غزلیں ۔۔ فیصل عظیم

غزلیں
فیصل عظیم

مجھ پہ ڈالو نہ ایسے جھکا کر نظر
میرے بس میں نہیں میرا دل اس قدر

سب نے یوں مل کے گھیرا خدا کی پنہ
رنگ ، عارض ، لب و زلف ، نظریں ، کمر

اور کس زاویے سے لگاؤ گے چوٹ
اب ہٹا بھی چکو اپنی ترچھی نظر

تیری آواز جادو سے کم تو نہیں
کیوں لٹاتا ہے حرفوں کا مجھ پہ ہنر

یہ ہواؤں میں کس نے اُچھالا مجھے
یک بیک کیسے اُگنے لگے بال و پر

اب مرے واسطے کچھ نئے جال بُن
میں چلا تیرا دامِ اثر توڑ کر

مسکراہٹ ہی کافی ہے میرے لئے
کیوں سجاتے ہو ماتھے پہ شمس و قمر

جسم و جاں میں یہ مستی تو پہلے نہ تھی
ہو نہ ہو، تیری باتوں کا ہے یہ اثر

اس قدر بھی سجاوٹ ضروری نہیں
جانتا ہوں میں سب تیرے عیب و ہنر

کیا سماعت بھی ہے اک ادا حسن کی
مجھ کو تیری خموشی سے لگتا ہے ڈر
***

جسے کل رات بھر پوجا گیا تھا
وہ بت کیوں صبح کو ٹوٹا ہوا تھا

اگر سچ کی حقیقت اب کھلی ہے
تو جو اَب تک نظر آیا تھا، کیا تھا؟

اگر یہ تلخیوں کی ابتدا ہے
تو اب تک کون سا امرت پیا تھا

کھلا ہے مجھ پہ اب دنیا کا مطلب
مگر یہ راز پہلے بھی کھلا تھا !

میں جس میں ہوں ، یہ دنیا مختلف ہے
جہاں میں تھا، وہ عالم دوسرا تھا

میں خود کو مار کر پہنچا یہاں تک
تو یاد آیا کہ میں تو مر چکا تھا

مری ’’میں‘‘ اور تری ’’میں‘‘ دونوں ہاریں
میں بندہ ہوں ، مگر تُو تو خدا تھا !

میں اب جو منہ چھپائے پھر رہا ہوں
تو کیا میں واقعی چہرہ نما تھا
***

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے