وہ۔۔۔ بلراج مین را

جب اس کی آنکھ کھلی وہ وقت سے بے خبر تھا۔

اس نے دایاں ہاتھ بڑھا کر بیڈ ٹیبل سے سگریٹ کا پیکٹ اٹھایا اور  سگریٹ نکال کر لبوں میں تھام لیا۔

سگریٹ کا پیکٹ پھینک کر اس نے پھر ہاتھ بڑھایا اور  ماچس تلاش کی۔

ماچس خالی تھی۔

اس نے خالی ماچس کمرے میں اچھال دی۔

خالی ماچس چھت سے ٹکرائی اور  فرش پر آن پڑی۔

اس نے ٹیبل لیمپ روشن کیا۔

بیڈ ٹیبل پرچار پانچ ماچس الٹی سیدھی پڑی ہوئی تھیں۔

اس نے باری باری سب کو دیکھا۔

سب خالی تھیں۔

اس نے لحاف اتار پھینکا اور  کمرے کی بتی روشن کی

دو بج رہے تھے۔

فرش برف ہو رہا تھا۔

ابھی دو بجے ہیں، میں وقت سے بے خبر تھا۔ میں سمجھ رہا تھا۔ صبح ہونے کو ہے۔

آج یہ  بے وقت نیند کیسے کھل گئی؟

ایک بار آنکھ کھل جائے پھر آنکھ نہیں لگتی۔

اس نے کمرہ چھان مارا

کتابوں کی الماری، ویسٹ پیپر واسکٹ، پتلون کی جیبیں، جیکٹ کی جیبیں۔ ماچس کہیں نہ ملی۔

کمرے کی بری حالت ہو گئی تھی۔

کتابیں الٹی سیدھی پڑی ہوئی تھیں۔ کپڑے ادھر ادھر بکھرے پڑے تھے۔ ۔ .۔ ۔ .۔ ۔ ٹرنک کھلا ہوا تھا۔

کوئی آ جائے اس سمے ؟

رات کے دو بجے۔ ۔ .۔ ۔ .۔ ۔ .۔ ۔ کمرے کی یہ  حالت ؟

سگریٹ اس کے لبوں میں کانپ رہا تھا۔

سلگتے سگریٹ اور  دھڑ کتے دل میں کتنی مماثلت ہے۔

ماچس کہاں ملے گی ؟

ماچس نہ ملی تو کہیں۔ ۔ .۔ ۔ .۔ ۔ .۔ ۔ .۔ ۔ .۔ ۔

تو کہیں۔ ۔ .۔ ۔ .۔ ۔ .۔ ۔ .۔

کہیں میرا دھڑکتا دل خاموش نہ ہو جائے ؟

آج یہ  بے وقت نیند کیسے کھل گئی ؟

میں وقت سے بے خبر تھا۔ ۔ .۔ ۔ .۔ ۔ ایک بار آنکھ کھل جائے پھر آنکھ نہیں لگتی۔

ماچس کہاں ملے گی ؟

اس نے چادر کندھوں پر ڈال لی اور  کمرے سے باہر آ گیا۔

دسمبر کی سرد رات تھی۔ سیاہی کی حکومت اور  خاموشی کا پہرہ۔

کسی ایک طرف قدم اٹھانے سے پہلے وہ چند لمحے سڑک کے وسط میں کھڑا رہا۔ جب اس نے قدم اٹھائے وہ راستے سے بے خبر تھا۔

رات کالی تھی۔ رات خاموش تھی۔ اور  دور دور تا حد نظر کوئی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ لیمپ پوسٹوں کی مدھم روشنی رات کی سیا ہی اور  خاموشی کو گہرا کر رہی تھی اور  چورا ہے پر اس کے قدم رک گئے۔

یہاں تیز روشنی تھی کہ دودھیا ٹیوبیں چمک رہی تھیں۔ لیکن خاموشی جوں کی توں تھی کہ ساری دکانیں بند تھیں۔

اس نے حلوائی کی دکان کی جانب قدم بڑھائے۔

ممکن ہے بھٹی میں کوئی کوئلہ مل جائے، دہکتا ہوا کوئلہ، دم بہ لب کوئلہ!

حلوائی کی دکان کے چبوترے پر کوئی لحاف میں گٹھری بنا سو رہا تھا۔

کون ہے ؟ کیا کر رہے ہو ؟

میں بھٹی میں سلگتا ہوا کوئلہ ڈھونڈھ رہا ہوں

پاگل ہو کیا ؟ بھٹی ٹھنڈی پڑی ہے

تو پھر ؟

پھر کیا ؟گھر جاؤ

ماچس ہے آپ کے پاس ؟

ماچس ؟

ہاں ! مجھے سگریٹ سلگانا ہے

تم پاگل ہو ! جا ؤ میری نیند خراب مت کرو، جاؤ!

تو ماچس نہیں ہے آپ کے پاس ؟

ماچس سیٹھ کے پاس ہوتی ہے وہ آئے گا اور  بھٹی گرم ہو گی، جاؤ تم۔

وہ پھر سڑک پر آ گیا۔

سگریٹ اس کے لبوں میں کانپ رہا تھا۔

اس نے قدم بڑھائے۔

چوراہا پیچھے رہ گیا۔ تیز روشنی پیچھے رہ گئی۔ کیا کیا کچھ نہ پیچھے رہ گیا۔

اس کے قدم تیزی سے بڑھ رہے تھے۔

لیمپ پوسٹ، لیمپ پوسٹ، لیمپ پوسٹ، ان گنت لیمپ پوسٹ پیچھے رہ گئے۔ ۔ .۔ ۔ .۔ ۔ دھیمی روشنیوں والے لمپ پوسٹ جو رات کی سیاہی اور  خاموشی کو گہرا کرتے ہیں۔

یک ایک اس کے قدم رک گئے۔

سامنے سے کوئی آ رہا تھا۔

وہ اس کے قریب پہنچ کر رک گیا۔

ماچس ہے آپ کے پاس ؟

ماچس ؟

مجھے سگریٹ سلگانا ہے۔

نہیں میرے پاس ماچس نہیں ہے، میں اس علت سے بچا ہوا ہوں۔

میں سمجھا

کیا سمجھے ؟

شاید آپ کے پاس ماچس ہو؟

میرے پاس ماچس نہیں ہے۔ میں اس علت سے بچا ہوا ہوں اور  اپنے گھر جا رہا ہوں۔ ۔ .۔ ۔ .۔ تم بھی اپنے گھر جاؤ۔

اس نے قدم بڑھائے

سگریٹ اس کے لبوں میں کانپ رہا تھا۔

وہ دھیمے دھیمے قدم بڑھا رہا تھا کہ تھک گیا۔

وقت سے بے خبر اس کے تھکے تھکے قدم اٹھ رہے تھے۔

لیمپ پوسٹ آتا، مدھم روشنی پھیلی ہوئی دکھائی دیتی اور  پھر سیاہی۔

پھر لیمپ پوسٹ، مدھم روشنی اور  پھر سیاہی۔

وہ لبوں میں سگریٹ تھامے دھیمے دھیمے قدم اٹھا رہا تھا۔

اس کی دور، اندر، پھیپھڑوں تک دھواں کھینچنے کی طلب شدید ہو گئی تھی۔

اس کا بدن ٹوٹ رہا تھا۔

شب خوابی کا لباس اور  چادر میں اسے سردی لگ رہی تھی۔

وہ کانپ رہا تھا اور  کانپتے قدموں سے دھیمے دھیمے بڑ ھ رہا تھا۔ وقت سے بے خبر، لیمپ پوسٹوں سے بے خبر ایک بار پھر اس کے قدم رک گئے۔

اس کی نظروں کے سامنے خطرے کا نشان تھا۔

سامنے پل تھا۔ مرمت طلب پل

حادثوں کی روک تھام کے لئے سرخ کپڑے سے لپٹی ہوئی لالٹین سڑک کے بیچوں بیچ ایک تختے کے ساتھ لٹک رہی تھی۔

اس نے لالٹین کی بتی سے سگریٹ سلگانے کے لئے قدم بڑھائے ہی تھے کہ کون ہے ؟

وہ خاموش رہا۔

سیاہی کی ایک انجانی تہ کھول کر سپاہی اس کی طرف لپکا۔

کیا کر رہے تھے ؟

کچھ نہیں۔

میں کہتا ہوں کیا کر رہے تھے ؟

آپ کے پاس ماچس ہے ؟

میں پوچھتا ہوں کیا کر رہے تھے اور  تم کہتے ہو ماچس ہے۔ ۔ .۔ ۔ .۔ کون ہو تم ؟

مجھے سگریٹ سلگانا ہے آپ کے پاس ماچس ہو تو۔ ۔ .۔ ۔ .۔ ۔ .۔ ۔ .۔ ۔ .۔ ۔ .۔ ۔ .۔ ۔

تم یہاں کچھ کر رہے تھے ؟

میں لالٹین کی بتی سے سگریٹ جلا نا چاہتا تھا۔ ۔ .۔ ۔ .۔ ۔ .۔ ۔ .۔ ۔ آپ کے پاس ماچس ہو تو۔ ۔ .۔ ۔ .۔ ۔ .۔ ۔ .۔ ۔ .

تم کون ہو ؟کہاں رہتے ہو ؟

میں۔ ۔ .۔ ۔ .۔ ۔ .۔ ۔ .۔ ۔ .۔ ۔ .۔

کہاں رہتے ہو ؟

ماڈل ٹاؤن۔

اور تمہیں ماچس چاہئے۔ ۔ .۔ ۔ .۔ ۔ .۔ ۔ ماڈل ٹاؤن میں رہتے ہو۔ ۔ .۔ ۔ .۔ ۔ .۔ ۔ .۔ ۔ .ماڈل ٹاؤن کہاں ہے ؟۔ ۔ .۔ ۔ .۔ ۔ .۔ ۔ .۔ ۔ .

اس نے گھوم کر اشارہ کیا۔

دور، دور تا حد نظر، سیاہی پھیلی ہوئی تھی۔

چلو میرے ساتھ تھانے تک۔ ۔ .۔ ۔ .۔ ۔ .۔ ۔ .۔ ماڈل ٹاؤن۔ ۔ .۔ ۔ .۔ ۔ .۔ ۔ ؟ ماڈل ٹاؤن

یہاں سے دس میل کے فاصلے پر ہے۔ ۔ .۔ ۔ .۔ ۔ .۔ ۔ .۔ ۔ ماچس چاہئے نا تھانے میں مل جائے گی۔

سپاہی نے اس کا بازو تھام لیا۔

وہ سپاہی کے ساتھ چل پڑا۔

تھانہ اسی سڑک پر تھا جو ختم ہونے کو نہ آتی تھی۔

وہ سپاہی کے ساتھ تھانے کے ایک کمرے میں داخل ہوا۔

کمرے میں کئی آدمی ایک بڑی میز کے گرد بیٹھے ہوئے تھے۔

سگریٹ پی رہے تھے۔

میز پر سگریٹ کے کئی پیکٹ اور  کئی ماچس پڑی ہوئی تھیں۔

صاحب ! یہ  شخص پل کے پاس کھڑا تھا کہتا ہے ماڈل ٹاؤن میں رہتا ہوں اور  ماچس کی رٹ لگائے ہوئے ہے۔

کیوں بے ؟

اگر آپ اجازت دیں تو آپ کی ماچس استعمال کر لوں۔ ۔ .۔ ۔ .۔ ۔ .۔ ۔ .مجھے اپنا سگریٹ سلگانا ہے۔

کہاں رہتے ہو ؟

ماڈل ٹاؤن !کیا آپ کی ماچس لے سکتا ہوں ؟

کون ہو تم ؟

میں اجنبی ہوں !کیا میں ماچس۔ ۔ .۔ ۔ .۔ ۔ .۔ ۔ .۔

ماڈل ٹاؤن میں کب سے رہتے ہو؟

تین ماہ سے ! ماچس۔ ۔ .۔ ۔ .۔

ماچس۔ ۔ .۔ ۔ .۔ ماچس کا بچہ۔ ۔ .۔ ۔ .۔ ۔ .۔ ۔ اجنبی۔ ۔ .۔ ۔ .۔ ۔ .۔ ۔ .۔ جاؤ اپنے گھر۔ ۔ .۔ ۔ .۔ ۔ .۔ ۔ .۔ ۔ .ورنہ بند کر دوں گا۔ ۔ .۔ ۔ .۔ ۔ .۔ ۔ .۔ ۔ .ماچس۔ ۔ .۔ ۔ .۔ ۔ .

جب وہ تھانے سے باہر آیا وہ بری طرح تھک چکا تھا۔

اس نے اس نہ ختم ہونے والی سڑک پر دھیمے دھیمے چلنا شروع کر دیا۔

اس کی ناک سوں سوں کرنے لگی اور  اس کا بدن ٹوٹنے لگا تھا۔

سگریٹ پینا ایک علت ہے۔

میں نے  یہ  علت کیوں پال رکھی ہے۔

ماچس کہاں ملے گی؟

نہ ملی تو ؟

وہ وقت سے بے خبر تھا، لیمپ پوسٹوں سے بے خبر تھا، سڑک سے بے خبر تھا، اپنے بدن سے بے خبر تھا۔

وہ گرتا پڑتا بڑھ رہا تھا۔

اس کے لغزش زدہ قدموں میں نشے کی کیفیت تھی۔

پو پھٹی اور  وہ دم بھر کو رکا۔

دم بھر کو رکا اور  سنبھلا۔

سنبھلا اور  اس نے قدم بڑھانا ہی چاہا کہ

سامنے سے کوئی آ رہا تھا اور  اسن کے قدم لغزش کھا رہے تھے۔

وہ اس کے قریب آ کر رکا۔

اس کے لبوں میں سگریٹ کانپ رہا تھا۔

آپ کے پاس ماچس ہے ؟

ماچس ؟

آپ کے پاس ماچس نہیں ہے ؟

ماچس کے لئے تو میں۔ ۔ .۔ ۔ .۔ ۔ .

وہ اس کی بات سنے بنا ہی آگے بڑھ گیا۔

آگے، جدھرسے وہ خود آیا تھا۔

اس نے قدم بڑھایا۔

آگے جدھر سے وہ آیا تھا۔

٭٭٭

One thought on “وہ۔۔۔ بلراج مین را

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے