بت ۔۔۔ ڈاکٹر وقار خان

 

ایک پر شور، مصروف، آلودہ اور بے سبب شہر کے ہر طرح کے مصائب و آلام سے بے نیاز، اک بڑی رونق و آبرو والے مندر میں اک جاہ و حشمت کے بے مثل و خلاقِ کُل، عاقبت بین اور متقی دیوتا کی طلب میں بنایا ہوا ایک بت ہوں ،

مجھے میرے اعمال کی سرزنش کی غرض سے یہ ا ں ایک مندر میں رکھا گیا اور میں ایک خاموش بے بس اداسی کا مارا محبت بچھڑا ہوا ایک رنگین پتھر کے بت کی نگوڑی ہوئی شکل میں اپنے اندر حقیقت کی وحشت لیے کتنی صدیوں سے موجود ہوں

وقتِ شب اپنے مندر کے گنبد میں باندھی ہوئی گھنٹیوں پر بُنے جالوں اور اُلوؤں اور آزاد اک سمت سے دوسری سمت اڑتے ہوئے کتنے چمگادڑوں کہ بہت ساری سرگوشیاں سنتا اور ان کے معمول پر اپنی گہری نظر رکھ کے خود کو ہمیشہ سے مصروف گردانتا ہوں

پچھلی جانب کے حجرے سے چیخوں ، کئی سسکیوں اور آہ و بقا پر مرا دھیان جاتا تو میں اپنے پچھلے جنم کی ہوس اپنے کانوں کے پردوں پہ ڈالے ہوئے خود کو دنیاوی انسان کے ایک بے حس بکاؤ ضمیر اور بد فعل پیکر میں ڈھالے ہوئے رات بھر اپنی غیرت چباتا

ہر اک صبح سورج کی کرنیں ، بڑی کھڑکیوں سے مجھے مسکرا کر سلام عرض کرتیں تو میں اپنے اندر کے کرب اور تاریکیوں سے نگاہیں چرا کر انہیں مسکرا کر محبت کا پیغام دیتا

ایک داس آ کے مندر کے فرش اور مناروں پہ کپڑا لگاتا، بڑے احترام اور عقیدت سے میری طرف دیکھ کر سر جھکاتا، پھر اک بار دروازے کی سمت نظریں اٹھا کر بڑی احتیاط اور ہمت سے شیرینی چوری اٹھا کر پھٹی میلی تہمد کے پلو میں باندھے ہوئے جلد پیچھے کے دروازے کی سمت بڑھتا

ایک پنڈت بڑی گھنٹی اور ایک تالی سے پوجا کا آغاز کرتا تو لوگوں کے غول اپنے اندر کی بدبو پہ عطر اور رنگِ عبادت سجائے بڑے شوق سے آ کے کچھ ناریل اور پھول اپنے ہاتھوں کی مطلب پرست اور بدلتی لکیروں کے نقشوں پہ مرضی چلانے کی خواہش میں آ کے مرے سامنے بے بسی کے کئی ڈھونگ کرتے

کئی ایک بے گھر، کئی دن کے بھوکے، مری برکت و آشتی پر کسی قسم کے دھیان اور وقعت و اہمیت دینے پر وقت ضائع کیے بن قطاروں میں جا کر فقط اپنے حصے کا پرشاد لیتے

کئی میرے قدموں میں رکھے ہوئے ایک گلے میں کچھ ریزگاری، کئی رنگ کے نوٹ اور اپنے دل کی دعائیں چمکتے ہوئے برگِ امید پر لکھ کے ربِ ازل تک مرے ہی وسیلے سے پہنچائے جانے پہ ایمان رکھتے،

مجھے نوٹوں اور ریزگاری سے دلچسپی ہرگز نہیں ، پر میں ان سب دعاؤں کو پڑھنے کی خواہش میں بے چین ہوں

کئی ناامیدی کے پالے مرے سامنے سست ہاتھوں کو جوڑے کسی معجزے کی طلب میں مجھے چشمِ تشکیک سے دیکھتے تو میں نظریں چراتا،

کتنے ایمان والے کسی قوتِ مخلصانہ و عرفان و عزت کی چاہت میں منت شناس اور رغبت بھری نظروں سے میری حرمت پہ جاں وارنے کے ارادوں میں رہتے

انہیں یہ خبر ہی کہاں کہ میں ٹھکرایا اور خود سے ہارا ہوا ان مناجات پر کتنا بے بس و رنجیدہ ہوں یہ کسے علم ہے

مانگنے والوں کا اک ہجوم ایک بے بس سے دستِ عطا اور دائمِ صد اختیار وبقا مانگنے آیا ہے،

اس ہجومِ طلب میں یہ کیا دیکھتا ہوں مری کتنی صدیوں کی حیرت،

مرے حق کی حقدار،

پَرِسرَام وپَرتاب کی روغنی،

مجھ سے بچھڑی محبت، مجھے مانگنے میرے ہی بت کے آگے کسی بکھری دوشیزہ کے روپ میں آ کھڑی ہے،

مراسرمایہ ِ ذات پچھلے جنم میں مرے دل کی دھڑکن سمیت ایک شب مجھ سے چھینا گیا تھا

مجھ سے بچھڑی محبت،

وہی جس کی آنکھوں کی مستی پرستانِ عالم کو بہکائے رکھتی وہی آبدیدہ نگاہیں جھکائے کھڑی ہے،

وہی جس کے ہاتھوں سے رنگِ محبت نکلتے وہ ہاتھوں کو جوڑے کھڑی ہے،

وہی جس کی زلفوں سے رات اور رات کی رانی خوشبو چراتی وہ بکھرے ہوئے بالوں کے ساتھ ایک بے جان بت کی طلب میں وہ بے جان سانسوں کو تھامے کھڑی ہے،

اے مجھے پوجنے والو میری نگاہوں میں اک بار دیکھو مجھے حوصلہ دو،

مجھے گڑگڑا کر دعا مانگنے کا سلیقہ سکھاؤ، مجھے مانگنا اور نظریں ملانا سکھاؤ،

مجھے اپنے بچھڑے ہوؤں کو بلانا سکھاؤ کہ میں اُس کو آواز دوں ،

میری چاشین،

امروزیہ ،

آج کے دن کی مالک و مختار،

اے حوریہ ،

میری جانب نظر کر،

تیرا ایمان،

غطریب و غیاب ِ ہستی،

تیری محبت سے بچھڑا،

اداسی کا مارا،

دیکھ تیری طلب تیرے من کا خدا تیرے ہی سامنے بے بسی کی امامت پہ مامور ہے،

میری جانب نظر کر

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے