غزلیات — نوید صادق و علی عدنان

غزلیں

نوید صادق

تصویر کا جو دوسرا رخ تھا، نہیں دیکھا

ہم نے کبھی امکان کا رستہ نہیں دیکھا

جس حال میں، جس جا بھی رہی، خود سے رہے دور

اک شخص بھی اپنی طرف آتا نہیں دیکھا

اک غم کہ ہمیں راس بہت تھا، سو نہیں ہی

مدت سے نمِ چشم کو رسوا نہیں دیکھا

اے نقش گرِ خواب! ذرا دھیان ادھر بھی

ہم نے کبھی تعبیر کا چہرہ نہیں دیکھا

قرطاسِ دلِ زار پہ یہ نقشِ شکستہ!

وہ کون تھا جس نے مجھے دیکھا، نہیں دیکھا

یہ روگ مرے فکر کی تجسیم کرے گا

سورج نے مرے شہر کا نقشہ نہیں دیکھا

کچھ تم بھی کہو، میری تو گویائی چلی بس!

کیا دیکھ لیا تم نے یہاں،کیا نہیں دیکھا

چپ چاپ نوید اپنی حدوں میں پلٹ آؤ

ہم نے بھی کئی دن سے تماشا نہیں دیکھا

***

کون آسیب آ بسا دل میں

کر لیا ڈر نے راستہ دل میں

اے مرے کم نصیب دل!کچھ سوچ

ہے کوئی تیرا آشنا دل میں

کم ہے جس درجہ کیجئے وحشت

گونجتا ہے دماغ سا دل میں

عکس بن بن کے مٹتے جاتے ہیں

رکھ دیا کس نے آئنہ دل میں

میں ہوں، ماضی ہے اور مستقبل

کم ہے فی الحال حوصلہ دل میں

آخر آخر نوید صادق بھی

آن بیٹھا، رہا سہا، دل میں

***

غزلیں

علی عدنان

خیالِ صبح ازل اور جاگتا ہوا میں

صدائے شامِ ابد اور بھاگتا ہوا میں

ظہورِ ہجرتِ اول کے بعد کا قیدی

رگوں میں جکڑا ہوا سانس کاٹتا ہوا میں

ہوائے شہرِ محبت کے سرد جھونکوں میں

مثالِ انجمِ شب تار کانپتا ہوا میں

تلاشِ منصبِ  آواز میں پریشاں ہوں

سکوتِ شہر میں الفاظ بانٹتا ہوا میں

سنور گیا میری دنیا اُجاڑتا ہوا تو

بکھر گیا تیری یادیں سمیٹتا ہوا میں

***

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے