آفریں آفریں، آفریں آفریں! ۔۔۔ نصرت ظہیر

نصرت فتح علی خاں مرحوم کی روح اور شاعر جاوید اختر سے معذرت کے ساتھ

­­­­­­­­­____________________­­­­­­­­­____________________

 

(زیر نظر پیروڈی میں مذکور شخصیت کا سیدھا تعلق کسی زندہ یا مرحوم شخصیت سے نہیں ہے۔ کسی بھی شخص سے اس کی کُلّی یا جزوی مطابقت کو محض حسنِ اتفاق سمجھا جائے جس کے لیے قاری خود ذمہ دار ہو گا۔ مصنف)

nusratzaheer@gmail.com

­­­­­­­­­____________________

 

میرے رہبر کی تعریف ممکن نہیں

آفریں آفریں، آفریں آفریں!

غور تو بھی کرے تو کہے ہم نشیں

آفریں آفریں، آفریں آفریں!

 

پارٹی اس کی اک کشتیِ نوح ہے

ساری روحوں میں اس کی بڑی روح ہے

روح جیسے پہاڑوں میں سادھو کوئی

روح فتنہ کوئی روح جادو کوئی

روح جیسے ابلتی ہوئی چائے ہو

روح جیسے ٹہلتی ہوئی گائے ہو

روح جیسے کوئی تاڑ کا پیڑ ہو

روح جیسے بغیر اون کے بھیڑ ہو

روح ایسی کسی کی نہ پائی کہیں

بے سبب، بے وجہ، کم تریں کم تریں

آفریں آفریں، آفریں آفریں!

 

ذہن صحراؤں کی طرح بے آب ہے

ذہن جیسے ابوالہول کا خواب ہے

ذہن جیسے کہ بے وزن و مہمل غزل

ذہن جیسے ہو کیچڑ میں لپٹا کمل

ذہن جیسے حماقت کی تصویر ہو

ذہن جیسے کہ ان پڑھ کی تحریر ہو

ذہن وِکرم کی بے تال کی داستاں

ذہن اک پل یہاں ذہن اک پل وہاں

ذہن جس نے کیا سب کو اندوہ گیں

بدگماں بدگماں نکتہ چیں نکتہ چیں

آفریں آفریں، آفریں آفریں!

 

غیر ملکوں سے جب جب بھی آتا ہے وہ

ملک میں ہر طرف دندناتا ہے وہ

بھائیو بہنو کہہ کر ڈراتا ہے وہ

سب کی غربت پے آنسو بہاتا ہے وہ

دور کی کوڑیاں روز لاتا ہے وہ

نت نئے فیصلے پھر سناتا ہے وہ

سب کی تکلیف پر مسکراتا ہے وہ

قوم کو ہچکیوں سے رلاتا ہے وہ

اس سے بچنے کی اُف کوئی صورت نہیں

کانگریس نے چڑھا لی ہے گو آستیں

آفریں آفریں، آفریں آفریں!

 

ہر طرف ہر جگہ تو ہی تو، تو ہی تو

تیرا ہی ذکر ہے تیری ہی گفتگو

روز ٹی وی کراتا ہے درشن ترا

ریڈیو بھی سناتا ہے بھاشن ترا

ریلیوں کے لیے جب نکلتا ہے تو

دن میں دس بار کپڑے بدلتا ہے تو

واٹس اپ پر بھی تیری ہی تقریر ہے

ٹوائلٹ میں بھی تیری ہی تصویر ہے

خود نماؤں کا بے شک ہے تو شہ نشیں

شکل بے آبرو عقل کوتاہ بیں

آفریں آفریں، آفریں آفریں!

 

شاہی انداز میں تن کے چلتا ہے وہ

بھاشنوں میں بھی کیسا مچلتا ہے وہ

جب بھی اسٹیج پر پاؤں رکھتا ہے وہ

زاویے کیمروں کے پرکھتا ہے وہ

مائکروفون کا سر جھکاتا ہے وہ

اپنے چہرے کو فوکس میں لاتا ہے وہ

سر کو تقریر میں پھر گھماتا ہے وہ

خود ہی بل کھا کے تالی بجاتا ہے وہ

یہ ادائیں کسی رہنما میں نہیں

بے تکی بے تکی بے یقیں بے یقیں

آفریں آفریں، آفریں آفریں!

 

اس کی ہندی پہ بھی مسکراتے ہیں لوگ

اس کی انگلش کے قربان جاتے ہیں لوگ

کوٹ پر اس کا جب نام پاتے ہیں لوگ

دیکھ کر خوب تالی بجاتے ہیں لوگ

کب سوالوں کی پرواہ کرتا ہے وہ

من کی باتیں ہر اک ماہ کرتا ہے وہ

اس قدر اپنی صورت پہ مرتا ہے وہ

ریڈیو پر بھی بنتا سنورتا ہے وہ

اپنا عاشق نہیں اتنا کوئی حسیں

خود نما خود نما نرگسیں نرگسیں

آفریں آفریں، آفریں آفریں!

 

شاہ رخ خان کیا اور سلمان کیا

بھائی امریش کیا بھائی عمران کیا

اپنا راول ہے کیا اپنا عرفان کیا

کوئی اکشے ہے کیا اور کوئی جان کیا

ایکٹنگ میں سبھی کا وہ استاد ہے

گاہ جیلر ہے وہ گاہ جلّاد ہے

مختصر اتنی بس اس کی روداد ہے

ایک آفت ہے وہ ایک افتاد ہے

سوچ اس کی وطن کے لیے بالیقیں

دوزخی دوزخی آتشیں آتشیں

آفریں آفریں، آفریں آفریں!

 

میرے رہبر کی تعریف ممکن نہیں

آفریں آفریں، آفریں آفریں!

غور تو بھی کرے تو کہے ہم نشیں

آفریں آفریں، آفریں آفریں!

٭٭٭

 

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے