غزل۔ ۔ فرح دیبا

زیست مشکل  یہ  خود بنائی ہے

کی محبت تو پھر نبھائی ہے

 

داغ سینے کا جب سے روشن ہے

گھر میں کچھ روشنی ہی آئی ہے

 

کہتے ہیں ہاں، قیامت آئی نہیں

پیار میں  یہ  تو روز آئی ہے

 

بات دیکھی ہے بات سمجھی ہے

جب کرن سوچ کی جلائی ہے

 

اک نگہ سے خیال باندھا ہے

اور یہ  سب تری دلربائی ہے

 

پوچھ مجھ سے  یہ  شاعری کیا ہے

دل کے زخموں کی رونمائی ہے

 

اشک تیشے سے کاٹ لی ہجرت

پھر گھڑی وصل کی یہ  پائی ہے

 

سر جھکا کر بھی ہم نے دیکھ لیا

جی حضوری تو اک برائی ہے

 

بیخودی میں خودی کا عنصر ہے

عاشقی اب تری دہائی ہے

 

اب کہانی کہاں سے پھوٹے گی

ایک کردار سے بنائی ہے

 

بے نیازی بھی دیکھ لی اس کی

فرش تا عرش خود نمائی ہے

 

بات کرنی ہے رب سے رو رو کر

پوچھ فرصت میں کیا خدائی ہے

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے