ساجد ابھی ناشتہ کرنے بیٹھا ہی تھا کہ اس کے سامنے ایک چڑیا آ کر میز پر بیٹھ گئی اور چیں …چیں … کرنے لگی۔ شاید وہ بھوکی تھی، یہی سوچ کر ساجد نے بریڈ کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے اس کی طرف ڈالے لیکن وہ پھرّ سے اڑ گئی۔ کچھ دیر بعد وہ پھر آئی اور کبھی آنگن میں کھڑے درخت پرجا بیٹھتی اور کبھی دالان میں منڈلاتی۔ پتہ نہیں اس کو کس چیز کی تلاش تھی۔ ساجد نے ناشتہ کر لیا تھا لیکن اس دوران اس کی نظریں اس چڑیا کا تعاقب کرتی رہیں۔ اصل میں ساجد کو چڑیاں بہت پسند تھیں لیکن بچپن سے اس کی یہ خواہش کبھی پوری نہیں ہوئی تھی، کیونکہ وہ جب بھی کبھی طوطا یا کوئی اور چڑیا پالنے کی ضد کرتا تو ماں اس کو سمجھا دیتیں کہ بیٹا چڑیوں کو قید کرنا اچھا نہیں ہے، اگر تمہیں کوئی پکڑ کر قید کرے تو کیسا لگے گا…؟
اسی لیے اب تک وہ اپنا یہ شوق پورا نہ کر سکا تھا۔
’’ماں…! میں آفس جا رہا ہوں، اللہ حافظ!‘‘ ساجد نے اپنا بیگ سنبھالتے ہوئے کہا۔ ’’بیٹا ناشتہ ٹھیک سے کر لیا نا؟‘‘ ماں نے بڑے پیار سے پوچھا، ’’ہاں ماں، اب میں چلتا ہوں مجھے دیر ہو رہی ہے شام کو ملتے ہیں۔‘‘
’’سنئے بھائی جان…! شام کو ذرا جلدی آ جائیے گا۔‘‘ مدحت نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’ٹھیک ہے، آ جاؤں گا لیکن بتاؤ تو سہی کیا بات ہے؟‘‘ ساجد نے سوالیہ نظروں سے مدحت کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
’’بھائی جان وہ… وہ… میری فرینڈ کی شادی ہے تو شاپنگ کرنی ہے‘‘ کہتے ہوئے مدحت اندر دوڑ گئی۔
’’ٹھہر جا، ابھی بتاتا ہوں بہت شریر ہو گئی ہے۔ ماں … معلوم ہے آپ کو ابھی پچھلے مہینے ہی اس نے مجھے بے وقوف بنایا تھا۔ اپنی فرینڈ کی شادی کے نام پر میرا کریڈٹ کارڈ بے رحمی سے استعمال کیا تھا۔‘‘
’’مجھے سب معلوم ہے بیٹا لیکن اس بار وہ سچ کہہ رہی ہے اور تم فکر نہ کرو میں اس کو سمجھا دوں گی کہ اب وہ بڑی ہو گئی ہے اور شرارتیں نہ کیا کرے۔ اب تم آفس جاؤ تمہیں دیر ہو رہی ہے۔‘‘
’’ماں …! ماں …! کہاں ہیں آپ؟‘‘ آفس سے آتے ہی ساجد ماں کو پکارنے لگا۔
’’بھائی جان! ماں پڑوس میں سلمیٰ خالہ کے گھر گئی ہیں بس آتی ہی ہوں گی، آپ ہاتھ منھ دھوکر تازہ دم ہو جائیے میں آپ کی اسپیشل کافی بنا کر لاتی ہوں۔‘‘
مدحت کافی دے کر کچن میں چلی گئی اور ساجد کافی کی چسکیوں کے ساتھ ساتھ ٹیلی ویژن پر بھی نظریں جمائے ہوئے تھا۔ اسی اثنا میں دو چڑیاں پھر پھر کرتی آئیں، دونوں کی چونچ میں تنکے بھی تھے، جو کہ وہ روشن دان میں جمع کر رہی تھیں۔
اچھا… تو یہ بات ہے صبح جگہ کا انتخاب ہو رہا تھا، اب گھونسلہ تیار ہو رہا ہے، ان میں سے صبح جس کو دیکھا تھا وہ شاید یہ چڑیا تھی جو کہ دوسری والی سے تھوڑی بڑی دکھ رہی ہے، اس کا مطلب یہ چڑا ہے … اس چڑیا کا شوہر… سوچتے ہوئے ساجد مسکرایا۔
’’مدحت تمہیں پتہ ہے ہمارے گھر میں دو نئے مہمان آ گئے ہیں‘‘ ساجد نے مدحت کو ہاتھ کے اشارے سے بتاتے ہوئے کہا۔
’’جی بھائی جان آپ کے ان مہمانوں نے صبح سے ہی ناک میں دم کر رکھا ہے، یہ دیکھئے فرش پر تنکے بکھرے پڑے ہیں، صبح سے کئی بار صاف کر چکی ہوں، ان کو بھگانے کی کوشش بھی کی لیکن یہ بھاگی ہی نہیں‘‘ مدحت نے اپنی بیزاری ظاہر کی۔
’’لیکن اب ایسا نہ کرنا، ان کو آرام سے رہنے دو اور ان کے کھانے پینے کا بھی معقول انتظام کرو۔‘‘ ساجد نے مدحت کو حکم دیتے ہوئے کہا۔
’’بیٹا پہلے تو یہ خود اپنا ہی خیال رکھ لے …‘‘
’’ماں آپ…! کتنی دیر سے اپ کا انتظار کر رہا ہوں۔ آئیے کھانا کھاتے ہیں۔‘‘
’’میرے پیارے بھائی جان شاید آپ بھول رہے ہیں کہ آپ مجھے شاپنگ مال لے جانے والے تھے …‘‘ مدحت نے یاد دلاتے ہوئے شرارتی انداز میں کہا۔
’’اوہ… ہاں مجھے یاد ہے میں تو کھانا کھانے کے بعد خود ہی تمہیں لے جاتا، اپنی طرح بھلکڑ سمجھ رکھا ہے‘‘ ساجد نے بات بناتے ہوئے کہا۔
’’No Chance Brother… پہلے شاپنگ پھر کھانا اور اگر زیادہ بھوک لگ رہی ہو تو وہیں کچھ پِزّا وِزّا کھالیں گے، کیوں ماں …؟‘‘ مدحت نے ماں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا اور ساجد ہونٹوں کو بھینچتے ہوئے بے بسی سے ماں کی طرف دیکھنے لگا۔
اگلی صبح ساجد نے ایک برتن میں پانی بھر کر کارنس پر رکھ دیا، روٹی کے ٹکڑے، چاول اور نمکین بھی فرش پر ڈال دئے۔ یہ سب دیکھ کر دونوں ماں بیٹی ہنسنے لگیں۔ کچھ ہی دنوں میں گھونسلے میں دو چھوٹے چھوٹے انڈے نمودار ہوئے، جس کو دیکھ کر ساجد بہت خوش ہوا، پھر ماں اور بہن کو بھی فوراً یہ خبر دی۔ دھیرے دھیرے پرندے کافی مانوس ہو گئے، اور وہ دن بھی آیا جب ان انڈوں سے بچے چیں چیں کرتے ہوئے نکلے۔ گھر میں سبھی خوش تھے، ساجد تو خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا۔ اس دن ساجد شام کو جب گھر لوٹا تو ساتھ میں مٹھائی بھی لے کر آیا اور سبھی کا منہ میٹھا کرایا۔
’’بیٹا آج رانی کا فون آیا تھا‘‘ ماں نے جھجکتے ہوئے ساجد سے کہا۔ ’’ماں! میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں مجھے اس کے بارے میں کوئی بات نہیں کرنی ہے، پلیز…!‘‘ اتنا کہتے ہوئے ساجد اپنے روم میں چلا گیا۔ ماں کے دل میں بہت سے سوال تھے، بہت سی باتیں تھیں لیکن ساجد ان کو سنے بغیر ہی چلا گیا۔ ماں متفکر وہیں کھڑی کافی دیر تک خود سے باتیں کرتی رہی۔
اب بچوں کے اندر تھوڑی جان آ گئی تھی، اس لیے ان کی آوازوں میں اضافہ ہو گیا اور چیں … چیں … کی صدائیں گھر کے ہر کونے سے سنی جا سکتی تھیں۔ ساجد بہت خوش تھا اور وہ چڑیا کے پورے کنبہ کا کافی خیال رکھتا تھا اور اپنی بہن کو اکثر ہدایت دیتا رہتا تھا کہ میرے آفس جانے کے بعد بھی ان کو دانہ پانی برابر ڈالتی رہنا۔
ایک شام جب ساجد کافی کا لطف لے رہا تھا، ماں اور بہن رات کے کھانے کی تیاری میں مصروف تھیں۔ اسی دوران چڑا کہیں سے اڑتا ہوا آیا اور رفتار سے گھومتے ہوئے سیلنگ فین سے ٹکرا گیا۔ چڑا اس کی تاب نہ لا سکا اور پل بھر میں سب ختم۔ یہ دل خراش منظر دیکھ کر ساجد کی چیخ نکل پڑی، ’’ماں …!‘‘ اس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے، مدحت اور ماں بھی مغموم تھیں اور چڑیا چڑے کے آس پاس پھدک پھدک کر مسلسل چیں چیں کیے جا رہی تھی، سب سے زیادہ غمگین تو وہی تھی۔
کافی دیر بعد ساجد نے چڑے کو اٹھا کر آنگن میں درخت کے پاس چھوٹے سے گڑھے میں دفنا دیا۔ جب وہ اسے دفنا رہا تھا تو چڑیا ساجد کو چونچ مار رہی تھی، بچے گھونسلے میں بھوک سے تڑپ رہے تھے اور چڑیا ابھی بھی ماتم کناں تھی۔
رات کافی ہو چکی تھی، ساجد ابھی بھی برآمدے میں ہراساں بیٹھا چڑیا اور اس کے بچوں کو دیکھ رہا تھا، چڑیا نے چہچہانا قدرے کم کر دیا تھا اور فرش پر بکھرے ہوئے دانے اٹھا کر بچوں کو کھلانے لگی۔ ’’بیٹا ساجد اب تم بھی کچھ کھا لو‘‘ ماں نے ساجد کے شانے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
’’نہیں ماں! میرا دل نہیں ہے، آپ دونوں کھا لیجئے۔‘‘
’’بیٹا آج آفس نہیں جانا ہے …؟ دیر ہو رہی ہے۔‘‘
’’نہیں ماں آج موڈ نہیں ہے۔‘‘ ساجد نے بیزاری سے کہا۔
’’کوئی بات نہیں بیٹا‘‘ ماں نے پیار سے اس کے سرپر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
چڑیا باہر سے اڑتی ہوئی آئی، اس کے ساتھ میں دو چڑیاں اور تھیں شاید یہ اس کے کوئی رشتہ دار یا دوست ہوں گے۔ اب وہ دونوں چڑیاں جن میں ایک نر بھی تھا اس دکھیاری کے بچوں کو سنبھالنے میں اس کی مدد کر رہے تھے اور دانہ بھی لا کر کھلانے لگے۔ کچھ دیر تک سب ٹھیک رہا لیکن جب بچوں کی ماں اڑ کر باہر گئی تو چڑے نے اپنے ساتھ آئی چڑیا کو چونچ مارنا شروع کر دیا اور تب تک مارتا رہا جب تک کہ اس کو بھگا نہ دیا۔ ساجد یہ سب بڑے تجسس سے دیکھ رہا تھا۔ کچھ دیر بعد جب بچوں کی ماں واپس آئی تو اس چڑے کو اپنے گھونسلے میں بچوں کے ساتھ بیٹھا دیکھ کر آگ بگولہ ہو گئی اور چڑے سے جا بھڑی۔ اس نے کسی بھی صورت میں یہ گوارہ نہ کیا اور چڑے کو گھونسلے سے نکال کر ہی چین کی سانس لی۔
ساجد کو سمجھتے ہوئے دیر نہ لگی کہ اس بدمعاش چڑے کی نیت میں کھوٹ تھی، وہ چڑیا کے شوہر کی جگہ لینا چاہتا تھا۔
سارا معاملہ سمجھنے کے بعد ساجد Flash Back میں چلا گیا اور آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ ماں نے ساجد کو روتا ہوا دیکھ کر سینے سے لگا لیا۔ ماں سے لپٹ کر خوب رویا، کچھ دیر بعد جب غبار آنسوؤں کے ذریعہ باہر نکل گیا اور وہ کچھ بولنے کے قابل ہوا تب اس نے کہا، ’’ماں …! رانی کو واپس لے آئیے … میں اس کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ آپ اس کو کسی بھی طرح منا لائیے آئندہ میں اس سے جھگڑا نہیں کروں گا۔ وہ صحیح تھی میں ہی غلط تھا۔‘‘
’’تم فکر نہ کرو بیٹا میں اس کو آج شام ہی لے آؤں گی، لیکن ساتھ میں تم بھی چلو گے۔ نہیں تو اسے ٹھیک نہیں لگے گا۔ وہ مائیکے میں رہ کر خوش نہیں ہے، فون پر وہ اپنے دل کا سارا حال بیان کرتی رہتی ہے۔‘‘
مدحت دور ہی سے بولی ’’بھائی جان…! بھابھی کو تو ہم لے آئیں گے لیکن آپ منھ میٹھا کرنے کے لیے کچھ مٹھائی لیتے آئیں۔‘‘
٭٭٭