غزل۔ ۔ ۔ رؤف خیر

 

ایک لمحہ کو بھی لگتا نہیں مہمان سے ہو

اس خرابے میں جو آباد بڑی شان سے ہو

 

شہ سواروں کا یہ انداز کہاں ہوتا ہے

کبھی گھوڑے سے خفا ہو کبھی میدان سے ہو

 

اپنے پتّے ابھی کھولے ہی کہاں ہیں میں نے

تو بہت خوش نہ کسی جیت کے امکان سے ہو

 

واپسی ہو گی بھلا کیسے اندھیرے گھر کو

ہم کو نادان سمجھتے ہو تو نادان سے ہو

 

کارٹونوں کے بنا نے سے بگڑتا کیا ہے

مطمئن واقعی کیا جہل کے طوفان سے ہو

 

حیدر و خالد و فاروق کے جذبے والو

کیا درندوں کے لیے لقمۂ آسان سے ہو

 

یہ اثاثہ نہ رہے گا تو رہے گا کیا خاک

خیرؔ جو کچھ بھی ہو تم دولتِ ایمان سے ہو

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے