اردو کی حیاتیاتی بوقلمونی ۔۔۔ علی رفاد فتیحی

 

اردو زبان جنوبی ایشیا کی علمی، اور  ثقافتی زبان ہے اور  اس کا شمار دنیا کی چند بڑی زبانوں میں ہوتا ہے۔ یونیسکو کے اعداد د شمار کے مطابق عام طور پر بولی اور  سمجھی جانے والی زبانوں میں چینی اور  انگریزی کے بعد ’’ ہندی اردو ‘‘ دنیا کی تیسری بڑی زبانیں ہیں اور  رابطے کی حیثیت سے دنیا کی دوسری بڑی زبانیں ہیں۔ آج جنوبی ایشیا اور  دنیا کے دوسرے خطوں میں اسی ٌ کروڑ سے زیادہ افراد اردو ہندی کو رابطے کی زبان کی حیثیت سے استعمال کرتے ہیں۔ اردو مشرق بعید کی بندرگاہوں سے مشرق وسطی اور یورپ کے بازاروں، جنوبی افریقہ اور  امریکہ کے متعدد شہروں میں یکساں مقبول ہے۔ اور  یہی وجہ ہے کہ ہمیں ہر جگہ اردو بولنے اور  سمجھنے والے مل جاتے ہیں۔ اردو کی مقبولیت کی ایک اہم وجہ  یہ  ہے کہ اردو زبان کو سولہویں صدی کے ابتدا ئی دورسے ہی رابطے کی زبان تسلیم کیا جاتا رہا ہے۔ یہ  تسلیم شدہ امر ہے کہ اس رابطے کی توسیع عہد مغل یہ  میں فارسی زبان کے واسطے سے ہوئی لیکن اس کے باوجود اردو زبان کی لسانی ساخت میں پورے برصغیر کی قدیم اور  جدید بولیوں کی توانائی رہی ہے۔ اپنی غیر معمولی لسانی مفاہمت کی وجہ سے اردو اپنی لسانی ساخت میں بین الاقوامی مزاج رکھتی ہے۔ اردو زبان کے لسانی مفاہمت کے مزاج کا اظہار اس حقیقت میں پوشیدہ ہے کہ اردو کے ذخیرۂ الفاظ میں کثیر تعداد میں عربی اور  فارسی کے الفاظ مستعار لیے گیے ہیں۔ مزید یہ  کہ تقریباً پانچ سو الفاظ ترکی کے، گیارہ الفاظ عبرانی کے اور  سات الفاظ سریانی زبان کے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ اردو نے یورپی زبانوں سے بھی کثیر تعداد میں الفاظ مستعار لیے ہیں۔ مثلاً اردو میں انگریزی کے ہزار ہا ایسے الفاظ ہیں جو اردو میں مستعمل ہیں، اردو کے ذخیرہ الفاظ میں ایسے الفاظ کی کمی نہیں ہے جو مختلف یورپی زبانوں مثلاً یونانی، لاطینی، فرانسیسی، پرتگالی، اور  ہسپانوی زبانوں سے مستعار لیے گئے ہیں۔ اردو نے ایشیائی زبانوں مثلاً ترکی، فارسی، پرتگالی، ، چینی، سنسکرت اور  مقامی بولیوں سے بھی الفاظ مستعار لیے ہیں۔ غیر زبانوں کے جو الفاظ اردو کے ذخیرۂ الفاظ میں شامل ہیں وہ سب کے سب اپنے اصلی معنوں اور  صورتوں میں موجود نہیں بلکہ بہت سے الفاظ کے معنی، تلفظ، املا اور  استعمال کی نوعیت بدل گئی ہے۔ اردو اپنی لسانی مفاہمت کے باوجود اپنی رعنائی، صناعی اور  افادیت کے لحاظ سے اپنی جداگانہ حیثیت رکھتی ہے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ اردو میں لسانی شرکت کے دروازے عام و خاص ہر زبان کے الفاظ پریکساں کھلے رہے ہیں اس نے اپنی ساخت، مزاج اور  سیرت کو دوسری زبانوں کے تابع نہیں کیا۔ وہ کسی زبان کی مقلد نہیں ہے، بلکہ صورت اور  سیرت دونوں کے اعتبار سے اپنی ایک الگ اور  مستقل زبان کی حیثیت رکھتی ہے۔ ان ہی ظاہری و معنوی خصوصیات اور  محاسن کے اعتبار سے  یہ  دنیا کی اہم زبانوں میں شمار کی جاتی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اردو مختلف ذہنی دھاروں سے تعلق رکھنے والے، مختلف عقائدسے وابستہ، مختلف مزاجوں کے حامل بڑے گروہوں کی تخلیقی و تصنیفی زبان ہے اور  بول چال کی سطح پر دنیا کے لاتعداد ممالک کی گلیوں، کوچوں، بازاروں اور  گھروں میں اپنی زندگی کا ثبوت دے رہی ہے اور  عالمی سطح پر اپنے حلقہ اثر میں وسعت پیدا کر رہی ہے۔

لسانی مفاہمت کا اصول اردو کے لسانی مزاج میں لچک اور  رنگارنگی پیدا کرتا ہے۔ غالباً اردو جنوبی ایشیا کی واحد ایسی زبان ہے جس میں ایک مشترکہ لسانی نظر یہ  حیات کی پرورش ہوئی ہے۔ اردو میں اسلامی عقائد، یونانی اور  سنسکرت فلسفہ، دیگر مذاہب کی روایتیں اور  رسوم و رواج مل کر شیر و شکر ہو گئے ہیں۔ اس کا ارتقاء فارسی میں عمر خیام، مولانا روم حافظ سعدی و نیز امیر خسرو سے بیدل تک ہوتا رہا۔ یہ  لسانی نظر یہ  حیات اپنی تمام رعنائیوں کے ساتھ، فارسی، اردو اور  دیگر مرکزی ایشیا کی زبانوں میں در آیا ہے اور  اس نے ثقافتی سطح پر ایک ایسی مشترکہ تہذیبی فکر کو جنم دیا ہے جو بالعموم جنوبی ایشیا کی دیگر زبانوں میں نظر نہیں آتی۔

لیکن المیہ   یہ  ہے کہ 1835 میں لارڈ ٹی، بی، میکالے نے جس لسانی یک رنگی کا خواب دیکھا تھا اس کی تکمیل گلوبلائزیشن یعنی نئی جغرافیائی وسعت، اور  انسانی زندگی کی نئی پنہائیوں پر محیط عالمی نظام، کثیر ملکی کمپنیوں کے ذریعہ اطلاعاتی ٹکنالوجی کے استعمال، عالمی سٹہ بازاری، بلا روک بین ملکی سرمایہ  کاری، قومی حکومتوں کے اقتدار میں کمی اور  قومی زبانوں کی پسپائی کی شکل میں نمودار ہو رہی ہے اور  ان سب کے نتیجہ میں متبادل فکر اور  ان زبانوں سے وابستہ متبادل لسانی نظر یہ  حیات، سمٹ سکڑ رہا ہے جو بالآخرلسا نی اور  ثقافتی بوقلمونی کا خاتمہ کر کے یک رنگی دنیا کو جنم دے سکتا ہے۔ آج ایک بڑے معیار بند بازار کی تشکیل کا خواب، جس کی زبان اور اقدار مشترک ہوں، کثیر قومی کمپنیوں کے لیے تجارتی آسانی پیدا کر دیتا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حیاتیاتی بو قلمونی اور  ثقافتی ولسانی بوقلمونی کو درپیش خطرات کی وجہیں بڑی حد تک مشترک ہیں۔ جنگلوں کا بے دریغ کٹنا، انواع واقسام کے نباتیاتی نمونوں کا فنا ہونا، جانوروں اور  کیڑوں مکوڑوں کی انمول انواع کا ختم ہونا، نیز زبانوں اور  ثقافتوں پر نازل آفت کو ایک دوسرے سے الگ کر کے نہیں سمجھا جا سکتا ہے۔ یہ ایک دوسرے سے مربوط ہیں اور  اپنی بقاء کے لیے ایک دوسرے پر منحصر ہیں۔ گلوبلائزیشن یعنی نئی جغرافیائی وسعت کی وجہ سے انگریزی زبان، زندگی کے ہر پہلو پر، روزگار پر، تجارت پر، حکومت پر غالب آ تی جا رہی ہے اور  پھر ہر شخص جس کا تعلق لسانی اقلیت سے ہے وہ اپنی خیر اسی میں سمجھتا ہے کہ اس کی زبان Language Ethnicیا گھر کی زبان یا مجلسی زبان بن کر رہ جائے لیکن وہ  یہ  نہیں سمجھتا کہ بعد میں آنے والی نسلوں کا Assimilation Cultural ہو جائے گا کہ ان کو اپنی زبان سے ذرا بھی دلچسپی نہیں رہے گی۔ گرچہ 1990 کی دہائی سے ہی لسانی تحقیق و تفتیش کا جو سلسلہ شروع ہوا اس نے  یہ  واضح کر دیا کہ حیاتیاتی بوقلمونی کو نقصان پہنچانے والے عوامل، لسانی بوقلمونی کو تباہ کر کے لیے بھی ذمہ دار ہیں۔ لسانی تحقیقات نے ان کے باہمی رشتہ کو واضح کر دیا پھر بھی نہ تو UNESCOکے  Cultural Diversity on Declaration Universal میں اور  نہ ہی حیاتیاتی کنونشن میں اسے قابلِ اعتناء سمجھا گیا۔ ۔ ہندوستان میں، کمشنر برائے لسانی اقلّیت نے بھی اپنی سا لا نہ رپورٹوں میں اسے اہمیت نہیں دی جبکہ  یہ  سراسر لسانی اقلی کا مسئلہ ہے۔ ایسے میں مرکزی کابینہ کے سامنے لسانی بوقلمونی کو لاحق خطرات کا ذکر آیا اور  نہ اس پر غور کیا گیا۔

گلوبلائزیشن سے لاحق ان خطرات کے باوجود ادو زبان اپنی تہذیبی اور  ثقافتی توانائی کی وجہ سے کسی حد تک ان خطرات سے محفوظ ہے۔ اردو کی اس تہذیبی اور  ثقافتی توانائی کو اردو زبان و ادب کے لسانی مزاج میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اس لسانی مزاج کی وجہ سے اس کا ایک ایساروپیا رنگ وجود میں آیا، جسے ہم ’’ علاقائی اُردو ‘‘ قرار دے سکتے ہیں۔ آزادی کے بعد سے اُردو نے قومی اور  عالمی سطح پر بھی بے حد ترقی کی اور  اس کا ’’جداگانہ اور  منفرد کینڈا ’’بھی پروان چڑھا جو ’’کلاسیکی اُردو ’’ سے ممتاز ہے۔ ’’ علاقائی اُردو ’’کی اپنی ایک الگ رنگت ہے۔ یہ  بول چال، ادبی محضر اور  علمی محضروں میں بھی منفرد ہے۔ ’’علاقائی اُردو ’’ کے اس ماخذ میں کلاسیکی اور  روایتی شعر و ادب، مشاعروں کی روایت، سماجی اور  ثقافتی انداز، مقامی الفاظ و معانی، روزمرہ محاورہ، قواعد و انشاء پردازی کے طریقے، صوتیاتی انداز اور  انگریزی کے اثرات نمایاں ہیں۔

ساسور کا نظر یہ  لانگ اور  چو مسکی کا نظریہ استعداد جہاں زبان کے مجموعی اور  مجرّد نظام کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ وہیں ساسور کا نظریۂ پیرول اور  چو مسکی کا نظریۂ انصرام انفرادی تکلّم کو ظاہر کرتے ہیں۔ ساسور کا نظریۂ پیرول اور  چو مسکی کا نظریہ انصرام ’’ تخلیقیت‘‘Creativity کو زبان کے جامع نظام کا جو ہر سمجھتا ہے۔ اس نظریۂ کے تحت ایک بات کہنے کے کئی طریقے ہو سکتے ہیں یا ایک ہی جملے کو کئی طرح سے تشکیل دیا جا سکتا ہے۔ یہ  نظر یہ  زبان کے اسالیبی فرق کو قبول کرتا ہے۔ جو ظاہری سطح پر مختلف لفظی ترتیب سے تشکیل پاتے ہیں۔ اپنے اسا لبی ی فرق کے باوجود یہ ایک ہی زیریں سطح سے مشتق ہوتے ہیں۔ جس سے معنی ظہور پذیر ہوتا ہے۔ چو مسکی کے TG گرامر کے موڈل ( model ) میں جملے کی زیریں سطح کو مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن اس کے دوسرے موڈل مختلف معنیات میں معنی اور  اس کی توجیہ کو کلیدی رول حاصل ہے۔

اس مقالے میں انسانی ذہن کی لسانی تخلیقیت کو موضوع گفتگو بنایا گیا ہے۔ جہاں شخص اپنے مخصوص لسانی وسائل کے باوجود نئے اور  غیر محدود خیالات ادا کرنے پر قادر ہوتا ہے۔ یہ  لسانی تخلیقیت زبان کو تبدیل کرتی رہتی ہے۔ اور  اس طرح تبدیلی زبان کی فطرت کا نمایاں وصف بن جاتی ہے۔ زبان میں تبدیلیاں یکلخت رونما نہیں ہوتیں بلکہ بتدریج ظہور پذیر ہوتی ہیں۔ زبان چونکہ ایک جمہوری ادارہ ہے لہٰذا اس میں انفرادی کوششوں کی بے پناہ گنجائش اور  اہمیت ہے۔ علاقائی اردو ان انفرادی کوششوں پر مہر تصدیق ثبت کرتی ہے۔ اور  یہ  تبدیلیاں چلن میں آ جاتی ہیں۔ اس طرح لفظی نحوی اور  صرفی تبدیلیاں زبان کا حصّہ بن جاتی ہیں۔ یہ  تبدیلیاں اختراعی کوششوں کا نتیجہ ہو سکتی ہیں۔ یا پھر کسی زبان سے مستعار ہو سکتی ہیں۔

کسی بھی زبان کے لغوی سرمائے کے تجزیے سے  یہ  بات واضح ہو جاتی ہے۔ کہ زبان میں داخلیت یا مستعاریت کو نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ زبان چونکہ خلا میں ارتقاء پذیر نہیں ہوتی ہے۔ اس لئے اس میں دوسری زبانوں سے ہم آہنگی کے زبردست امکانات ہوتے ہیں۔ زبان کا  یہ  آپسی میل جول زبان کی ترقیّ و ترویج میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ اس میل جول کی وجہ سے دوسری زبان کے الفاظ زبان میں داخل ہو جاتے ہیں۔ اور  زبان کے لفظی سرمائے میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔ مستعاریت کا  یہ  عمل زبان میں لغوی وسعت عطا کرتا ہے۔ علاقائی اردو میں مستعاریت کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ یہاں کچھ مثالیں اردو اخباروں سے لی گئی ہیں تاکہ علاقائی اردو میں مستعمل مستعاریت کے بڑھتے چلن کا تجزیہ  پیش کیا گیا ہے۔ ان روز ناموں میں پیش کردہ مندرجہ ذیل سرخیوں سے بخوبی اندازا ہوتا ہے کہ اردو ترسیل عامہّ کی زبان میں مستعاریت کا چلن روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔

۱۔ اروناچل۔ اسمبلی۔ الیکشن ہفتہ کو بہار میں انتخاب ملتوی

۲۔ بہار میں دوسرے دور کی پولنگ کل

۳۔ نورتھ کوریا پر ایٹمی پروگرام ترک کرنے کے لئے دباؤ۔

۴۔ ہند۔ پاک ٹریک ٹوڈپلومیسی بحال۔

۵۔ بابری سائٹ کے نیچے ڈھانچہ کی موجودگی کا کوئی ثبوت نہیں۔

۶۔ پانچ ہزار وولٹ کے تار سے کرنٹ لگ کر ایک آدمی ہلاک۔

ان سرخیوں میں پولنگ ، ڈپلومیسی، ایٹمی پروگرام، سایٹ، جیسے الفاظ کے استعمال سے  یہ  بات واضح ہو جاتی ہے کہ اردو ترسیل عامہّ کی زبان میں جو علاقائی اردو سے متاثر ہے مستعاریت کا چلن بڑھتا جا رہا ہے۔ اردو روزناموں کی ان سرخیوں کا تجزیاتی مطالعہ واضح کر دیتا ہے کہ ان سرخیوں میں دو قسم کے عناصر ہیں ایک وہ جو اردو کے ماخذ زبان سے ملے ہیں اور  دوسرے وہ جو موروثی ورثہ نہیں بلکہ انگریزی سے لئے گئے ہیں۔ دوسری زبان سے مستعار لینے کے اس عمل کو مستعاریت کہتے ہیں۔ مستعاریت کے اس عمل میں دینے والی زبان کو دائن Lender) (اور لینے والی کو حصولی ( Borrower) کہا جاتا ہے جو لفظ لیا جاتا ہے اسے نمونہ کہتے ہیں۔ مندرجہ بالا مثالوں میں۔ ٹریک ڈپلومیسی ’’ سائیٹ ‘‘ ’’ ایٹمی‘‘ ’’ الیکشن‘‘ وغیرہ مستعاریت کے نمونہ ہیں۔ یوں تو ہر زبان کا اپنا انفرادی وجود اور  اس سے وابستہ امتیازی خد و خال ہوتے ہیں جو اسے دوسری زبانوں سے الگ کرتے ہیں اسکے باوجود زبان اخذ و قبول کی کئی منزلوں سے گزرتی ہے۔ اخذ و قبول کا  یہ  عمل زبان کی تعمیر و تشکیل میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ مستعاریت اخذ و قبول کے اس عمل کی ایک شکل ہے۔ مستعاریت کے چار ماخذ ہوتے ہیں۔

 

۱۔ زبان کے قدیمی روپ سے

۲۔ زبان کی کسی علاقائی بولی سے

۳۔ زبان کے ترسیمی روپ سے

۴۔ غیر زبان سے

 

ان ماخذ میں مستعاریت کا سب سے بڑا ماخذ کسی زبان سے کچھ لینے کا عمل ہے۔ اگر ذو لسانی گروہBilingual Group زبان کے ارتقائی منزل کے کسی ایک دور میں ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں۔ تو ایک دوسرے کی زبان کے الفاظ ان زبانوں میں بے دریغ شامل ہونے لگتے ہیں۔ بالعموم یک طر فہ لسانی اثر پذیری کی مثالیں کم ملتی ہیں۔ یعنی دونوں زبانوں ایک دوسرے سے بہت کچھ مستعارلیتی ہیں۔ یہ  مستعاریت لغوی سطح پر نمایاں طور پر نظر آتی ہیں۔ لغوی مستعاریت لغوی سرمایے میں اضافے کا سب سے اہم محرّک ہے۔ لیکن اس کا  یہ  قطعی مفہوم نہیں کہ مستعاریت زبان کے دوسرے شعبوں میں مستعاریت کی مثالیں نہیں ملتی۔ حقیقت تو  یہ  ہے کہ مستعاریت زبان کے ہر شعبے میں ممکن ہے۔ صوتیاتی مارفیمیاتی نحوی اور  مغسیاتی سطح پر زبانیں ایک دوسرے سے اخذ و قبول کرتی ہیں۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ذخیرۂ الفاظ کی سطح پر مستعاریت کی مثالیں سب سے زیادہ ملتی ہیں۔ بہ الفاظ دیگر لغوی سطح پر مستعاریت زیادہ ہوتی ہے۔ اردو ترسیل عامّہ کی زبان میں بھی لغوی سطح پر مستعاریت کا عمل نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔

مستعاریت کے اس عمل میں ذو لسانیت ( Bi-Lingualism) نمایاں رول انجام دیتی ہے۔ یعنی مستعاریت کے لئے ذو لسانی (Bi-lingual) ہونا لازمی شرط ہے۔ حصولی زبان borrowing language)جب دائن زبان سے کوئی لفظ مستعار لیتی ہے تو اس لفظ کو اصل معنی کے ساتھ استعمال کرتی ہے۔ لیکن بعض صورتوں میں مستعار لفظ اصل سے مختلف معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ یہ  خاص طور پر اس صورت میں ہوتا ہے۔ جب مستعار لینے والے نے اس کا مفہوم کسی قدر غلط سمجھا ہو مثلاً ہندی ترسیل عامہّ کی زبان میں۔ ’’ خلافت‘‘ ’’ قواعد‘‘ اور  ’’ مدّعا‘‘ جیسے الفاظ اپنے اصل معنی سے الگ بالکل نئے معنوں کے ساتھ استعمال ہوتے ہیں۔ یہ  معنوی تبدیلی کسی فرد واحد کی غلط فہمی کے سبب ممکن ہے۔ لیکن اس کی عوامی قبولیت ان معنوی تبدیلیوں کو عام کر دیتی ہے۔ ان تفصیلات سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ذو لسانیBilingual صورتِ حال الفاظ و تصوّرات کے بتدریج تداخل کا سبب بنتا ہے۔ یعنی نئے تصوّرات و مفاہیم کی ادائیگی کے لئے مستعاریت کے طریقہ کار کو اپنا یا جاتا ہے۔ اس طرح ذو لسانیتBilingualismمستعاریت کی ایک اہم وجہ بن جاتی ہے۔

 

لغوی مدوں کی عدم دستیابی ( Lexical gaps)

_______________________

 

۲۔ مستعاریت کی ایک دوسری اہم وجہ لغوی مدوں کی عدم دستیابی ( Lexical gaps) ہے۔ لغوی مدوں کی عدم دستیابی کی صورت میں الفاظ مستعار لئے جاتے ہیں۔ سماج میں سیاسی، مذہبی، تہذیبی اور اقتصادی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ نئے تصّورات و مفاہیم بھی در آتے ہیں۔ ان تصوّرات مفاہیم کے اظہار کے لئے نئے الفاظ و تراکیب کے استعمال کی ضرورت کا احساس بڑھ جاتا ہے۔ اور  اسے اس احساس کے تحت دوسری زبانوں سے رجوع کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ اس طرح حصولی زبان میں مستعار الفاظ شامل ہو جاتے ہیں۔ لغوی مدوں کی عدم دستیابی مستعاریت کا دوسرا اہم سبب ہے۔ اردو میں ’’ ٹیلی ویژن‘‘ ’ٹیلی فون‘، فیکس وغیرہ کا استعمال لغوی مدوں کی عدم دستیابی کا سبب ہے۔ اردو ترسیل عامہّ کی زبان میں مستعاریت کی ایسی ہزاروں مثالیں ملتی ہیں۔ جو لغوی مدوں کی عدم دستیابی کے سبب اردو رابطہ عامہّ کی زبان میں مستعمل ہیں۔ مثلاً چند مثالیں دیکھیں۔

 

لسانی توقیر ( Linguistic Prestige)

_______________________

 

مستعاریت کی تیسری اہم وجہہ لسانی توقیر ( Linguistic Prestige) ہے۔ بعض صورتوں میں اہل زبان مستعار الفاظ کا استعمال صرف اس وجہہ سے کرتے ہیں کہ اعلیٰ طبقے کے ساتھ تعلّق ظاہر ہو جائے۔ اس مستعاریت کا واحد مقصد لسانی توقیر میں اضافہ ہے۔ مستعاریت کی ان مثالوں کی وجہ زبان میں لغوی مدوں کی عدم موجودگی نہیں ہوتی بلکہ لسانی توقیر (Linguistic Prestige) ہوتی ہے۔ اردو ترسیل عامہّ کی زبان میں انتخاب یا چناؤ کی جگہ الیکشن کا استعمال یا مقام کی جگہ سائٹ کا استعمال لسانی توقیر کی مثال ہے۔ اردو صحافت کی زبان میں ایسی کئی مثالیں ملتی ہیں جہاں مستعاریت کی وجہ لسانی توقیر ہوتی ہے۔ مثلاً مندرجہ ذیل سرخی اس کی ایک عمدہ مثال ہے

’’ بابری سائیٹ کے نیچے ڈھانچہ کی موجودگی کا کوئی ثبوت نہیں ‘‘

الیکشن کی تاریخ طے

 

ترسیلی امکانات ( Communicative Range)

_______________________

 

۴۔ مستعاریت کے چھٹی اہم وجہہ ترسیلی امکانات ( Communicative Range) ہیں۔ ترسیلی امکانات کی اصطلاح لفظوں کے معنوی دائرے کی نشاندہی کرتا ہے۔ مستعار الفاظ میں سچی ہم معنویت نہیں ہو سکتی کیونکہ اصول زبان اس تعیش کو برداشت نہیں کرتا ہے۔ دخیل الفاظ میں لفظ کا مفہوم بالکل متعین اور  قطعی نہیں ہوتا لہذا حصولی زبان کے لفظ کی جگہ مستعار لفظ کا بے تکلف استعمال نا ممکن ہو جاتا کیونکہ مستعار لفظ کا معنی دائرہ حصولی زبان کے لفظ سے مختلف ہوتا ہے اس بات کی وضاحت کے لئے اردو ترسیل عامہّ کی زبان میں مستعمل لفظ ’’ Loan‘‘ کا معنوی دائرہ اردو لفظ ’’ قرض‘‘ سے قطعی مختلف ہے۔ کچھ سیاقوں میں اردو لفظ ’’ قرض‘‘ قابلِ تبادلہ ہو سکتا ہے۔ لیکن بعض دوسروں میں نہیں۔ اردو لفظ ’’ قرض‘‘ میں جو منفی تصوّر پوشیدہ ہے وہ مستعار لفظ ’’ Loan‘‘ لون میں نہیں ہے۔ اسی طرح اردو لفظ ’مقروض‘ عقلی لحاظ سے مستعار لفظ ’ Loany‘ سے قابل تبادلہ ہے لیکن ترسیلی لحاظ سے نہیں۔ کیونکہ مستعار لفظ ’’ Loany‘‘ کا معنوی دائرہ لفظ ’’ مقروض‘‘ کے معنوی دائرے سے قطعی مختلف ہے۔ اسی طرح  یہ  کہا جا سکتا ہے لفظوں کے ترسیلی امکانات ( ُCommunicative Range) مستعاریت کی ایک اہم وجہ بن جاتے ہیں۔ اردو ترسیلی عامہ کی زبان میں مستعاریت کی ایسی کئی مثالیں مل جاتی ہیں جو لفظوں کے ترسیلی امکانات پر مبنی ہوتی ہیں۔ مثلاً

۱۔ مقروض کسانوں نے خود کشی کی

۲۔ ورلڈ بینک کی جانب سے مزید لون دینے کا وعدہ

۳۔ گرامین بینک نے کسانوں میں لون تقسیم کیا

 

ممنوع الفاظ Taboo Words

_______________________

 

۵۔ مستعاریت کی ایک اور  اہم وجہہ لفظوں کا ممنوع ہونا ہے۔ اردو ترسیل عامہّ کی زبان میں پست معنی کو موقر بنا کر پیش کرنے کی کوشش میں بعض صورتوں میں مستعاریت کی مدد لی جاتی ہے۔ مستعار الفاظ پست معنی کو موقر بنا دیتے ہیں۔ اس ذیل میں جنسی الفاظ کے لئے مستعار الفاظ کا استعمال خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ مثلاً اردو ترسیل عامہ کی زبان میں ’’Toilet‘‘ ’’Urinal‘‘ یا ’’ Stool‘‘ کا استعمال مستعاریت کی وہ قسم ہے جہاں مستعاریت پست معنی کو موقر بنا کر پیش کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ مثلاً ان چند جملوں پر غور کریں۔

لائنس کلب نے گاندھی میدان کے قریب یوری نل بنانے کا ارادہ ظاہر کیا

اس سرخی میں پیشاب خانہ کی جگہ یوری نل کا استعمال پست معنی کو موقر بنانے کی ایک عمدہ کوشش ہے۔

اس طرح ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ذو لسانیت یا  لغوی مدوں کی عدم دستیابی ( Lexical Gaps) لسانی توقیر (Linguistic Prestige) ترسلی ی امکانات (Communicative Range) اور  پست معنی کو موقر بنانے کی کوشش (Euphimism) دوسری زبان سے مستعاریت کی اہم وجوہات ہیں۔ ذولسانی صورت حال میں ترسیل خیالات کی مجبوری مستعاریت کو فروغ دتی ی ہے۔ اس عمل میں مستعار الفاظ و تصورات کا بتدریج تداخل ہوتا ہے۔

مستعاریت کادوسرا بڑا ماخذ زبان کا قدیم روپ یا اس کی علاقائی بولیاں (Regional Dialects) ہیں۔ زبان کا علاقائی بولیوں سے مستعار لینے کا عمل زبان اور  اس کی بولیوں کے ربط کے تحت آ جاتا ہے۔ عوامی زبان میں علاقائی بولی کے علاوہ طبقاتی یا تکنیکی بولی سے بھی الفاظ مستعار لیے جاتے ہیں۔ یہ  مستعاریت کی وہ قسم ہے جہاں طبّی یا قانونی اصطلاحیں نئی معنویت کے ساتھ ترسیل عام بول چال میں چلی آئی ہیں۔ مثلاً مدعا اور  مدعّی کی قانونی اصطلاح عوام کی زبان میں اپنی نئی معنویت کے ساتھ مستعمل ہے۔

عوامی اردو میں ’’مدّعا‘‘ کا استعمال مستعاریت کی وہ مثال ہے جہاں عوامی زبان نے اس قانونی اصطلاح کو قانون کی زبان سے مسعتار لیا ہے۔ عوامی اردو میں لاتعداد ایسی مثالیں ملتی ہیں جہاں زبان میں طبّی سائنسی۔ قانونی۔ علمی اور  ادبی اصطلاح ان پیشہ ورانہ زبان سے عام بول چال میں در آتی ہیں۔

عوامی زبان میں تحریری مخففّات کا چلن ترسیمی مستعاریت کی مثال ہے۔ بول چال کی زبان میں تحریری مخففّات کا چلن عام ہے۔ ان تحریری مخففّات کو ترسیمی مستعاریت کی مثال کہا جا سکتا ہے۔ مثلاً بول چال میں اوپریشن تھیٹر کے لئے O Tکا استعمال یا ٹیلی ویزن کے لئے TV کا استعمال، تپ دق کے لئے ’ ٹی بی‘ کا استعال تحریری مخففّات کی عمدہ مثال ہے۔ تحریری مخففات کے اس چلن کو ترسیمی مستعاریت کا نام بھی دیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ زبان کی تقریری شکل (Verbal Language) زبان کے تحریری شکل سے الفاظ مستعار لیتی ہے۔ بالفاظ دیگر زبان کی تحریری شکل زبان کی تقریری شکل کو متاثر کرتی ہے لہذا اسے ترسیمی مستعاریت کی مثال مانا جا سکتا ہے۔ اردو روز ناموں کی مندرجہ ذیل سرخیاں ترسیمی مستعاریت کی مثالیں ہیں۔

۱۔ اے ایم یو میں نئے وائس چانسلر کی آمد

۲۔ ایڈز کے مریضوں میں اضافہ

۳۔ بی ایچ یو میں کشیدگی

اس تجزیاتی مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ عوامی اردو میں مستعاریت کی سب سے مقبول صورت لغوی مستعاریت یا مستعار لفظ (Loan wards) ہے۔ لغوی مستعاریت سے ملتی جلتی معنوی مستعاریت ہے۔ اسمیں دِائن زبان سے لفظ کی ہیئت مستعار نہیں لی جاتی بلکہ اس کا مفہوم مستعار لیا جاتا ہے۔ عوام کی زبان میں معنوی مستعاریت کی بالعموم تین شکلیں ملتی ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں۔

 

مستعار ترجمہ ( Loan Translation):

_______________________

 

مستعار ترجمہ میں دائن زبان کے لفظ کے مفہوم کومستعار لیا جاتا ہے۔ اور  ترجمہ کی مدد سے حصولی زبان کے کسی نوساختہ لفظ کے ذریعے اسے ظاہر کیا جاتا ہے۔ عوامی زبان میں مستعار ترجمہ Loan Translation کا چلن بہت عام ہے۔ عوامی اردو کا اثر ہمیں اخبار کی زبان اور  ترسیل عامہ کی زبان پر بھی نظر آ جاتا ہے جمہوریت۔ جمہور یہ ۔ وفاق یا اظہاریت جیسے الفاظ کا استعمال مستعار ترجمہ کی عمدہ مثالیں ہیں۔ مثلاً مندرجہ ذیل سرخیوں پر نگاہ ڈالیں تو محسوس ہوتا ہے کہ بعض سرخیوں میں Rapid Action Force کے لیے سریع الحرکت فورس کا استعمال مستعار ترجمہ کی عمدہ مثال ہے۔

 

مستعار نقل معنی (Loan Shift)

_______________________

 

دائن زبان کا کوئی لفظ یا ترکیب مجازی معنی میں مستعمل ہو اور  دوسری زبان میں اس کا لفظی ترجمہ کر لیا جائے اور  اس سے دائن زبان کے مجازی مفہوم کو مراد لیا جائے تو اس عمل کو مستعار نقل معنی کہتے ہیں۔ عوامی زبان میں مستعار نقل معنی(Loan Shift) کی عمدہ مثالیں ملتی ہیں۔ اردو میں دکتور ادب کا استعمال مستعار نقل معنی کی عمدہ مثال ہے۔ اس ترکیب میں نہ صرف انگریزی لفظ Doctor of Literatureکا ترجمہ پیش کیا گیا ہے بلکہ اس کے ساتھ انگریزی مفہوم کو بھی منتقل کیا گیا ہے۔ دائن زبان کے مفہوم کی منتقلی کا  یہ  عمل اسے مستعار نقل معنی کی عمدہ مثال بناتا ہے۔ اردو ترسیل عامہ کی زبان میں ایسی بہت سی مثالیں ملتی ہیں جو نہ صرف انگریزی کا ترجمہ ہیں بلکہ ان میں مفہوم کو منتقل کیا گیا ہے۔ مثلاً  یہ  چند مثالیں ملاحظہ کریں

English Expression           Urdu Loan expression

Red tap                                  لال فیتہ

Red tapism                           لال فیتہ شاہی

Documentary film               دستاویزی فلم

Blue Film                              نیلی فلم

Lunch                                    عصرانہ

Dinner                                   عشائیہ

Melting of Ice                        برف کا پگھلنا

Out of question                     خارج از امکان

 

مستعار آمیختہ ( Loan Blend )

_______________________

 

مستعار آمیختہ وہ عمل ہے جس کے ذریعے حصولی زبان مستعار لفظ  کو اپنے لسانی مزاج کے مطابق ڈھالتی ہے۔ اسے Nativization کا عمل بھی کہا جاتا ہے۔ اس عمل میں دائن زبان کے مادّے پر حصولی زبان کے سابقے بالا حقے کو چسپا کر دیا جاتا ہے۔ اس عمل کی وجہہ سے مستعار لفظ حصولی زبان کے لسانی مزاج سے ہم آہنگ ہو جاتا ہے۔ اردو زبان کی طرح اردو ترسیل عامہ کی زبان میں بھی اس کا چلن عام ہے۔ مستعار آمیختہ کی مزید وضاحت کے لیے مندرجہ ذیل ٹیبل کی مدد لی جا سکتی ہے۔

 

ٹیبل الف

مستعار لفظ +      اردو لاحقہ       =      مستعار آمیختہ

ممبر            ان                     ممبران

اسکول          وں                      اسکولوں

مارفیم           یات                    مارفیمیات

کالج             وں                      کالجوں

ٹرین            وں                      ٹرینوں

کار              یں                      کاریں

جس اُردو کو انشاء اللہ خان انشاء اپنی کتاب ’’دریائے لطافت ’’ میں ’’غیر فصیح ’’کہتے تھے، وہی ’’کینڈا ’’اب ’’ علاقائی ٔ اُردو ’’ کا معیار ٹھہرا ہے۔ ’’علاقائی اُردو ’’ سے پہلے اُردو کی صرف ’’اَدبی حیثیت ’’ واضح تھی لیکن اب گفتگو، بول چال، ادب، علم، صحافت، فلم، ڈرامہ، اشتہارات، معلومات عامہ، فارم درخواستیں، فہرستیں غرضیکہ مختلف سانچے کینڈے اور  محضر مباحثے آ چکے ہیں۔ ’’اَدبی اُردو ’’کے علاوہ ’’صحافتی اُردو ’’ اور  ’’دفتری اُردو ’’ کے محضر بھی عام طور پر استعمال میں آتے رہے ہیں۔ مقامی الفاظ اور  محاورے جڑ پکڑ رہے ہیں۔ جبکہ انگریزی کے اثرات بھی ظاہر ہو رہے ہیں۔ معاشرتی مسائل اور  حالات کے ساتھ ساتھ نئے محاورے اور  نئے الفاظ اور  نئے پیرائے جنم لیتے ہیں۔ اور  ثقافت کی نئی سمتوں کا تعین کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ ترقی یافتہ قوموں کی زبانیں بھی اسی حساب سے ترقی کرتی ہیں۔ اور  اپنے اندر وقت کے نئے تقاضوں کے بیان کی صلاحیت رکھتی ہیں۔

٭٭٭

 

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے