کاظمی جی۔ ۔ کائنات بشیر

واہ واہ۔ ۔ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن پہ پوری دنیا کو ناز کرنا چاہیئے۔ چاہے وہ ان سے ملے ہوں یا نہ ملے ہوں۔ جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں۔ دیکھا ہو یا نہ دیکھا ہو۔ گدڑی میں چھپے لعل۔ ۔ تو کبھی کبھی گدڑی پہ بھی ناز کر لینا چاہیئے۔ ہاں تو موصوف انھی میں سے ایک ہیں۔ رنگِ جہاں میں اضافہ کرتی دنیائے گلستاں کی باغ و بہار شخصیت۔ ۔ !جی دار انسان جو سجنوں کے ساتھ دشمن بھی پالے رہتے ہیں۔ ان کا پہلا تاثر ایک سادہ مزاج، ملنسار، خوش اخلاق انسان کا پڑتا ہے بعد میں ان کے مزید جوہر کھلتے ہیں۔ بڑے قابل انسان جو اپنی دفتری، خانگی بلکہ سب دنیاؤں میں کامیاب اور یکتا نظر آتے ہیں۔ دنیا کا ایسا کونسا کام ہے جو  یہ  نہ کر سکتے ہوں۔ ان کے نام پہ بہت ساری ڈگریوں کا وزن پڑا ہے۔ سیلف امپرومنٹ کونسلنگ، فیملی انٹیگریشن، بزنس مینجمنٹ، پراجیکٹ پلاننگ اور  جانے کیا کیا۔ ۔ !

اگر ان پر سے ڈگری بار ہٹا لیا جائے تو جانے اندر سے کیسے کاظمی جی نکلیں گے۔ ۔ ؟ چھریرے بدن کے مالک، چہرے پر درمیانی سی داڑھی، کالی کالی ذہین آنکھیں جو اُچٹتی نظر میں ہی سب بھانپ لیتی ہیں۔ پتلے پتنگ اتنے کہ ڈائٹنگ کرنے والے لوگوں کو انہیں اپنا رول ماڈل بنا لینا چاہیئے تا کہ مطلوبہ مقصد تک پہنچنے میں آسانی رہے۔ بڑے با وضع انسان ہیں۔ لباس پہننے کے معاملے میں بھی خاصی ورائیٹی رکھتے ہیں۔ باہری دنیا میں سوٹ ووٹ پہن کر ایک دم اپنی ڈگریوں کا حصول حاصل لگتے ہیں۔ گھر میں شلوار قمیض ان کا پسندیدہ لباس ہے۔ من موجی موڈ میں ہوں تو بے تکلفی سے لُنگی پہن لیتے ہیں۔ ایک بار انہیں لُنگی پہنے دیکھ کر ان کی بھتیجی نے کہا تھا۔

: انکل آپ نے غرارہ پہن رکھا ہے۔ ۔ :

کوئی تہوار موقع ہو یا دنیا ایسے ہی اچھل پھاند کر رہی ہو۔ انھوں نے کبھی خود کو اس سے پرے یا گھر میں چھپا کر نہیں رکھا۔ ہلہ گلہ مچانے والے ہیں اور  گھر والوں کو بھی اپنے ساتھ موجیں کرواتے ہیں۔ اسی لیے بہت سے لوگ ان کے بیوی(ام علیم) بچوں کو جانتے ہیں۔ اپنی ویبسائٹ پر انھوں نے ببانگ دہل اپنی تصاویر لگا رکھی ہیں جن کے ذریعے ان کی زندگی کے پڑاؤ بآسانی جانچے جا سکتے ہیں۔ ان پر اللہ کی بڑی کرم نوازی اور  رحمتوں کے سائے ہیں۔ قسمت ان پہ چونکا دینے کی حد تک مہربان۔ دو سال پہلے انھوں نے اپنی بھتیجی اور  بیٹی حرا کی شادی کی اور  کچھ ماہ بعد خود دوسرے بیٹے کے باپ بن کر سرخرو ہو گئے۔ قسمت ان کو کبھی بھی خوشیوں کا گلدستہ تھما سکتی ہے۔ اپنی اہمیت، قدر و قیمت بخوبی جانتے ہیں اس لیے کبھی کبھی اِترا لینے میں بھی کوئی حرج نہیں سمجھتے۔ با اعتماد اتنے کہ ان کے سامنے اگلے بندے کا اعتماد متزلزل ہو جائے۔ ویسے ان کے اندر کافی۔ ۔ اَنا۔ ۔ ہے، سو پنگا ڈلنے میں دیر نہیں لگتی۔ لڑائی اتنے مدلل طریقے سے کرتے ہیں کہ اگلا بندہ بغلیں جھانکنے لگتا ہے۔ پہلے مقابل کو پورا کھل کھیلنے کا موقع دیتے ہیں، اپنی گود میں نچاتے ہیں اور  پھر اس کی گردن ناپتے ہیں۔ پھر چاہے وہ فریق ایک کونے سے دوسرے کونے یا آن لائن دنیا میں کہیں بھی جا گرے پرواہ نہیں۔ اس لیے کچھ لوگ ان سے ذرا بچ بچا کے چلتے ہیں۔ پچاس کے پیٹے میں ہیں۔ آدھی صدی گزار دینے کا انہیں بخوبی احساس ہے لیکن اپنی بڑھتی عمر کا پھر بھی کوئی ملال نہیں۔ طبیعت ناساز ہو تو اس کا بھی چرچا کر تے نظر آتے ہیں۔ سب فی میل کو بٹیا، بیٹا کہہ کر خوشیوں کی دعا دیتے ہیں۔ اس پر عورتیں تو دل ہی دل میں بہت خوش ہوتی ہیں تبھی تو انکل، انکل کہہ کر انھیں بڑی راحت ملتی ہے۔ مصنف ہیں اور  بہت ہی اچھا لکھتے ہیں۔ چین با تصاویر(سفرنامہ)، واہ گڈ، بابو جی، منگنی اور  ان کی کئی تحاریر کمال خوبی سے قلمبند کی گئی ہیں جنہیں بار بار پڑھنے کو دل چاہتا ہے۔ وہ ایک استاد کے موافق ہیں اور  دنیا ان کی شاگرد۔ ۔ !اکثر چین کے دورے پر رہتے ہیں اور  چینیوں سے زیادہ بھائی چارہ رکھتے ہیں۔ گاؤ جون ان کا بہترین چینی دوست ہے جس نے انھیں دو بار لیپ ٹاپ تحفے میں دیا۔ ایک بار  یہ  چین جا رہے تھے کہ ان کا پہلا لیپ ٹاپ جہاز کے اوورہیڈ کمپارٹمنٹ سے نکل کر ان کے سر کے اوپر سے فلائی کرتا ہوا گر کر زمین بوس ہو گیا۔ جس کی پوٹلی بنا کر  یہ  چینی دیار جا پہنچے۔ گاؤ جون سے ان کی افسردگی دیکھی نہ گئی اور  اگلی ہی صبح اس نے انھیں ایک اور  لیپ ٹاپ اس وقت تحفے میں دیا جب یہ اس کے ساتھ ناشتے کی میز پر کیکڑوں کے مرتبان کو بغور دیکھتے ہوئے انڈے بریڈ کا ناشتہ کر رہے تھے۔

چالاک ہوشیار، زمانے کی رگ رگ سے واقف انسان ہیں۔ وہ اکھاڑے میں اترے اس پتلے پھرتیلے پہلوان کی مانند لگتے ہیں جو مخالف کو طاقت کی بجائے داؤ اور  گُروں سے زیر کر لیتا ہے۔ گھبرائیے نہیں، خوامخواہ کسی کو تنگ نہیں کرتے۔ لیکن آسانی سے معاف بھی نہیں کرنے والے۔ ۔ ویسے ایک مددگار انسان ہیں۔ گھر میں اُم علیم کی بخوشی مدد کر دیتے ہیں۔ سگھڑ اتنے ہیں کہ چھوٹی عمر میں انھوں نے ہانڈی روٹی کرنا سیکھ لیا تھا۔ اس لیے ان کی بیوی دنیا کی ان خوش قسمت عورتوں میں سے ہے جنہیں خدانخواستہ بیماری کے عالم میں مدد کے لیے کسی تیسرے بندے کا منہ نہیں تاکنا پڑتا۔ ایک بار  یہ  رات کی ڈیوٹی کر کے کام سے جلد واپس آ گئے اور لگے گھر کا دروازہ کھٹکھٹانے لیکن اندر اُم علیم گھوڑے بیچ کر سوئی رہیں۔ انھوں نے دروازہ پیٹ پیٹ کر پورے محلے کو جگا دیا۔ سارا محلہ ان کی مدد کو آ گیا۔ وہ بھی ان کے ساتھ دروازہ بجانے میں ہم آہنگ ہو گیا۔ کورس نغمے کے بعد بھی ان کی کرماں والی کی نیند نہ ٹوٹی۔ تب لکڑی کی سیڑھی لگا کر ہمسائیوں کے گھر سے انھوں نے اپنے گھر میں داخلہ دیا۔ لوگ اب میاں بیوی میں کسی متوقع زبردست دنگل کے منتظر کھڑے تھے لیکن مجال ہے انھوں نے اپنی بھاگاں کو کچھ بھی کہا ہو۔ محبت ہو تو ایسی ہو۔ ۔ !بندہ دنیا کو اپنی جیب میں رکھنے والا ہو تو ان جیسا ہو۔ مسائل حل کرنے والے ہیں۔ آج کیا پکائیں ؟ کا مشہور زمانہ مسئلہ بھی انھی کے توسط سے بخوبی حل ہوتا ہو گا۔ ان کے اندر موجود مزاح کی حِس کبھی بھی گل و گلزار بن جاتی ہے جو گھر کے ماحول کو بھی ہلکا پھلکا رکھتی ہے۔ کاظمی جی کی یہ  بات بڑی اچھی لگتی ہے کہ وہ زندگی جو ہے جیسے ہے کی بنیاد پہ گزارتے ہیں۔ شوشا پسند نہیں کرتے۔ اندر سے درویش انسان ہیں۔ کھانے کی میز کی بجائے فرشی دسترخوان یا چار پائی پہ چوکڑی مار کر کھانا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ ضرورت کی زندگی کو ترجیح دینے والے انسان ہیں خواہشات کی زندگی کو نہیں۔ ۔ اپنے گاؤں کا ذکر ایسے خوش ہو کر کرتے ہیں جیسے چین کا۔ ۔ ! ہر طرف آنکھیں کھلی رکھنے والے سمارٹ چاک و چوبند۔ ۔ !ان کی شخصیت کو اگر کوزے میں بند کیا جائے تو بیک وقت عقل و دانش سے بھرپور، نٹ کھٹ چلبلے، سوسائیٹی کے مفید رکن اور  معاشرے میں اپنا ایک خاص مقام بنانے والے انسان کا تاثر ابھرتا ہے۔ ۔ ۔ اگر ملک کی باگ ڈور ان کے ہاتھ آ جائے تو یہ اوپر والوں کی کمانیں کس دیں گے اور  عوام کو ہنستے ہنساتے ساتھ لے کر چلیں گے۔ ۔ عمران خان کے ساتھ ساتھ اگر ایک موقع اللہ انھیں بھی حکومت میں آنے کا دے تو واللہ کیا کہنے۔ ۔ کاظمی جی زندہ باد،

خوش رہیں آباد رہیں

قیامت تا شاد رہیں

٭٭٭

 

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے