غزل۔ ۔ ۔ احمد فاروق

سرخوشی میں بھی انا کی تسکین

کوئی ہو گا مگر ایسا بے دین

 

ایک ہی طُرفہ تماشا کردار

آدمی اور  خدا کا شوقین

 

شبِ مہتاب میں کی ہم سے خاص

میر صاحب نے غزل کی تلقین

 

چاندنی لہر مہکتے مدہوش

خواب مدھم مترنّم رنگین

 

یاد کی شام نمی گرد غبار

حبس کے پھول ہوا کی تزئین

 

آ گئے ہیں تو  یہیں رہ جائیں

(ہمیں راس آ گئی اپنی توہین)

 

سُرمئی سرد ہوا کی تلوار

قطع کرتی تھی مسافت سنگین

 

 

پیڑ کے دھوپ دھُلے سائے پر

اُڑتے پتّوں نے اُتارا قالین

 

دیکھ لو اِن کو بکھر جائیں گے

دل کرو تارِ نظر سے تدوین

 

دلِ مجموعۂ تفریق اپنا

مصرعِ نظمِ خلا کی تضمین

 

روزمرّہ کی زباں پر اپنی

ذائقہ ہائے نباتِ نمکین

 

لَو پگھلتی ہوئی برفاب نگاہ

عدَمِ دل کو پیامِ تکوین

 

جسے چھُو بھی نہیں سکتا کمزور

موم کی ناک ہمارا آئین

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے