غزل
وہاب اعجاز
خشک دریا کے وہ کنارے تھے
لوگ جو زندگی سے ہارے تھے
مل گئے پانیوں میں سب کے سب
ریت پر نقش کچھ ابھارے تھے
پھر وہ چہرے نظر سے اوجھل ہیں
جو مجھے جان سے بھی پیارے تھے
بھیگی آنکھیں تھیں، اشک تھے جیسے
جھلملاتے ہوۓ ستارے تھے
اب تو وہ دوست بھی نہیں ملتے
غمزدہ دل کے جو سہارے تھے
ان ستاروں کو کیا شمار کروں
جو ترے عشق میںاتارے تھے
روپ اس کا جھلس گیا اعجاز
وقت کے ہاتھ میں شرارے تھے
***