مجھے کہنا ہے کچھ ۔۔۔۔

لیجیے نیا شمارہ حاضر ہے۔ یہ چونتیسواں شمارہ ہے۔ دسمبر ۲۰۰۵ء سے اب تک ’سمت‘ نے گیارہ سال سے زائد سفر کر لیا ہے۔ کسی بھی اردو جریدے کے لیے یہ بات اہمیت رکھتی ہے، وہ چاہے قرطاسی جریدہ ہو یا برقیاتی اور آن لائن۔  اور برقیاتی جریدہ بھی ایسا جو اپنے پہلے شمارے سے تحریری اردو میں ہو۔ یوں تو کئی جرائد اپنے کو  انٹر نیٹ  پر پہلا جریدہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، لیکن اہل علم تو جانتے ہی ہیں کہ ۲۰۰۵ء سے پہلے تحریری اردو (یونی کوڈ) انٹر نیٹ پر خال خال ہی دکھائی دیتی تھی۔ یہ سب ’سمت‘ کے قارئین کے تعاون کی وجہ سے ممکن ہو سکا ہے۔

یہ شمارہ بہت خاص ہے، یعنی یہ کہ یہ بالکل عام شمارہ ہے۔ ورنہ ’سمت‘ کے اکثر شماروں میں ضخیم گوشوں کی وجہ سے  انہیں خاص نمبر کہا جا سکتا تھا۔ لیکن یہ عام شمارہ بھی اپنی پی ڈی ایف کاپی میں تقریباً چار سو صفحات  کی ضخامت رکھتا ہے۔

پچلے تین ماہ میں ہمیشہ کی طرح مزید ساتھی بچھڑ گئے ہیں۔ منظور الامین۔ سلمیٰ صدیقی، بلراج مینرا، بانو قدسیہ، ادیب سہیل کا ذکر تو واجب ہے۔ ان میں سے صرف بلراج مینرا سے میری پہلی اور آخری ملاقات رہی ہے۔ یادش بخیر، ۱۹۶۹ کی کوئی شام تھی۔ جب مرحوم محترم  عمیق حنفی مجھے اپنی سکوٹر پر بٹھا کر  انڈیا کافی ہاؤس لے گئے۔  وہیں تھوڑی دیر بعد زبیر رضوی بھی آ گئے، البتہ باقی دوستوں کا کچھ انتظار کرنا پڑا۔ لیکن وہ ساتھ ہی آ گئے تھے۔ مخمور سعیدی، بلراج مینرا اور بانی۔ افسوس اب اب پانچوں کی صرف یادیں ہی رہ گئی ہیں۔ ہوا تیز ہے، کون جانے کب کوئی شاخ سے ٹوٹ جائے۔اسی احساس سے یہ شعر کہا تھا۔(جو اسی شمارے میں شامل ہے)۔

یہ موج ہوا جانے مجھے کب اُڑا لے جائے

بس آخری پتا ہوں، بڑی دیر سے چپ ہوں

مجھے اور کچھ نہیں کہنا ہے، قارئین اور  ’سمت‘ کی تخلیقات کے درمیان میں حائل ہونا پسند نہیں کرتا۔

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے