غزلیں کلیم حاذق

غزلیں
کلیم حاذق

صبح نئی آتی ہے راتیں ڈھلتی ہیں
آنکھیں لیکن اب بھی رستہ تکتی ہیں

پھر بھی چاند نہیں آتا ہے قابو میں
لہریں تو ویسے بانہوں میں بھرتی ہیں

سانس جلن کے مارے ملتی ہے سینہ
اندھیاری راتوں کی شمعیں جلتی ہیں

پلکوں پر مہمان چمکتے ہیں جھلمل
یادیں دستر خوان بچھائے بیٹھی ہیں

سارا وہم حقیقت اس کی چٹکی بھر
ساری باتیں جھوٹی ساری سچی ہیں

خواب سویرا ڈوب رہا ہے طوفاں میں
آنکھیں کشتی ان میں ڈولتی رہتی ہیں

تم سے ہے صدیوں کی یاری کیا پردہ
تم سے ہی سب یادیں کھٹی میٹھی ہیں
***

چلو مانا کہ سلطانی بھی دیکھے
پریشاں کی پریشانی بھی دیکھے

ہیں اک ہی شاخ پر کانٹے بھی گل بھی
مشیت کی جہاں بانی بھی دیکھے

لکھا ہے فیصلہ سب اس کے حق میں
ہمارے دل کی دیوانی بھی دیکھے

صبا چلتی ہے شانوں پر اُٹھائے
کوئی خوشبو کی سلطانی بھی دیکھے

تراشے ہیں بہت اصنام دل نے
مرے سجدوں کی حیرانی بھی دیکھے

کبھی خوشبو کبھی شعلہ نفس وہ
ہواؤں کی پریشانی بھی دیکھے

نہ اوجھل ہو نظر سے ایسا منظر
نگہہ کی تشنگی پانی بھی دیکھے

گزرنا لا تعلق گر وہ چاہے
تو پھر میری نگہبانی بھی دیکھے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے