اردو ادب میں فکر و دانش کے ایک عہد کا خاتمہ ۔۔۔ سبین علی

داستان سرائے خاموش ہو گئی۔ اشفاق احمد کی روح بہت خوش ہو گی کہ ان کی ہم نفس اور  لازوال محبت کرنے والی جیون ساتھی ان سے جا ملیں۔ مگر ان کے بیٹوں انیساحمد انیق احمد اور  اثیر احمد سمیت ان کے لاکھوں مداحوں کو پرسہ کیسے لکھا جائے ؟ بانوقدسیہ کی رحلت کے ساتھ ہی اردو میں شائستگی سنجیدگی اور  دانشورانہ انداز میں تخلیق کیے گئے ادب کے ایک عہد کا خاتمہ ہوا۔

بانو قدسیہ کی پیدائش فیروز پور کے ایک زمیندار گھرانے میں ہوئی۔ وہ کم سنی میں ہی شفقت پدری سے محروم ہو گئیں تھیں ان کی والدہ ذاکرہ بیگم جو خود بھی اعلی تعلیمیافتہ خاتون تھیں، نے اپنے شوہر کی جواں سال وفات کے باوجود اپنے بچوں کی کی اعلی تعلیم و تربیت کا خیال رکھا۔ بانو قدسیہ زمانہ طالب علمی میں اپنے سکول کی تقریبات کے لیے ڈرامہ لکھا کرتی تھیں۔ مگر انہوں نے ان سکول ڈراموں کے علاوہ باقاعدہ لکھنے کا آغاز نہ کیا تھا۔ جب وہ کینئرڈ کالج لاہور میں زیر تعلیم تھیں تو تقسیم کے فسادات پھوٹ پڑے۔ بہت سے لوگوں کو امید تھی کہ گورداسپور پاکستان میں شامل ہو گا مگر ایسا نہ ہوا اور  آزادی کے اچانک اعلان کے بعد ان کے خاندان کو ہجرت کی صعوبتوں سے بھی گزرنا پڑا۔ جب آزادی کے بعد گورداسپور سے ان کا خاندان ہجرت کر کے لاہور آیا تو ان کا بی اے کا نتیجہ آ چکا تھا۔ انہوں نے ۱۹۴۹ء میں ایم اے اردو کے لیے گورمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لیا تو وہاں معروف ادیب اشفاق احمد ان کے کلاس فیلو تھے۔ گورمنٹ کالج میں انہیں اردو کے بہت سے قابل اساتذہ بھی ملے جن میں سے ایک معروف شاعر صوفی غلام مصطفیٰ تبسم بھی تھے۔ اشفاق احمد اس وقت تک ادب کی دنیا میں اپنی پہچان بنا چکے تھے۔ جب انہوں نے بانو قدسیہ میں تخلیقی صلاحیتوں کو دیکھا تو ان کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ باقاعدہ لکھنا شروع کریں۔ یوں ان کا پہلا افسانہ "واماندگی شوق” معروف ادبی جریدے "ادب لطیف” میں شائع ہوا۔ ادبی میلانات اور  ذہنی ہم آہنگی نے اشفاق احمد اور  بانو قدسیہ کو محبت کی شادی کے بندھن میں باندھ دیا۔ بانو قدسیہ ہمیشہ اشفاق احمد کی ممدوح رہیں کہ وہ ان کے فن کو نکھارنے اور  حوصلہ افزائی سے مسلسل پروان چڑھانے میں اِن کی مدد کرتے رہے۔ اس ادبی جوڑے نے اردو ادب کو فقید المثال ڈرامے، افسانے اور  ناول عطا کیے۔

بانوقدسیہ نے پی ٹی وی کے لیے کئی یادگار ڈرامہ سیریلز اور  لانگ پلے لکھے۔ ان کے ڈرامے آدھی بات کو کلاسیک کا درجہ حاصل ہوا۔ مگر انہیں اصل شہرت اور  ادبی مقام ان کے ناول راجہ گدھ نے دلایا۔ راجہ گدھ کا شمار اردو ادب کے نمایاں اور  بہترین ناولوں میں ہوتا ہے۔ قیوم، آفتاب اور  سیمی کے لازوال کردار آج بھی قارئین کو حلال اور  حرام کے فرق، دیوانگی اور  حرام کے مضمرات سے آگاہ کرتے ہیں۔ راجہ گدھ کو قارئین میں اتنی مقبولیت حاصل ہوئی کہ اب تک اس کے بیس سے زائد ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ راجہ گدھ کے علاوہ بھی ان کے بہت سے ناول ڈرامے اور  افسانے ادب عالیہ  میں منفرد مقام اور  قبول عام کا درجہ حاصل کر چکے ہیں۔ حاصل گھاٹ، مرد ابریشم، فٹ پاتھ کی گھاس، پروا، موم کی گلیاں، امربیل ان کی مشہور تصنیفات ہیں۔

بانوقدسیہ کی تحریر میں جہاں مفکرانہ گہرائی و گیرائی ہے وہیں نفاست و سلاست کے ساتھ ساتھ زندگی کا فلسفہ بھی ملتا ہے۔ ان کے شوہر معروف مصنف اشفاق احمد کا اسلوب صوفیانہ سادہ اور  دلنشیں تھا جبکہ بانو قدسیہ اپنے فکر انگیز و دانش ورانہ اور  گہرے فلسفیانیہ اسلوب کے ساتھ منفرد آہنگ لیے اپنی الگ پہچان بناتی نظر آئیں۔

بانوقدسیہ کے ڈراموں ناولوں اور  افسانوں میں جہاں اپنی تہذیب و ثقافت کے رنگ ہیں روزمرہ زندگی سے چلتے پھرتے کردار ہیں وہیں ہمیں مشرق و مغرب اور  ان کی اقدار کا فکر انگیز موازنہ بھی ملتا ہے۔ بانو قدسیہ محض ایک مصنفہ نہ تھیں بلکہ وہ ایک دانش ور اور  سماج کی نباض بھی تھیں۔ ایسے لوگ کسی بھی معاشرے کا دماغ ہوتے ہیں جو اپنے گرد و پیش کا جائزہ عام لوگوں کی بنسبت زیادہ گہرائی سے لے کر نہ صرف دور حاضر کا حقیقی عکس پیش کرتے ہیں بلکہ آنے والے حالات کا قبل از وقت ادراک بھی قارئین کے سامنے کھول کر بیان کرتے ہیں۔

اپنی ایک تحریر میں وہ لکھتی ہیں

۔ ۔ .۔ ۔ . میرے اردگرد Kipling کا مقولہ گھومتا رہتا ہے "مغرب مغرب ہے اور مشرق مشرق  یہ  دونوں کبھی نہیں مل سکتے ”

سوچتا ہوں مل بھی کیسے سکتے ہیں ؟ مشرق میں جب سورج نکلتا ہے مغرب میں عین اس وقت آغازِ شب کا منظر ہوتا ہے، سورج انسان کے دن رات متعین کرنے والا ہے۔ پھر جب ایک کی رات ہو اور دوسری جگہ سورج کی کرنیں پھیلی ہوں، ایک قوم سوتی ہو ایک بیدار ہو تو فاصلے کم ہونے میں نہیں آتے۔

(حاصل گھاٹ سے اقتباس)

بانوقدسیہ اپنے لوکیل سے گہری فکری جڑت رکھتی تھیں۔ ان کی کئی تحریروں میں لوکیل کی زبان و بیان اور  ثقافت کے علاوہ سماجی و خاندانی اقدار کے انحطاط کو بھی زیر بحث لایا گیا ہے۔

انہیں ان کی ادبی خدمات پر حکومت پاکستان نے ستارہ امتیاز سے بھی نوازا لیکن ان سب سے بڑھ کر بانو قدسیہ اپنی تحریروں سے اپنے چاہنے والوں کے دلوں میں جو مقام بنا گئیں وہ بہت ہی کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔ خدا ان کی مغفرت فرمائے اور  انہیں اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔ آمین

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے