تھے۔

مین را کو اپنے رسالہ شعور کے لیے جن اہم لکھنے والوں کا قلمی تعاون حاصل تھا وہ اپنے وقت کے علمی و معیاری لوگ تھے۔ ان میں سے چند آج بھی تر و تازہ ہیں۔ شعور کی ترتیب و تدوین کو دیکھئے تو اردو رسالوں کی تاریخ میں کوئی دوسرارسالہ اس نوعیت کا نہیں ملے گا۔ حیرت ہوتی ہے کہ ایک شمارہ نکالنے کے لیے کتنی محنت اور مشقت کرنا پڑتی ہو گی۔ مشمولات کی حصول یابی سے لے کراس کی کتابت تک کا مرحلہ کتنا دشوار نظر آتا ہے۔ مگر یہ  دشواریاں مین را کے نزدیک دشواریاں نہیں بلکہ مدیر کے فرائض ہیں۔ وہ دیوانہ وارہراس شخص کے پاس جاتے تھے جس کی تحریر میں کوئی حسن ہواورجوکسی موضوع پر اچھا لکھ سکتاہو۔ چاہے وہ ان کا مخالف ہی کیوں نہ ہو۔ شعور ایک کہانی کار کی ادبی و علمی دیوانگی کا ایسامظہرہے جس کی مثال شاید ہم نہ ڈھونڈ پائیں۔ پریم گوپال متل نے مجھے بتایا کہ شعور کے ایک شمارے کے چند صفحات کی کتابت ہو چکی تھی مین را نے کتابت شدہ صفحات کو دیکھا اور کاتب کے سامنے اسے پھاڑ ڈالا اور کہا کہ اس کی دوبارہ کتابت کرو اور جو صفحات میں نے پھاڑ دیئے ہیں تمھیں اس کی اجرت ملے گی۔ اس نفاست کے ساتھ رسالہ نکالنا اب خواب معلوم ہوتا ہے۔ مین را نے خود کو کبھی ایک ناقد کی حیثیت سے پیش نہیں کیا۔ اگر وہ چاہتے تو با ضابطہ تنقیدیں لکھ سکتے تھے لیکن ان کے چند مضامین سے ان کے ادبی موقف کا پتہ چلتا ہے۔ اس وقت شعور کے دو اداریے میرے پیش نظر ہیں۔ جو افق کے عنوان سے چھپے تھے۔ مارچ 1978کے شمارے میں کا پہلا جملہ ہے :

دوغلہ پن بڑا غیر ادبی لفظ ہے۔ اس اداریے کو پڑھ کر مدیر کے غم و غصہ کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ ان افکار کے پیچھے اس عہد کی وہ ادبی صورت حال ہے جس نے کرپشن کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ آدمی وقتی اور معمولی مفاد کے لیے اپنے فن اور ادب کاسوداکر کے دسترخوان سجانے لگتا ہے۔ لفظ دوغلہ پن کو مین را نے مکاری، فریب، منافقت ضمیر فروشی جیسی خرابیوں کے تناظر میں استعمال کیا ہے۔ یہ  جملے بھی دیکھیے

دوغلہ پن جو ہمارے عہد کی سماجی خصوصیت ہے ہماری دانشورانہ زندگی کی خصوصیت بھی ہے۔ اس لیے آج کی صورت حال کوسمجھنے کے لیے عصری ادب اور عصری ادیبوں کی اس خصوصیت کا تجزیہ  ضروری ہے

مین را نے اپنے دور کی دانشورانہ زندگی کو دوغلہ پن سے تعبیر کیا ہے۔ بظاہر  یہ  بات سخت معلوم ہوتی ہے۔ لیکن لکھنے والے کے اپنے تجربات اور مشاہدات بھی رہے ہوں گے۔ اس نے اپنے عہد کی دانشورانہ زندگی کو بہت قریب سے دیکھا ہو گا، اگر زندگی میں  یہ  خرابیاں پیدا ہو جائیں تو ادب بھی ان خرابیوں سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔ ممکن ہے  یہ  بات ذہن میں آئے کہ خرابیوں کے ذکرسے خرابیاں ختم نہیں ہو سکتیں، لہٰذا زندگی کے روشن پہلوؤں کوسامنے لانا چاہیے۔ اصل میں معاملہ روشن پہلوؤں کو نظر انداز کرنے کا نہیں بلکہ حقیقت بیانی کا ہے۔ کیا یہ  سچ نہیں کہ مین را کے ان جملوں کے آئینے میں ہمارا چہرہ شرمندہ ہوتا ہے۔ ہمارا معاشرہ جن غیر علمی و ادبی بنیادوں پراستوارہے اور عزت و مقام حاصل کرنے کے لیے آج جو ترکیبیں استعمال کی جا رہی ہیں انھیں دیکھ کر ادب کے سنجیدہ طالب علم کا پریشان ہونا فطری ہے۔ وہ لوگ جو مطالعے پر یقین رکھتے ہیں اور  یہ  سمجھتے ہیں کہ سب سے بڑی طاقت علم کی ہے، وہ اپنے ضمیر کاسودانہیں کر سکتے۔ علم جہاں ایک طرف انسان کے اندر علم کی پیاس بڑھاکراس میں انکساری پیدا کرتا ہے وہیں دوسری طرف خود اعتمادی اور  خودی کا احساس بھی بیدار کرتا ہے۔ شکیب جلالی نے کہا تھا

کیا شاخِ با ثمر ہے جو تکتا ہے فرش کو

نظریں اٹھا شکیبؔ ذرا سامنے بھی دیکھ

لیکن اپنی خلوت میں علم و ادب کا چراغ روشن کرنے والا جب باہر کی دنیا کو دیکھتا ہے تواس کے عزائم میں کمزوری پیدا ہوتی ہے۔ حوصلے ٹوٹنے لگتے ہیں اور اس کی نظر کتابوں کے نقوش سے ہٹ کر چہروں پر چلی جاتی ہے۔ سوال  یہ  ہے کہ علمی و ادبی دیوانگی کی داد کون دے، جب پورا معاشرہ اس کرپشن کی زد میں ہو۔ بلراج مین را کا دکھ دراصل اپنی ذات سے کہیں زیادہ زبان و ادب کا ہے۔ حساس بے باک اور باغی انسان ہمیشہ دنیوی اعتبارسے نقصان میں رہا ہے۔ ذہانت و فنکاری کے باوجوداسے فائدہ اٹھانے کاسلیقہ نہیں وہ خاموش اس لیے نہیں رہ سکتاکہ  یہ  آواز اس کے ضمیر کی ہے۔ اسے اس کی پرواہ نہیں کہ بے باکی اور بغاوت سے اس کو جو انعام مل سکتا تھا وہ اس سے چھین لیا جائے گا۔ لیکن یہ  خوف تواس شخص کوہو گاجس نے کبھی یہ  سوچاہو کہ ہمیں انعام و اکرام حاصل کرنا ہے اور محفل میں اپنے لیے صدر کی جگہ محفوظ کرنی ہے وہ اسی اداریے میں لکھتے ہیں

دوغلہ پن اس دور کا بہت ہی منافع بخش کاروبار ہے اور اس کے سب سے بڑے کاروباری ان اداروں میں رینگ رہے ہیں جہاں دانشوری کے نام پرمیڈیوکریسی کا بازار گرم ہے۔ ۔ ۔

فن کار اپنی شخصیت کے نقوش کو ابھارنے کے لیے اپنی پہچان پر زور دیتے ہیں وہ اپنی پہچان کو دانشورانہ انفرادیت بھی کہتے ہیں۔ اگر پچھلے چندبرسوں کی تحریروں کا تجزیہ  کیا جائے اور  ادیبوں کو اپنے دعووں کی روشنی میں ہر منفرد شخصیت کے خد و خال کو دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ انفرادیتیں ایک دوسرے میں ضم ہوتی جا رہی ہیں اس انضمام کی مشترکہ قدر وہی ہے جس کا اظہار اسی لفظ سے ہوا ہے۔ جواس تحریر کا پہلا لفظ ہے۔ کتنی عجیب بات ہے ایک غیر ادبی لفظ سے ایک ادبی شخصیت کا تعین ہوتا ہے۔ اس اقتباس سے کیا یہ  نہیں لگتا کہ ہم ایک ایسے مقام پر آ گئے ہیں جہاں ہر طرح کا امتیاز ختم ہو چکا ہے۔ بقول وحید اختر

ایک حمام میں تبدیل ہوئی ہے دنیا

سب ہی ننگے ہیں کسے دیکھ کے شرماؤں میں

مندرجہ بالا تحریر میں ایک فنکار اور ادبی صحافی کا دکھ شامل ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ فنکار مصلحت پسنداور منافق نہیں ہوتا، وہ زمانے کے ساتھ سازبازنہیں کر سکتا۔ اگر ایک فنکار بھی ایساکرنے لگے تو زندگی اور تہذیب کا شیرازہ بکھر جائے۔ مین را بار بارسماج اور زندگی کے حوالے دیتے ہیں اور فن میں سماج کے گہرے رشتے کی بات کرتے ہیں۔ وہ فن کاروں کے لیے چند اصولوں کی پاس داری ضروری سمجھتے ہیں۔ زندگی اور سماج پر اتنا زور دینے والے افسانہ نگار کو جدیدیت کے افسانے کا ٹرینڈ سیٹراورنمائندہ کہا جاتا ہے۔ بعض حضرات جدیدیت کے لیے سماج اور زندگی جیسے بامعنی الفاظ کو شجر ممنوعہ سمجھتے اور کہتے رہے ہیں۔ ایسی صورت میں بلراج مین را کی یہ  تحریر اس بات کو جھٹلاتی ہے کہ جدیدیت کا مطلب زندگی اور سماج سے گریز ہے۔ مین را کامسئلہ نہ تو ترقی پسندی ہے اور نہ جدیدیت، بلکہ مین را کا مسئلہ زندگی کے ساتھ ایک ادیب کا کمٹ منٹ ہے۔ زندگی جیسی ہے وہی حقیقت ہے۔ اس حقیقت کی پیش کش میں تخلیق کار کا اپنا تجربہ اور مشاہدہ اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ایک دوسرے اداریے میں جس کا عنوان بھی ہے، میں مین را لکھتے ہیں :

انھوں نے مفاد پرستی کے بہت سے پنجرے بنا رکھے ہیں جو کھلی ہوا میں غیر مرئی تاروں سے لٹک رہے ہیں پنجرے بھی غیر مرئی ہیں۔ ان پنجروں میں الیوژن کے طوطے اپنی رٹ لگاتے رہتے ہیں ان میں سے کچھ طوطے جدید ادب کی بات کرتے ہیں کچھ ترقی پسند ادب کی۔ کبھی کبھی وہ جدید ادب کی بات کرتے ہیں ترقی پسندکی بات کرتے ہیں۔ کبھی کبھی اس کا الٹ بھی ہوتا ہے۔ اور کچھ لوگ سرکاری نغموں کی مددسے اس عہد کے مزاج اور ضمیر کی بات کرتے ہیں۔ تماشہ بڑا پر فریب ہے۔

مین را نے  یہ  بات کم و بیش بیس بائیس سال پہلے لکھی تھی۔ مگراس کی معنویت میں آج بھی کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ ہر شخص موقع کی نزاکت سے اپنی ترجیحات بدل دیتا ہے۔ کسی نظریہ  پر اگر ایمان ہی نہ ہوتوایسے شخص کا ہوا کے رخ پر چلنا حیرت کی بات نہیں۔ وہ لوگ زیادہ قابل قدر ہیں جوسب کو پڑھتے ہیں۔ سب کی سنتے ہیں لیکن اپنے بنیادی موقف سے دور نہیں جاتے۔ لیکنیہاسی وقت ممکن ہے جب کسی نظریے کو دیکھا دیکھی میں نہیں بلکہ مطالعے کے بعد قبول کیا گیا ہو۔ بلراج مین را کی تحریروں سے ایک ترقی پسنداورباغی فنکار کی تصویرسامنے آتی ہے۔ علی گڑھ کے فکشن سیمینارمیں مین را نے کے عنوان سے ایک مضمون پڑھا تھا۔ شمیم حنفی صاحب نے لکھا ہے کہ مین را جب  یہ  مضمون پڑھ رہے تھے احتشام حسین جیسا متین نقاد بھی تالی بجا رہا تھا۔ تنبولا سے ایک اقتباس ملاحظہ کیجئے :

جدیدیت جسے ایک رجحان کہا جاتا ہے نہ توتقسیم وطن کے بعد کی کسی سماجی تحریک سے پھوٹا ہے اور نہ ہی یہ  رجحان کوئی تحریک بن پایا ہے۔ جو صورتِ حال کوسمجھنے اور سنوارنے کی ناکام یا کامیاب کوشش ہوتی۔ جدیدیت کا آغاز چند ایک حساس دکھی اور برہم نوجوانوں کی تحریر تھی۔ ان چند لکھنے والوں کی برہمی جو غلط یا صحیح ہو سکتی ہے، سچی تھی۔ اس لیے نئی تحریر کا مشکل اور خطرناک کام ہوتا رہا۔ آخرکار وہی ہوا جو ترقی پسندتحریک کے ساتھ ہوا تھا۔ مفاد پرست قریب آئے گھل مل بیٹھے اور  پھر جلد ہی وہ وقت آ گیا جب نئی نسل کی برہمی کا اظہار جو ایک مثبت قدر ہے ایک بے ہنگم، بے رخ شور میں گم ہو گیا۔

مین را جدیدیت کو چند برہم اور دکھی نوجوانوں کی تحریر کہتے ہیں اور اسے وہ کسی سماجی تحریک کی پیداوار نہیں سمجھتے۔ اس کا مطلب  یہ  ہے کہ جدیدیت کا بنیادی اور فطری تعلق افراد کی نجی اور شخصی زندگی سے تھا اور اسے پورے عہد کی عام زندگی سے وابستہ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔ مین را جب جدیدیت کو چند نوجوانوں کی ذاتی رنجش کہتے ہیں تواس سے چند فنکاروں کی شخصی زندگی کی طرف ہمارا ذہن منتقل ہو جاتا ہے۔ مین را کواس بات پربھی اصرار ہے کہ ان نوجوانوں کی رنجش سچی تھی۔ مگر بعد میں کچھ لوگوں نے اپنے مفادات کے لیے اس کا غلط استعمال کیا۔ میں نے مینرا کی زبان سے اکثر ناصر کاظمی اور خلیل الرحمن اعظمی کے  یہ  شعر سنے ہیں :

جلتا پھرتا ہوں میں دوپہروں میں

جانے کیا چیز کھو گئی میری

ناصر کاظمی

میں شہید ظلمتِ شب سہی مری خاک کو  یہی جستجو

کوئی روشنی، کوئی روشنی، کوئی روشنی، کوئی روشنی

خلیل الرحمن اعظمی

ناصر کاظمی اور خلیل الرحمن اعظمی نے نئی غزل کی تعمیر اور تشکیل میں اہم رول ادا کیا ہے، جدیدیت اور نئی غزل کا کوئی ذکر ان دونوں شاعروں کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا۔ ایسی صورت میں بلراج مین را کا اگر ناصر کاظمی اور  خلیل الرحمن اعظمی کو پڑھتے اور  پسندکرتے ہیں تواس کی وجہ اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ ادب کو وہ ایک بڑے کینوس میں دیکھتے ہیں اور  یہ  سمجھتے ہیں کہ شعر و ادب کی سب سے بڑی طاقت تخلیقی حسیت اور سچائی ہے۔ آج جب کہ تنقید کے مختلف زاویے موجود ہیں اور ان زاویوں کی روشنی میں ادب کی تشریح اور تجزیے کا کام جاری ہے۔ اس کے باوجودایسے قارئین کی تعداد کم نہیں جن کے نزدیک ادب کا مطالعہ خوش ذوقی کی علامت ہے، اور مشکل وقت میں دکھوں کا مداوا بھی۔ بلراج مین را ادب کے بارے میں جس طرح سوچتے ہیں اسے آزادہ روی اور کشادہ ذہنی کہنا زیادہ مناسب ہے۔ آزادہ روی اور کشادہ ذہنی کسی فنکار کو بندھے ٹکے اصول کا پابند نہیں بناتی۔ باغیانہ اور بے باکانہ انداز فکر ہر عہد کے اچھے فنکاروں کا مقدر رہا ہے۔ لیکن اس بے باکی اور بغاوت کی وجہ سے ایک فن کار کا جو نقصان ہوتا ہے اس کا زمانہ بہت قلیل ہے۔ اگر کوئی فنکار نقصان کا یہ  قلیل زمانہ تحمل کے ساتھ گذار لے تو آنے والا وقت اسی کا ہوتا ہے۔ اس عرصے میں وقت  یہ  فیصلہ کر دیتا ہے کہ کس تحریر میں زندگی باقی ہے اور کس تحریر کو وقت کے ساتھ اپنی بساط سمیٹ لینی ہے۔ سب سے بڑی طاقت تو تحریر میں ہوتی ہے۔ مین را کا غم و غصہ ہراس شخص نے برداشت کیا ہے جسے مین را کی کہانیاں پسند ہیں اور جو مین را کی بے باکی اور اصول پسندی کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ شخصیت اور فن کا معاملہ بعض اوقات گریز کا بھی ہوتا ہے اور ہم آہنگی کا بھی۔ ممکن ہے کچھ لوگ مین را کی بے باکی اور  بغاوت کو پسند نہ کرتے ہوں لیکن انھیں مین را کی کہانیاں اچھی لگتی ہوں۔ بعض اوقات ایک اچھا اور  بڑا افسانہ نگار اپنی بے باکی کی وجہ سے نظرانداز ہو جاتا ہے۔ اس لیے کہ ادبی سماج ہماری مرضی کے مطابق قائم نہیں ہو سکتا۔ اگر مین را کو ادب کا کوئی بڑا انعام نہیں ملاتواس سے مین را کی فنی خوبیوں پر کوئی حرف نہیں آتا۔ یہ  ضرور ہے کہ ایسے فنکاروں کے تئیں ہم پر کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ مین را سے مختلف ملاقاتوں میں مجھے کبھی  یہ  محسوس نہیں ہوا کہ وہ کسی انعام و اکرام کے خواہش مند ہیں۔ مین را اپنی فن کارانہ مہارت اور چابک دستی کے باوجود دنیا دار آدمی نہیں۔ وہ علمی و ادبی معاشرے کی تمام دھڑلّے بازیوں سے واقف ہے مگر اپنی دنیا میں قانع اور خوش ہے۔ مین را کی زبان سے اکثر میں نے سناکہ ادبی منظرنامہ شرم ناک ہے۔ ایک شخص اپنے کمرے میں بیٹھ کر اگر یہ  کہتا ہے تواس سے ادبی منظرنامہ تبدیل نہیں ہو گا۔ لیکن اس سے ایک حساس فنکار کی بے بسی کا اندازہ تو کیا ہی جا سکتا ہے۔ اگر میں نے اردو کی ادبی شخصیات میں مین را کے منہ سے سب سے زیادہ احترام اور عزت سے کسی کا نام لیتے سناتووہ خلیل الرحمن اعظمی ہیں۔ اور مین را کے دومعاصرافسانہ نگار انورسجاد اور  سریندرپرکاش سے مین را کے گہرے تعلقات رہے ہیں۔ ان دونوں نے اپنی ایک ایک کتاب مین را کے نام معنون کی ہے۔ ایک بات بڑی معنی خیز ہے کہ تخلیقی فنکار معاصرانہ چشمک کے باوجوددوسرے فنکار کی قدر کرتے ہیں۔ اس کی وجہ وہی سچاتخلیقی جذبہ ہے جو فن کار کو دنیا کا آلائشوں سے پاک رکھتا ہے۔ دوسچے فنکاروں کے اس رشتے کو درد کا رشتہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ لیکن ناقدین کامسئلہ مختلف ہے۔ مین را کے تمام اچھے اور بڑے معاصرافسانہ نگاروں نے مین را کو ہمیشہ اپنے اوپر فوقیت دی ہے۔ مین را نے معاصرافسانہ نگاروں کی بعض بڑی کہانیوں کو پہلی مرتبہ شعور میں بڑے اہتمام سے شائع کیا۔ انھوں نے ایک گفتگو کے دوران مجھے بتایا کہ پاکستان کی ایک نوجوان شاعرہ سارہ شگفتہ ہندوستان آئیں توواپسی پروہ انھیں ایئر پورٹ چھوڑنے گئے۔ ان دنوں انورسجاد کے ماموں ہندوستان میں پاکستان کے ہائی کمشنر تھے۔ انورسجاد کئی بار مین را سے کہہ چکے تھے کہ تم دہلی میں رہتے ہو اور میرے ماموں سے ملاقات نہیں کرتے۔ اُن دنوں انورسجاد پاکستان کے ایک جیل میں قید تھے۔ مین را کی ملاقات جب انورسجاد کے ماموں سے ہوئی تو انھوں نے سارہ شگفتہ کا تعارف کرایا کہ یہ  آپ کے ملک کی شاعرہ ہیں۔ انورسجاد کے ماموں نے مین را سے کہا کہ تم انورسجاد کوسمجھاؤ وہ حکومت کے خلاف لکھتا ہے اور میں اس کے لیے کچھ نہیں کر پاتا، کیا آپ کی نظر میں انورسجاد ٹھیک کرتا ہے۔ مین را نے جواب دیا انورسجادوہی لکھتا ہے جواسے لکھنا چاہئے۔ ان کے ماموں کا جواب تھا کہ آپ رائٹر لوگ ایک ہی جیسے ہیں۔ مین را کے نزدیک نئی کہانی کا مطلب سیاسی وسماجی صورت حال سے بے تعلق ہو جانا نہیں۔ پچھلے سطورمیں ان کے مضمون تنبولا کا ذکر آ چکا ہے اس مضمون کے لکھتے وقت دو طرح کے لوگ مین را کے پیش نظر تھے، ایک وہ سماجی وابستگی اور سماجی مسائل جیسے الفاظ سے خود کو ترقی پسند کہلانا کافی سمجھتے تھے۔ اور دوسرے وہ لوگ تھے جنھیں سماجی وابستگی سے خواہ مخواہ کی الرجی تھی۔ اس مضمون میں مین را نے لکھا ہے :

ویتنام جینے کا اسلوب ہے ویتنام جینے کی آدرش صورت ہے، ویتنام جدیدیت ہے ویتنام آزادی ہے۔ مین را نے جدیدیت کوجس انقلابی اور باغیانہ مزاج کے تناظر میں دیکھا ہے وہ ہمیں نئے سرے سے غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔ سیاست کو ادب سے باہر کرنے یاسمجھنے کی غلطی اس شخص سے نہیں ہو سکتی جوسماج کا ایک حساس اور درد مند دل رکھنے والا فنکار ہے۔ یہ  کیسے ممکن ہے کہ ہم ان قوتوں سے غافل ہو جائیں جن کے ظلم و ستم کے سائے میں ایک عام انسان جی رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جدیدیت سے متاثر اچھے ادیبوں اور شاعروں کے یہاں اپنے عہد کی سیاسی اور سماجی صورت حال کا اظہار بڑے دل کش انداز میں ہوا ہے۔ اس مضمون میں مین را نے انورسجاد کے ایک خط کا حوالہ دیا ہے جس میں انھوں نے مین را کو لکھا ہے کہ لوگ سیاست اور ادب کو الگ الگ خانوں میں تقسیم کرتے ہیں لیکن اس میں مین را تمہارا کوئی حصہ نہیں۔ کیونکہ میں تمھیں تمہاری کہانیوں کے حوالے سے بھی جانتا ہوں۔ دیکھئے جدیدیت کا ایک اہم افسانہ نگار ادب میں سیاست کی وکالت کرتا ہے اور وہ مین را کی کہانیوں کواس لیے پسندکرتا ہے کہ اس کے یہاں سیاسی شعور موجود ہے۔

بلراج مین را نے اپنی بے باکی اور گرم گفتاری سے ترقی پسندوں اور جدیدیوں دونوں کی ناراضگی کا خطرہ مول لیا۔ مین را کو معلوم تھا کہ اس بے باکی کی قیمت کئی طرح سے ادا کرنی پڑے گی، سواس نےاس قیمت کی ادائیگی میں بھی بڑی خندہ پیشانی کا ثبوت پیش کیا۔ مین را کی ذہانت اور تخلیقی بصیرت سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا۔ وہ اگر چاہتے تو، میٹھی میٹھی باتوں سے بہی خواہوں اور ہاں میں ہاں ملانے والوں کا ایک حلقہ بناسکتے تھے۔ لیکن مین را نے ایساکچھ نہیں کیا۔ جن لوگوں نے مین را کو برداشت کیا ہے تواس کی وجہ صرف  یہ  ہے کہ مین را ایک اچھا فن کاراورسچا انسان ہے۔ کھری اور سچی باتیں وقتی طور پرکسی کو ناراض کر سکتی ہیں مگر ان سچی باتوں کی دائمی طاقت فن کار کی شخصیت کو زیادہ توانا اور پرکشش بنا دیتی ہیں۔ اگر ہم تھوڑی دیر کے لیے مین را کی شخصیت کے بارے میں سوچیں تو مین را کی آواز کانوں میں صاف سنائی دے گی جس میں تیزی بھی ہو گی اور ترشی بھی۔ مین را کی آواز کو ہم اس لیے سننانہیں چاہتے کہ وہ سماعتوں میں رس نہیں گھولتی۔ مین را نے اپنی فعالیت کے زمانے میں ادبی فضا(خصوصاً دہلی کی ادبی فضا)میں حرکت و حرارت پیدا کر دی تھی۔ اس فعالیت کا مقصد اپنی علمیت اور ذہانت کا مظاہرہ کرنا نہیں تھا بلکہ ادب کو ایک خاص رخ عطا کرنے کی کوشش تھی۔ آج پہلے سے کہیں زیادہ ادبی جلسے اور  مذاکرے ہو رہے ہیں، شعر و ادب کے نام پر چھپنے والی کتابوں کی تعداد بھی مستقل بڑھتی جا رہی ہے، اس کے باوجود جمود کی کیفیت طاری ہے۔ اس کی وجہ اور کچھ نہیں کہ ہم مصلحتوں کے شکار ہو چکے ہیں، ہم وہی باتیں لکھنا اور بولنا چاہتے ہیں جن سے ہمارے مفادات پر کوئی حرف نہ آئے۔ چنانچہ علمی و ادبی سرگرمیاں سچائیوں سے خالی ہوتی جا رہی ہیں۔ ادبی معاشرے کی خرابیوں کا تعلق مال وزرسے نہیں بلکہ انسانی جذبات اور احساسات سے ہے لہٰذا جذبات واحساسات کی صداقت کے بغیر صحت مند اور  دیر پا ادب وجود میں نہیں آ سکتا۔ نجات کاراستہ اگر خاموشی اور  غیر جانب داری بن جائے تو پھر معاشرہ ذہنی اور فکری طور پرمفلس و قلاش ہو جاتا ہے۔

احتجاج کا مزاج جیسے جیسے ختم ہوتا جا رہا ہے ہماری فکری دنیا میں جمود کی کیفیت پیدا ہوتی جاتی ہے۔ علمی اور  ادبی شخصیت کا مطلب  یہ  نہیں کہ عوامی زندگی سے فاصلہ قائم کر کے اشراف یہ  زندگی گزاری جائے۔ ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر لکھی جانے والی شاعری اور کہانی زندگی کی کڑی دھوپ سے اگر بے تعلق ہے توایسا ادب بہت دنوں تک زندہ نہیں رہ سکتا۔ اب ایسے خواص کی تعداد رفتہ رفتہ کم ہو رہی ہے جنھیں زندگی کے عام تماشوں سے دلچسپی ہو۔ ادب اگر ہمیں بزدل اور مصلحت پسندبناتا ہے تو یہ ادب اور سماج دونوں کے لیے افسوس ناک ہے۔ یہ  باتیں اس لیے پریشان کرتی ہیں کہ آج ہمارے ادبی معاشرے کو مین را جیسے فن کار کی ضرورت ہے۔ ادب اور سماج کے تعلق سے ہمیشہ چند ایسے دیوانے رہے ہیں جنھوں نے تعصّبات اور مصلحتوں سے بلند ہو کرسچ کوسچ کہا ہے۔ ایسے بے باک اور باغی فن کاروں کے دم سے ہی صحت مند ادب اور ایک اچھا ادبی معاشرہ وجود میں آتا ہے۔ مین را نے بھری محفل میں اپنے وقت کے بعض اہم ادیبوں سے اختلاف کیا ہے۔ یہ  تمام باتیں مین را کے حوالے سے تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں لوگ شاید بھولتے جا رہے ہیں کہ ہمارے یہاں ایک ایساباغی صحافی اور افسانہ نگار بھی ہوا تھا۔ لیکن مین را کو وہ نسل نہیں بھول سکتی جو مین را کی خاموشی کے بعدسامنے آئی ہے۔ اس نسل کو یہ  نہیں معلوم اور نہ اسے اس بات کی پرواہ ہے کہ مین را کے حق میں کوئی بات جاتی ہے یا اس کے خلاف۔ اس لیے کہ اب مین را سے کسی کا کوئی مفادوابستہ نہیں ہے اور نہ ہی وہ اپنی آواز کی ترشی سے کسی کا دل دکھاسکتا ہے۔ لہٰذا مین را میں نئی نسل کی دلچسپیفائدے اور نقصان سے کوئی علاقہ نہیں رکھتی۔ ترقی پسندی اور جدیدیت کے شور میں مین را نے کھوکھلی ترقی پسندی اور جدیدیت دونوں سے خود کو اور  اپنے زمانے کو بچانے کی کوشش کی۔ مین را جدیدیت کا ایک نمائندہ افسانہ نگار کہا جاتا ہے مگر لوگ  یہ  بھول جاتے ہیں کہ اسے گرامچی جیسے ترقی پسندسے جذباتی لگاؤ تھاجسے مسولینی کی فاشسٹ طاقت نے 8نومبر 1926 کو گرفتار کر کے قید خانے میں ڈال دیا تھا۔ وہ گرامچی کی دس سالہ قید و بند کی زندگی کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ گرامچی کے ذکرسے مین را کا جذباتی ہونا اس بات کی علامت ہے کہ مین را دنیا بھرکے ان باغیوں اور جیالوں کے دکھ درد کو نہ صرف محسوس کیا ہے بلکہ مقدور بھر اپنے باغی اور جیالے ہونے کا ثبوت بھی پیش کیا ہے۔ اردو میں پہلی مرتبہ بلراج مین را ہی نے اپنے رسالہ شعور میں گرامچی پر ایک گوشہ ترتیب دیا تھا۔ مین را ڈرائنگ روم کا نقاد یا افسانہ نگار نہیں ہے۔ مین را ٹریڈ یونین کا ممبر رہا ہے اس نے سیاسی جلسوں میں شرکت کی ہے، اس کی ایک آواز پر ایک زمانے میں ہڑتالیں ہو جایا کرتی تھیں۔ مین را کا خیال ہے کہ ادبی ماحول کو خراب کرنے اور زندگی کو مجہول اور ناکارہ بنانے میں ادبی جلسوں اور محفلوں نے بھی حصہ لیا ہے۔ مینرا ادبی جلسوں کا مخالف نہیں وہ اس علمی تہذیب کا مخالف ہے جو ادیب و شاعر میں تشخص کا احساس پیدا کر کے اسے عام زندگی سے بلند کر دے۔ اس تشخص کے سبب گفتار اور  رفتار میں ایک نزاکت پیدا ہو جاتی ہے۔ مین را کا اصرار ہے کہ عملی زندگی سے گہری دلچسپی کے بغیر کوئی فن کار اچھا فن کار نہیں ہو سکتا۔ خواب پرستی کا مطلب  یہ  نہیں کہ ہم زمین گیر ہو جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ مین را اور ان کے چنددوستوں کے بارے میں مشہور تھا کہ  یہ  لوگ جس محفل میں ہوں گے وہاں ہنگامہ ہونا لازمی ہے۔ اس کی وجہ  یہ  نہیں تھی کہ مین را کسی محفل کو خواہ مخواہ درہم برہم کرنا چاہتے تھے، بلکہ بات  یہ  ہے کہ مین را فضول اور فرضی باتوں کو برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ یہ  عین ممکن ہے کہ مین را جن باتوں کو فضول بتاتے یاسمجھتے ہیں وہ اوروں کے نزدیک فضول نہ ہوں۔ مین را نے مجھے بتایا کہ دہلی میں فراق گورکھپوری کی مخالفت اور ان کی مذمت کرنے کے لیے ترقی پسندوں کا ایک جلسہ ہو رہا تھا، میں بھی وہاں موجود تھا۔ خواجہ احمدعباس، فراق کے بارے میں عجیب و غریب باتیں کہہ رہے تھے اور جلسے میں موجود تمام لوگ دلچسپی کے ساتھ عباس صاحب کی تقریر سن رہے تھے۔ مجھے  یہ  بات خراب معلوم ہوئی کہ ایک شخص کی مذمت کے لیے اتنے لوگوں کو بلا کر کیوں وقت ضائع کیا جا رہا ہے۔ جبکہ مخالفت کی کوئی علمی یا اخلاقی بنیاد بھی نہیں۔ لہٰذا میں نے بھری محفل میں کہہ دیا کہ بکواس بند کیجیے۔ مین را کا یہ  کہنا کہ بکواس بند کیجیے فراق کی حمایت نہیں بلکہ  یہ  جملہ ایک غلط روش کے خلاف تھا۔ اگر مخالفت کرنی ہے تو زندگی کی اعلی قدروں اور سچائیوں کے حوالے سے مخالفت کیجیے۔ یہ  بات مین را نے بتائی کہ دہلی کے ایک مشاعرے میں اختر الایمان بھی آئے تھے مجھے بھی دوستوں نے پکڑ کر مشاعرہ گاہ تک پہنچا دیا اس وقت تک شعور کا پہلا شمارہ آ چکا تھا۔ ایم۔ ایف۔ حسین نے مین را سے کہا کہ سنا ہے آپ شعور میں پینٹنگ شائع کر رہے ہیں اور آپ نے مجھ سے کوئی فرمائش نہیں کی۔ مین را نے برجستہ کہا کہ حسین صاحب آپ توایمرجنسی میں اندرا گاندھی کی حمایت کر رہے تھے، اور  اندرا کو درگا بنا کر پیش کر رہے تھے۔ میں آپ سے پینٹنگ کی فرمائش کس طرح کر سکتاہوں۔ اس لیے غلط باتوں کی حمایت کرنا زندگی اور ادب دونوں کو خراب کرنا ہے۔ بہرحال مین را نے شعور کا پہلا شمارہ انھیں دے دیا۔ کچھ اور  آگے بڑھے تو سردارجعفری مل گئے ان کے نام بھی انھوں نے شعور کا شمارہ  یہ  لکھ کر بڑھایا کہ آپ اردو میں ایسا رسالہ نکالنے کا ارادہ بھی کر سکتے ہیں۔ اس مشاعرے کے بارے میں مین را نے بتایا کہ لوگ اختر الایمان سے نظم ایک لڑکا کی فرمائش کر رہے تھے۔ اختر الایمان نے نظم ایک لڑکاتوسنادی مگر نظم زیادہ تر لوگوں کے لیے اجنبی بن گئی۔ مین را نے بعد میں اختر الایمان سے کہا کہ جناب آپ کی جس نظم پر میں نے اپنے ۳۵سال خراب کیے اس نظم کا آپ نے دو منٹ میں ستیاناس کر دیا۔ مین را نے اپنے مزاج سے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا، جو بات بری معلوم ہوئی اس کا اظہار بر وقت کیا۔ میں را نے ایک واقعہ سنایا کہ خواجہ احمد فاروقی دہلی یونیورسٹی میں جدید ادب پر لیکچر دینے والے تھے۔ مین را، محمود ہاشمی کے ساتھ اس ہال میں پہنچے جہاں خواجہ احمد کا لیکچر تھا۔ اسی درمیان میں ایک صاحب محمود ہاشمی اور مین را کے پاس آئے اور بڑی سنجیدگی سے کہا کہ اس لکچر کا اہتمام صرف یہاں کے طالب علموں کے لیے کیا گیا ہے۔ مین را کو غصہ آ گیا۔ مین را ہال سے باہر آئے کاغذ پر ایک سخت جملہ لکھا اور اندر جا کر فاروقی صاحب کے حوالے کیا کہ حضوراسے پڑھ کرسنادیجیے۔ ایسے واقعات کی فہرست لمبی ہو جائے گی مجھے صرف اس جانب اشارا کرنا تھا کہ ادب میں جمود کا تعلق بڑی حد تک مصلحتوں اور  چال بازیوں سے ہے۔ مین را کے نزدیک کتابوں کا زیادہ چھپنا اس بات کی علامت نہیں کہ ادب پڑھنے والوں کی تعداد بڑھ گئی ہے یا ادب اپنے منصب پر فائز ہے۔ جمود کو توڑنے کے لیے ہمیشہ کچھ ایسے اشخاص کی ضرورت رہی ہے جو مصلحتوں سے بلند ہوتے ہیں۔ مینر اکے ان رویوں سے بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ ان کی شخصیت میں بردباری اور خوئے دل نوازی نہیں ہو گی۔ لیکن معاملہ اس کے برعکس ہے۔ وہ عام زندگی میں جتنا دل دار اور با اخلاق ہے اس کی مثال بھی مشکل سے ملے گی۔ سوچتاہو ں تو حیرت ہوتی ہے کہ جب  یہ  شخص عملی اعتبار سے فعال ہو گاتواس وقت کی ادبی صورت حال کس قدر کا ہنگامہ خیز رہی ہو گی۔ مین را کی ایک تحریر تنبولا  کا یہ اقتباس ملاحظہ کیجیے :

غیر جانب داری، بے عملی اور ماضی پرستی حکومت کے بڑے کام آتی ہے اور جب دانشور بھی اس مرض میں مبتلا ہو جاتا ہے، تب حکمراں چین کی نیند سوتا ہے۔

غیرجانبداری، بے عملی اور ماضی پرستی کی مخالفت کرنے والے ادیب سے زیادہ ترقی پسندکون ہو سکتا ہے۔ یہ  مخالفت صرف زبانی ہی نہیں بلکہ عملی بھی تھی۔ مین را کی اس تحریر کوسامنے رکھئے تو ترقی پسند شاعروں کی زندگی اور شاعری دونوں کی قدر و قیمت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس سے  یہ  بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ترقی پسندی کا تعلق کسی سیاسی پارٹی سے وابستہ ہو کر کام کرنا نہیں، بلکہ یہ  تو زندگی کا ایک آدرش ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مین را نے اپنے بعض ترقی پسنددوستوں کوسمجھایا کہ آپ حکومت کی ہاں میں ہاں ملا کر ترقی پسند نہیں ہو سکتے۔ حکومت کو غیر جانب داری بے عملی اور ماضی پرستی کیوں کرراس آتی ہے ؟اس بارے میں کسی وضاحت کی ضرورت نہیں۔ ایک عام آدمی بھی اس حقیقت سے واقف ہے کہ حکومت کی پناہ میں جانے کا مطلب ہے آسائشوں کو حاصل کرنا اور ساتھ ہی اپنے ضمیر کو مردہ کرنا۔ چنانچہ ایسا اس دور میں بھی ہو رہا ہے۔ مین را نے ادیبوں اور شاعروں کو وقت اور حالات سے صرف باخبر رہنا ضروری قرار نہیں دیا بلکہ اس کو اپنی تخلیق کا حصہ بنانے کی ضرورت پربھی زور دیا ہے۔ وہ مضمون تنبولا میں لکھتے ہیں :

مجھے محسوس ہوتا ہے کہ اردو کے بیشتر جدید ادیب نہ جی رہے ہیں، نہ ادب لکھ رہے ہیں بلکہ تنبولا کھیل رہے ہیں۔ تنبولابناکسیRiskکے بڑے نفع بخش Light refreshment اور Entertainment ہے اور جدید اردو ادب کے Creative processکا مکمل اظہار ہے۔

ایک بھونپو بجے چلا جا رہا ہے اور  دھڑادھڑ جدید افسانے نکلتے آ رہے ہیں۔ انقلابی عمل سے سجے ہوئے الفاظ عمل کے بغیر اندرسے کھوکھلے ہوتے ہیں۔ جن کا نہ توسماجی مسائل کے اقتصادی پہلوؤں سے کوئی تعلق ہے اور نہ عصری تاریخ کے تیز و تند عوامی بہاؤسے۔ یہ  بھونپو کیا ہے ؟ یہ  وہی بھونپو ہے جو انقلابی عمل سے سجے ہوئے الفاظ کو اشتہار بازی کے لیے استعمال کرتا ہے، جو ادب میں چھپ کر نئی نسل کو ورغلاتا ہے، جو ادب کے غیر ادبی معیار کا نعرہ لگاکرسماج کیContradictions سے ہماری نظریں ہٹانے کی کوشش کرتا ہے، جو زندگی اور ادب کو مختلف خانے سمجھتا ہے اور اس کا پرچار کرتا ہے اور یوں عمل اور تخلیق کو الگ کرنے کی سازش میں شریک ہے۔ کیا ایسی کسی تحریک یا رجحان سے انورسجاد سے افسانہ نگار کو کوئی سمبندھ ہو سکتا ہے۔

میں نے مین را کی سماجی وابستگی اور اس کی باغیانہ فکر کے تعلق سے جو کچھ لکھا ہے اس کی تصدیق مین را کے مندرجہ بالا اقتباس سے بھی ہوتی ہے۔ مین را کے فن اور شخصیت پر لکھنے والوں کی نظر میں اگر مین را کی یہ  تحریر تنبولا ہوتی تو مین را کی کہانیوں کے ساتھ زیادہ بہتر طور پر انصاف کیا جا سکتا تھا۔ وہ ان تمام لوگوں کی مخالفت کرتے ہیں جو اپنے مفاد کے لیے عوامی نعرے لگاتے ہیں۔ یہ  سب کچھ وہ اس لیے کرتے ہیں تاکہ ان کی سماجی وابستگی لوگوں پر عیاں ہو جائے۔ لفظ اور عمل کا رشتہ جب کمزور ہوتا ہے تو ادب میں زندگی باقی نہیں رہتی۔ ادب کی تخلیق کا مقصد وقت گزاری اور دل بہلانا نہیں۔ چاہے ادب کی ادبیت پر جتنا بھی اصرار کیا جائے مگر ادب اور زندگی کے گہرے رشتے کو کبھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ بلراج مین را لکھتے ہیں :

ایک شہری جو قلی ہے اور ایک شہری جوافسانہ نگار ہے دونوں میں کیا فرق ہے ؟ یہی ناکہ افسانہ نگار علم کے میدان میں قلی سے آگے ہے۔ اسی لیے افسانہ نگار کی ذمہ داری کہیں زیادہ ہے۔ اسے تمام سماجی مسائل کی تفتیش کرنا ہو گی۔ سماجی برائیوں اور امراض کی تہ تک جانا ہو گا اور ہر عوامی مسئلے پر ایک مضبوط اسٹینڈبھی لینا ہو گا۔ المیہ   یہ  ہے کہ بہت سارے معصوم ادیبPlanted ادیبوں جو یقیناً ذہین ہوتے ہیں، کے جال میں پھنس کرمسائل کوسہل کرنے کی گُر بازی میں مسائل ہی کو جھٹلا دیتے ہیں اور یوں نادانستہ طور پر عوام دشمن عناصر کاساتھ دیتے ہیں۔

ایک ادیب کی ذمہ داری صرف ادب کی تخلیق ہی نہیں بلکہ سماجی مسائل سے گہری دل چسپی بھی ہے، تاکہ وہ اپنی تخلیق میں ان مسائل کو تخلیقی سطح پر برت سکے۔ مین را کے نزدیک توجہ کا مرکز خواص سے زیادہ عوام ہیں اس لیے کہ زندگی کے بیشترمسائل کا تعلق انھیں سے ہے۔ مین را کی تحریروں میں لفظ عوام کے ساتھ جس ہمدردی کا اظہار ہوا ہے وہ ان کی دردمندی کی ایک مثال ہے۔ مین را کے ان خیالات کے تناظر میں حسن عسکری کی یہ  تحریر ملاحظہ کیجیے:

۳۶کے بعدسے ہمارے ادب میں، جو تخلیقی لہر آئی اس کی وجہ  یہ  تھی کہ ہمارے ادیبوں نے اپنے ذہن کی فاعلی قوت سے کام لیا۔ اور  جو نظر یہ  بھی سامنے آیا اس کی مددسے پوری زندگی کوسمجھنے کی کوشش کی۔ یہ  نظریے اچھے تھے یا برے یہ  کوشش طفلانہ تھی یا پختہ کارانہ تھی، اس سے بحث نہیں۔ مگر کوشش ضرور ہوئی اور کسی نہ کسی حد تک پوری زندگی کوسمجھنے کی کوشش ہوئی۔ آج کل ترقی پسندوں کو پشیمانی ہے کہ اس زمانے میں ہم ہر نئے لکھنے والوں کو ترقی پسندکہنے لگتے تھے۔ یہ  ٹھیک ہے کہ کمیونسٹ پارٹی تو ترقی پسند تحریک کو ہمیشہ سے اپنا آلۂ کار سمجھتی تھی اور اسے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتی تھی۔ لیکن ادیبوں کا ذہنی تجسس اور تخلیقی لگن انھیں کسی پارٹی کے سانچوں میں نہ ٹھہرنے دیتی تھی۔ جب ان دونوں چیزوں میں کمی آنے لگی اور جو لوگ ادیب بن چکے تھے انھوں نے ادبی صلاحیت استعمال کیے بغیر ادیب بنے رہنا چاہا اور  پھر نظریے زندگی کی تفتیش کا ذریعہ نہ رہے۔ بلکہ انھوں نے زندگی کی جگہ لے لی۔ چنانچہ ان ادیبوں نے تو دماغ سے کام لینا یوں چھوڑا۔ باقی جو ادیب بچے ان میں سے زیادہ تراس نظر یہ  بازی سے اس قدر بیزار ہوئے کہ انھوں نے طے کر لیا کہ ہرقسم کے نظریوں سے دلچسپی ادب کے لیے مہلک ہے۔

حسن عسکری نے  یہ  مضمون ستمبر1952 میں لکھا تھا۔ یہ  دورہندوستان اور پاکستان کی سیاسی وسماجی تاریخ میں جمود کا تھا۔ ملک کی آزادی اور تقسیم کے نتیجے میں جو زخم دلوں کو لگے تھے وہ ابھی تازہ تھے۔ حسن عسکری نے ترقی پسندوں اور ان کے متوازی میلانات رکھنے والے ادیبوں کے سلسلے میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے اس کا اطلاق ہمارے عہد کے ادیبوں پربھی ہوتا ہے۔ حسن عسکری دونوں طبقوں سے اس لیے ناراض ہیں کہ انھوں نے ادب اور نظریے کے درمیان مفاہمت کی کوئی صورت نہیں نکالی۔ بلراج مین را نے ترقی پسندوں اور جدیدیوں پر جو حملے کیے تھے اس کے پیچھے بھی دراصل یہی فکر تھی۔ جس کی طرف حسن عسکری نے اشارے کیے ہیں۔ اس مضمون کو پڑھ کرایسامحسوس ہوتا ہے کہ حسن عسکری اور بلراج مین را ادب کے بنیادی مسائل کے تعلق سے ایک ہی طرح سوچتے ہیں۔ حسن عسکری لکھتے ہیں :

نظریوں کو اختیار کرنا تو الگ رہا نظریوں پر غور کرنے سے بھی انھیں عار آنے لگی یعنی انھوں نے اپنے ذہنی تجسس ہی کا گلا گھونٹ دیا۔ پوری زندگی کوسمجھنے کی کوشش کرنے سے یوں ڈرنے لگے کہ کہیں کسی نظریے کا شکار نہ ہو جائیں۔ اس کے بعد ان کے پاس ایک ہی موضوع رہ جاتا ہے یعنی ذاتی اور لمحاتی تاثرات۔

بلراج مین را نے اپنے رسالے شعور کے اداریے میں ان مسائل پرسیر حاصل گفتگو کی ہے۔ اور اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ادب سچائیوں سے گریز اختیار کر کے دیرپا نہیں بن سکتا، اور نظریات سے الگ رہ کر کوئی ادیب عصری ادیب نہیں ہو سکتا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ نظریات سے بیزاری در اصل ایک طرح کا فرار ہے لیکن وہ نظریے کوکسی کی ہدایت کے طور پر قبول کرنا نہیں چاہتے۔ مین را کے نزدیک اچھے ادب کا مطلب زندگی کی کھری اور سچی باتوں کا تخلیقی اظہار ہے۔

مین را نہ تو مشرقیت پر زیادہ زور دیتے ہیں اور نہ مغربیت پر۔ وہ ادب کا ایک عالمی اور آفاقی تصور رکھتے ہیں۔ اس لیے کہ بڑا ادب جغرافیائی حدودسے بلند ہوتا ہے۔ مین را نے اپنی کہانیوں اور دوسری تحریروں میں جن مغربی مفکرین کے نام لیے ہیں ان سے عقیدت کی وجہ  یہ  نہیں ہے کہ وہ مفکرین مغربی ممالک سے تعلق رکھتے ہیں، بلکہ ان کی زندگیوں میں آدرش موجود ہے۔ مین را لکھتے ہیں :

ہم نے جس سماج میں آنکھ کھولی ہے اس سماج نے پیشتراس کے ہمیں اپنی سوجھ بوجھ کا علم ہو ہماری کھوپڑی میں ایک مخصوص مذہب اور دیومالا اور  ان کے حوالے سے ایک ملک اور اس کی تاریخ کاساراکوڑابھردیا۔ اپنے آپ کواس بلا خیز عہد میں جینے کے قابل بنانے کے لیے پہلے ہمیں اپنی کھوپڑی صاف کرنا پڑے گی۔ سماج اور فرد کی زندگی میں موجود تضادات کا احساس، ان کی واضح پہچان اور پھر ان سے چھٹکارا پانے کی کوشش تخلیق کی جانب پہلا قدم ہے

اس اقتباس کی روشنی میں  یہ  سمجھناغلط ہو گا کہ مین را کسی خاص مذہب اور دیومالا کے مخالف ہیں۔ مین را کا منشا یہ  ہے کہ ایک انسان آزادانہ طور پرسوچنے سے پہلے ہی مختلف قسم کی روایتوں میں الجھ کر اپنے ذہن کو محدود کر لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پھر روشن خیالی کی باتیں اس کے ذہن کو متاثر نہیں کرتیں۔ مین را ذہنی آزادی کی وکالت اس لیے بھی کرتے ہیں کہ وہ خودکسی مذہب کو نہیں مانتے۔ انھیں اس سے دلچسپی نہیں کہ کوئی انسان مذہبی ہے یا غیر مذہبی، ان کی دلچسپی صرف اس بات میں ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کو تعصب کی نظرسے نہ دیکھے۔ اپنی علمیت کا مظاہرہ کرنے کے لیے کسی نظریے پر گفتگو کرنا مین را کے نزدیک فیشن کے سواکچھ اور نہیں۔

بعض حضرات مین را کی شخصیت میں ڈرامائی عناصر کی بات کرتے ہیں ان کا خیال ہے کہ مین را شخصی اعتبار سے ایک ڈراما ہے۔ پہلی نظر میں ان کی شخصیت کا ہر رنگ ان کا بنیادی رنگ معلوم ہوتا ہے لیکن ان کے مزاج کی سیمابیت انھیں دیر تک ایک رنگ پر رہنے نہیں دیتی۔ یہ  رنگ تبدیل کرنا دراصل مین را کی شخصیت کا ایک ایسارنگ ہے جس کی بنیاد مطالعہ مشاہدہ اور ذہانت پر ہے۔ جس طرح مین را کی کہانی بے چین کرتی ہے اور آسانی سے گرفت میں نہیں آتی کچھ  یہی حال مین را کی شخصیت کا بھی ہے۔ مین را بے تکان گفتگو کرتے ہیں۔ خیالات کا دباؤ انھیں ایک موضوع پر بہت دیر تک ٹھہرنے نہیں دیتا۔ عموماً ایک فنکار کی دل چسپی اسی صنف میں ہوتی ہے جس میں وہ اپنے فن کا اظہار کرتا ہے۔ لیکن مین را کی دل چسپی کا دائرہ کھیل، فلم، میڈیا غرض زندگی کے مختلف شعبوں تک پھیلا ہوا ہے۔ آج بھی وہ بڑے انہماک سے فٹ بال اور کرکٹ میچ دیکھتے ہیں۔ کھلاڑیوں کے نام اور ان کے ذریعے بننے والے ریکارڈس انھیں اچھی طرح یاد ہیں۔ کھیل کی تمام باریکیاں وہ اس طرح بتاتے ہیں جیسے وہ کھیل کے میدان سے ابھی نکل کر آئے ہوں۔ کم و بیش یہی صورت فلموں کی بھی ہے۔ مین را سے گفتگو کر کے ایک بھر پور شخص کا تصور ذہن میں ابھرتا ہے اور اس کا علم ہوتا ہے کہ ایک انسان زندگی کی مختلف دل چسپیوں اور تماشوں کا حصہ بن کر ہی مکمل ہوتا ہے۔

پچھلے تیس برسوں سے مین را نے کچھ نہیں لکھا۔ مگر وہ عصری ادب کے منظر نامے سے واقف ہیں۔ انھیں معلوم ہے کون کیا لکھ رہا ہے۔ مین را کی طبیعت اچھی نہیں رہتی۔ کم سے کم تین برس سے میں نے انھیں سانس کی تکلیف میں دیکھا ہے، ہاتھوں میں کپکپی آ جاتی ہے اور سانس پھولنے لگتیہے۔ اس عرصے میں نہ جانے کتنی بار میں نے انھیں فون کیا جب کبھی خیریت پوچھی تو ایک ہی جواب سنا کہ زندگی تو جینے کے لیے ہے جی رہا ہوں۔ ادبی محفلوں میں ان کی شرکت نہیں ہوتی۔ چلنے پھرنے میں کوئی خاص تکلیف نہیں ہے اگر طبیعت ٹھیک رہی تو اتوار کو دریاگنج میں سڑک کے کنارے فروخت ہونے والی کتابوں کو دیکھنے آ جاتے ہیں۔ اور اپنے ذوق کی کتابیں خرید لیتے ہیں۔ ان کے پرانے احباب کا حلقہ پہلے جیسے نہیں رہا۔

مین را کی شخصیت کے بارے میں زیادہ بہتر طور پروہ لوگ جانتے ہیں جن سے مین را کے گہرے مراسم رہے ہیں اور جنھوں نے بہت قریب سے مین را کو دیکھا ہے۔ میرے یہ  بکھرے ہوئے خیالات مختلف ملاقاتوں کا نتیجہ ہیں۔ ان ملاقاتوں کا حاصل  یہ  ہے کہ مین را کی تمام تحریریں اور ان سے متعلق دوسروں کی اہم تحریریں کتابی شکل میں آپ کے سامنے ہیں۔ میں نے چند ملاقاتوں کے بعد مین را صاحب سے درخواست کی تھی کہ آپ اجازت دیں تومیں آپ کی کہانیوں کو کتابی صورت دے دوں۔ میری یہ  بات سن کر انہیں ایسا لگا جیسے کوئی ایسی بات کہہ دی ہو جواب تک کی ملاقاتوں میں سب سے غیر ضروری اور بے معنی ہو۔ کتاب کیوں چھپے اس کی دلیلیں جو میری سمجھ میں آئیں میں نے پیش کر دیں۔ لیکن کتاب نہیں چھپے اس سلسلے میں انھوں نے جو دلائل پیش کئے ان کے سامنے میں نے خود کو لاجواب پایا۔ واقعی میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ مین را کی پریشانی کاسبب علمی و ادبی دنیا کا وہ منظر نامہ ہے جس میں اچھی اور خراب تحریر کا فرق باقی نہیں رہا۔ اور پھر یہ  کہ ادب کا قاری کہاں ہے ؟جب حالات اتنے حوصلہ شکن ہوں تو کتاب کے چھپنے کا جواز کیا ہے۔ میری ملاقات سے قبل اور بعد میں بھی مین را کے کئی بہی خواہوں اور چاہنے والوں نے خطوط لکھ کر اور کبھی فون پراس بات کی اجازت چاہی کہ آپ صرف ہاں کہہ دیجئے کتاب آپ کی مرضی کے مطابق چھپ جائے گی۔ مگرسب کو انھوں نے منع کیا اور صاف صاف کہہ دیا کہ کتاب میری زندگی میں نہیں چھپ سکتی۔ مین را صاحب کے دلائل سننے کے بعد میں نے ہار نہیں مانی۔ آخر وہ وقت آ گیا جب ان کی زبان سے  یہ  جملہ نکلا کہ کتاب چھپ سکتی ہے لیکن ایک شرط کے ساتھ کہ نہ تو کوئی سرکاری ادارہ اسے شائع کرے اور نہ اس کتاب پر کوئی انعام ملے۔ میں نے شرط منظور کر لی اور ان کا شکریہ ادا کیا۔ اس واقعہ کودوبرس سے زیادہ ہو گئے ہیں۔ یہ  عرصہ مین را کی کہانیوں کی تلاش میں گذر گیا۔ ظاہر ہے کہ اس درمیان کچھ رکاوٹیں بھی سامنے آئیں جن میں مین را صاحب کی طبیعت کی خرابی بھی ہے اور میرے مشکل حالات بھی۔ اس کتاب میں مین را کی 38کہانیاں شامل ہیں۔ کون سی کہانی کب اور کہاں شائع ہوئی اس کی تفصیل کہانی کے اختتام پر درج ہے۔ ان کہانیوں کی ترتیب میں فکر و خیال کی سطح پر پائی جانے والی مماثلت کا خیال رکھا گیا ہے۔ ضمیمے میں مین را کی غیرافسانوی تحریریں اور ان سے متعلق دوسرے حضرات کی تحریریں شامل ہیں۔ مین را جنرل ضمیمہ میں شامل ہے۔ جو لوگ مین را جنرل سے واقف ہیں انھیں معلوم ہو گا کہ اس کا تعلق مین را کی ایک کہانی پورٹریٹ اِن بلیک اینڈ بلڈ کے مباحث سے ہے۔ میں نے ضروری سمجھاکہ ان مباحث کواس کتاب میں شامل کر دیا جائے تاکہ گذشتہ برسوں میں مین را کے سلسلے میں جو گفتگو ہوئی ہے اس سے نئے لوگ بھی واقف ہو سکیں۔ حیات اللہ انصاری کا مضمون بڑا دل چسپ ہے جوان کی کتاب جدیدیت کی سیرمیں شامل ہے۔ اس مضمون کواس کی اہمیت کے پیش نظر ضمیمے میں شامل کیا گیا ہے کتاب نما کادیوندرستیارتھی پر مخصوص شمارہ مین را نے ترتیب دیا تھا کتاب نما کا یہ  خاص شمارہ دیوندرستیارتھی میں مین را کی گہری دل چسپی کا پتہ دیتا ہے۔ ضمیمے میں پروفیسرگوپی چند نارنگ پروفیسرشمیم حنفی، صدیق الرحمن قدوائی، محمود ہاشمی، پروفیسرقاضی جمال حسین، اور جناب زبیر رضوی کے مضامین شامل ہیں۔ یہ  تمام حضرات ہمارے عہد کے اہم لکھنے والوں میں ہیں میں ان سب کا ممنون ہوں کہ انھوں نے اس کتاب کے لیے اپنی تحریریں عنایت کیں۔ کتاب کا پیش لفظ شعور کا ایک اداریہ  ہے اس کے بارے میں  یہ  کہا جا سکتا ہے پرانی تحریر کو پیش لفظ بنانے کی کیا ضرورت ہے۔ اس کا جواب  یہ  ہے کہ جوسوالات اس میں اٹھائے گئے تھے ان کی اہمیت آج بھی باقی ہے۔ شعور کا ایک دوسرا ادار یہ  جس کا نام افق ہے اسے مین را کی تحریروں کے آخر میں رکھا گیا ہے۔ اس طرح دو افق کے درمیان صرف مین را کی اپنی تحریریں ہیں دوسری کتاب میں مین را سے متعلق مختلف ناقدین کی تحریروں کو شامل کیا گیا ہے۔ میں نے اپنی تحریر کوسب سے آخر میں رکھا ہے۔ میں نے ایک طالب علم کی حیثیت سے مین را کی شخصیت اور مین را کے فن کوسمجھنے کی کوشش کی ہے۔ مجھے سب سے زیادہ خوشی اس بات کی ہے کہ مین را کی کہانیاں اور دوسری تحریریں کتابی شکل میں پہلی مرتبہ منظر عام پر آ رہی ہیں۔ وہ تمام ادب کے با ذوق قاری جو مین را کو پڑھنا چاہتے ہیں اور جنھوں نے مین را کو آدھا ادھورا پڑھا ہے وہ اب مکمل مین را کو پڑھ سکتے ہیں۔ مین را کو پڑھنے اور پسند کرنے والوں کا حلقہ ملک اور  بیرون ملک تک پھیلا ہوا ہے۔ بہت سے بزرگوں اور دوستوں نے اس کام کے سلسلے میں مجھے مبارک باد دی اور شکر یہ  بھی ادا کیا کہ تم نے اس کام کو اپنے لیے نہیں بلکہ ہمارے لیے کیا ہے۔ ان بزرگوں اور دوستوں کی ہمت افزائی نے مجھ میں شوق اور اعتماد پیدا کیا۔ وہ آج کے ادبی منظر نامے سے بہت دور ہے مگراس کی گوشہ نشینی کا خیال ہی ادبی جلسوں کو آئینہ دکھانے کے لیے کافی ہے۔ مین را کو معلوم تھا کہ خواب پرستی اچھی چیز ہے لیکن ہر خواب کی تعبیر نہیں ہوتی۔ اس کے باوجود مین را نے خواب دیکھا اس لیے کہ خواب دیکھنا اس کا حق تھا۔ مین را نے خواب کوسچ ثابت کرنے کے لیے جیسی عملی کوشش کی اس کو دیکھ کر دنیا بھر کی ان شخصیتوں کی یاد تازہ ہو جاتی ہے جنھوں نے اپنے اپنے وقت میں زندگی کی اعلیٰ قدروں اور سچائیوں کے لیے قربانیاں دی ہیں۔ مین را کے نزدیک اصولوں سے سمجھوتاکرنا اپنی زندگی اور ضمیر کو شرمندہ کرنا ہے۔ ایک گفتگو کے دوران بلراج مین را نے کہا کہ میں آج اپنی زندگی پر شرمندہ نہیں ہوں، ایک فن کار کی اس سے بڑی طاقت اور فتح کیا ہو سکتی ہے۔ بلراج مین را آج بھی ہمارے لیے ایک چیلنج ہے اور مشعلِ راہ بھی۔ مجاز نے کہا تھا:

جو ہو سکے ہمیں پامال کر کے آگے بڑھ

نہ ہو سکے تو ہمارا جواب پیدا کر

اب جبکہ  یہ  کتاب پریس میں جا رہی ہے تو مجھے حیرت اور مسرت دونوں کا احساس ہو رہا ہے۔ حیرت اس لیے کہ میں نے سوچابھی نہیں تھا کہ اتنے اہم افسانہ نگار کی تحریروں کی تلاش و ترتیب اور تعارف کا یہ  تاریخی کام میرے حصے میں آئے گا۔ اور میں ان مراحل سے گذر جاؤں گا۔ میں خوش ہوں کہ جے۔ این۔ یو میں میری طالب علمی کے چندسال چند اچھی کتابوں کے مطالعے اور چند اچھی تحریروں کی تلاش و تعارف میں گذرے ہیں۔ اس عرصے میں کبھی کبھی تو مایوسیاں اس قدر بڑھیں کہ میرے حوصلے پست ہونے لگے مگر ان ہی مایوسیوں اور مشکل حالات کے دوران خود کو توانا بھی کرتا رہا۔ اور بے یقینی اور بدصورتی کے گھپ اندھیرے میں امید اور حوصلے کی کرن دکھائی دینے لگتی۔

مجھے یہ  لکھتے ہوئے مسرت کا احساس ہو رہا ہے کہ مین را کی یہ  کتاب میری طالب علمی کے زمانے کی ایک اہم یادگار کی حیثیت رکھتی ہے۔ مین را کی تحریروں کو میں نے ہر طرح کے فیشن اور مصلحت سے بلند ہو کر ایک طالب علم کی حیثیت سے پڑھنا شروع کیا تھا، ہمارے عہد کے بہت سے لوگوں کے لیے مین را اس طرح کشش اور دلچسپی کا باعث نہیں ہیں اس کی وجہ اس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ ہم بہت جلد اپنے ادیبوں کو بھولتے جاتے ہیں شاید اس لیے بھی کہ ہم عصر حاضر کے انھیں ادیبوں کو پڑھنا چاہتے ہیں یا ان پر لکھنا چاہتے ہیں جن سے کچھ نہ کچھ فائدہ کا پہلو سامنے آئے سومین را کسی کو کیا فائدہ پہنچاسکتا ہے وہ تو خود ہی ادب پڑھنے اور لکھنے کی قیمت ادا کر رہا ہے۔ مین را کو بھولنے کی دوسری وجہ خود مین را کی گوشہ نشینی بھی ہے۔ ایسے حالات میں اس کتاب کی اشاعت کا یہ  مطلب نہیں کہ مین را کو دو بارہ ادبی منظر نامے پر لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس لیے کہ مین را کی کہانیاں جدید افسانے کی تنقید میں بنیادی حوالے کی حیثیت سے سامنے آتی رہی ہیں۔ میں ایک طالب علم کی حیثیت سے اپنے حدود کو پہچانتا ہوں اور ان حدود کو عبور کرنے کی مجھ میں ہمت نہیں ہے۔ اس کتاب میں جو کچھ موجود ہے اس کا براہِ راست تعلق مین را کی ذات سے ہے۔ اس کتاب کی تیاری میں بھی وہ عملی طور پر شریک رہے ہیں۔ میرے عزیز دوست ہمانشو گوتم نے مین را کی بعض کہانیوں کو پڑھ کراورسن کر بلراج مین کے تعلق سے میری ادبی دلچسپی میں اضافہ بھی کیا ہے اور کہانی کے تجزیہ اور تفہیم میں میری مشکلوں کوآسان بھی کیا ہے۔

(ماخوذ:کتاب ’ بلراج مینرا: ایک نا تمام سفر‘)

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے