غزلیں۔ ۔ ۔ کاوش عباسی

شرار دل کو تا چشم آنے کی مہلت نہیں ملتی

مَیں رونا چاہتا ہوں، رونے کی فرصت نہیں ملتی

 

مِری اُن سوختہ تنہائیوں میں کتنے سورج تھے

چمکتی جلوتوں میں بھی یہ  کیفیّت نہیں ملتی

 

محبّت، سر خوشی، تسکیں، مجھے بھی اچھے لگتے ہیں

پَر اِن روشن ستاروں سے مِری قسمت نہیں ملتی

 

مَیں خوش ہوں، سیر ہوں پھر بھی سدا بیکل سا رہتا ہوں

نہ جانے میرے دل کو کون سی اُلفت نہیں ملتی

 

عنایت خاص ہے فطرت کی ہم شعلہ مزاجوں پر

یوں ہی ہر لب کو تو اظہار کی قُوّت نہیں ملتی

 

تمام آسائشیں، سب عیش جاں ہیں رائگاں کاوش

کسی پہلو دل بیگانہ کو راحت نہیں ملتی

٭٭٭

 

 

 

 

 

را ئگا نی گُزر گئے وہ پل

نہ جئے تھے کہ مَر گئے وہ پل

 

جس ہوا میں ہوئے تھے وہ تعمیر

اُس ہوا میں بکھر گئے وہ پل

 

یوں ہی محسوس سے ہوئے تھے مجھے

یوں ہی چھُو کر گزر گئے وہ پل

 

بند حرفوں کو کھولتے ہی نہ تھے

اپنے جادو میں مَر گئے وہ پل

 

اب تو آنکھوں میں بھی نہیں جچتے

کب تھے دِل میں اُتر گئے وہ پل

 

سب نشاں کھوئے اُس کے چہرے پر

ڈ ہو نڈ تا ہوں کدھر گئے وہ پل

 

سوچتا ہوں وہ جھوٹ تھے کہ تھا مَیں

اس طرح کیوں مُکَر گئے وہ پل

 

تم نے چھوڑا کہ خود گئے کاوش

تم کو تنہا تو کر گئے وہ پل

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے