لمحۂ موجود ۔۔۔ وقار خان

 

میں سیاہ اور سپید،

اور گناہ اور ثواب،

اور خیر اور شر کی تمیز اور تعریف سے ماورا ہونے کی اک نئی طرزِ تدبیر دریافت کرنے کی دھن میں ہر اک سوچ کے ذہن میں جھانکتا، اور ہر روز خود کو کئی قسم کے روپ دے کر ہر اچھے برے سے ملاقات کرتا،

میں شیطان کی محفلوں میں بھی جاتا،

وہاں شر کے بس و رنجور جسم اور اجڑی ہوئی روح سے گردِ نفرت ہٹا کر اسے اپنے ہاتھوں میں بھر بھر کے شیطاں کو لا کر دکھاتا

کہ اے شر پہ فاخر و مغرور،

دیکھ  !  اپنے شر کو،

یہ اندر سے اب تک اسی نور کی آزمائش پہ قائم و دائم ہے اور تا قیامت رہے گا،

میں مسجد میں جاتا،

کئی مدرسوں میں چھپے کچھ شیاطیں سے ملتا،

انہیں جا کے جام و سبو و شباب و شہاوت کی خبریں سناتا،

تو وہ رال ٹپکا کے دنیا کو حسرت و نفرت سے تکتے،

کئی مفتیانِ معلیٰ و دیوانگانِ مصلیٰ کی شوخ اور ململ کی چادر و احرام سے آیتیں توڑ کر اپنے دامن میں بھرتا اور ان کے مقدر و منصب کی کالک انہی کی جبیں پر لگاتا،

میں بے اطمنانی کا باعثِ

میں بے اطمنانی کا وارث،

میں اپنے مقدر کا رسیا،

میں تاریکیوں کو اجالوں سے ملوانے والا،

میں اپنی حدوں کا شعور،

میں بے چین و بے چارگی کا سکون،

میں ،

بھٹکتا سسکتا ہوا رنج کھاتا ہوا ایک لمحہ،

مجھے اپنے چاروں طرف کی ہر اک شے کو تبدیل کرنے کا زعم اور دھن کتنے کرب اور کہرام میں لا رہا ہے، یہ میرے خدا کو ہی معلوم ہے،

یہ بے اطمنانی مرے جیسے کچھ دیوتاؤں کی میراث ہے،

دیوتا سے مراد اب خدا بھی نہیں ،

دیوتا صرف آزاد ایمان کا نام ہے،

مجھ کو بے اطمنانی کا وہ رزق حاصل ہوا، جو کئی دیوتاؤں کی جنگوں کا حاصل رہا،

کتنا بے چین ہو گا وہ لمحہ کہ جب دونوں ہی دیوتا (جو کہ حق پر تھے ) اک دوسرے سے کسی حکم کی لاج و تعمیل پر لڑ رہے تھے،

اور اس وقت کا بے نیاز اور بے چین لمحہ مری روح ہے،

یہ بے اطمنانی مجھے وقت کی ان اجاڑ اور تاریک قبروں سے حاصل ہوئی جن میں کتنے ہی معصوم دنیاوی ریتوں پہ وارے ہوئے، بے خبر بے ثباتی میں مدفون ہیں ،

یہ بے اطمنانی مجھے قید خانے میں رکھے ہوئے اک دیے سے نکلتی ہوئی روشنی سے بھی حاصل ہوئی جو کہ باہر کے سارے اجالوں سے دور اپنی تاریک قسمت سے بے زار ہے،

یہ بے اطمنانی مجھے عہدِ فَترت  و  عہدِ ضعیفی سے حاصل ہوئی ( جو کہ دو انبیاء کی نبوت کا وہ درمیانی خلا جیسا وقفہ تھا، جس میں خدا پر یقیں کو زوال آ رہا تھا )

یہ بے اطمنانی مجھے اپنے الفاظ کی اس روانی سے حاصل ہوئی، جو کہ ہر قسم کی فکر کو اپنے اندر بہا جانے کی دھن میں مصروف ہے،

میں بے اطمناں ،

میں بے اطمنانی کا باعث،

میں اپنے مقدر کا رسیا،

میں تاریکیوں کو اجالوں سے ملوانے والا،

میں اپنی حدوں کا شعور،

میں بے چین و بے چارگی کا سکون،

میں ،

بھٹکتا، سسکتا ہوا رنج کھاتا ہوا ایک لمحہ،

میں بے اطمناں کس طرح اپنے اندر کی بے اطمنانی کو مایوسیوں کے خلا کی طرف چھوڑ آؤں ،

میں بے اطمناں یا کسی خوبرو، عنبریں ، اضویہ وعزینِ نزاکت کے جسم اور لبوں کے گلابوں کو نوچوں ،

زمانوں کی بے جان روحوں کو جان آشنا کر کے زلفوں کی خوشبو سے سانسوں میں سانسیں بھروں ،

جسم کیا۔ ۔ ۔ روح اور روح کی روح تک میں نچوڑوں ،

یا کہ پھر اپنی وحشت و بے اطمنانی کے قصے لکھوں ،

یا قصیدے۔ ۔ ۔ یا پھر مرثیے برگِ بے جان پر پھونک کر اک نئے باب ِ الہام کا ذکر چھیڑوں ،

وہ ایمان لکّھوں کہ جس کی ضرورت مرے عہد کو ہے،

یا کہ وہ گیت لکھّوں

جنہیں گا کے امن اور محبت کا پرچار ہوتا رہے،

وہ وعدے لکھوں ، جو مجھے اپنے منصب و فن سے جڑے رہنے پر زور دیتے رہیں ،

یا وہ گردش لکھوں جو زمیں کی طرح مجھ کو ہر لمحہ حرکت میں رکھے ہوئے،

یا وہ وسعت کی قسمیں لکھوں ، جو خدا کو خدائی سے بھی کچھ زیادہ عزیز اور برتر لگیں ،

یا وہ خطِ وجوبی لکھوں ، جس جگہ جا ستارے گریں ،

یا وہ نظمیں لکھوں جو مری آخرت میری بخشش کا سامان ہوں ،

یا وہ لمحۂ موجود لکھّوں ، جسے پا کے میں رائیگانی و بے اطمنانی قہر اور کہرام کی حدسے آگے بڑھا، یا وہ معراج کا واقعہ لکھّوں

جو وقت کی اصل پہچان ہے

یا کہ وہ نظریات و حقائق لکھوں

جن کو پڑھ کر کوئی بے خبر نہ رہے

مارنے والوں کا کوئی ڈر نہ رہے

(اس نظم میں اطمینان کو دانستہ طور پر اطمنان اور بے اطمینانی کو بے اطمنانی باندھا گیا ہے )

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے