نورین علی کے افسانے: آئینہ میں ارتعاش کا خواہش مند عکس ۔۔۔ رویندر جوگلیکر

بہت کم ایسا موقع آتا ہے جب افسانوی مجموعے کو پڑھتے ہوئے، افسانہ در افسانہ، متن اور افسانے کی فضا ہر افسانے میں اپنے تخلیقی جوہر کا بہتر سے بہتر مظاہرہ کرتی ہوئی نظر آتی ہو بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ ان افسانوں میں موجود مختلف بیانوں کے درمیان ایک قسم کی باہمی جگل بندی گُونج رہی ہے۔ یہ جگل بندی ایک ہی وقت میں افسانے کے فن سے نسبت اختیار کی گئی افسانہ نگار کی آزاد روش اور موضوعات کے الغار کو ایسے ٹکروں میں دیکھنے کی صلاحیت، جہاں کردار کی اپنی ذات سالم بنی رہتی ہے لیکن اس کے گرد رقص کرتے احساسات میں اس سالمیت کے ریزے ریزے نظر آنے لگتے ہیں۔

نورین علی حق کے افسانوی مجموعے ’’تشبیہ میں تقلیب کا بیانیہ‘‘ کے افسانوں میں جو فن نمایا ہوا ہے اس کی نشان دہی کرتے ہوے مجھے ایسا محسوس ہوتا رہا جیسے کہ میں ایک کمرے میں بیٹھا بلیک بورڈ پر لکھی عبارت کے ایک حصے کو جذب کر ر ہا ہوں کہ اچانک ایک نئی سمت سے عبارت کا ایک نیا حصہ پہلے والے حصے پر عائد ہو جاتا ہے۔ یہ عائد ہونا زاویے کی تبدیلی اور افسانے میں کردار کی اپنی جگہ کی مسلسل تلاش کی وجہ سے ہوتا ہے۔ شاید اسی لیے یہ عمل وہاں اختیار کیا گیا ہے کیوں کہ نور عین علی حق کا یہ بلیک بورڈ نہ صرف یہ کہ افسانے کے منظر کو قبول کرتا ہے لیکن ساتھ ہی اثر کے وجود میں نہاں تشبیہات کو شک کے دائرے میں کھینچ لاتا ہے۔ ساتھ ہی افسانے کے اندر موجود جو صورت حال ہے، وہ کردار کے ذہنی عکس کو project کرنے کے الگ الگ زاویوں کو تحلیل کرنے کے ساتھ ہی ان سب کو ارتقاء کے نظام میں مسلسل مصروف کرنے میں مبتلا رہتی ہے۔

یہ وہ فور اً نظر آنے والی خاصیات ہیں جو آپ کو افسانے کے اندر اتر جانے کی دعوت دیتی ہیں اور پھر اکیلا چھوڑ دیتی ہیں، اس کے بعد بیانیہ افسانہ نگار کی نقطہ نظر اور کردار کے بیچ رفتہ رفتہ اپنی جگہ بناتا چلتا ہے۔ افسانہ کے خاتمے پر آپ کو یاد آتا ہے کہ تحریر تو مٹ گئی لیکن کیا اس تحریر کا عکس(امید کے مطابق) آپ کے ذہن میں اترا یا نہیں؟۔ ان افسانوں کی پڑھت مختلف جہات پر بار بار چلتی رہتی ہے۔ اب یہاں متن سے اخذ کیے گیے تاثر پر منحصر ہے کہ افسانے کی نئی تہہ نظر آ جائے لیکن شرط یہ ہے کہ قاری کو اپنے اندر پہلے والے قاری کو(یہاں پہلے والے قاری سے مراد متن کی ذہن میں پیدا کرد دی گئی فوری صورت حال ہے) ترک کر دینا ہو گا تبھی یقینی طور پر اپنے اصل معنی میں افسانہ اپنی گرہ کھولے گا۔

نور ین علی حق کی افسانہ نگاری کو اگر کسی ‘تعریف’ میں جذب کرنے کی کوشش کی جائے تو کہنا ہو گا کہ وہ سائنسی طریقہ کار کی روشنی میں نفسیاتی تجزیہ اور پڑتال کرتے ہیں۔ یہ دونوں صفات افسانہ نگار کی تخلیقی قوت کی بنیاد کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ جہان تک بیان اور موضوع کی بات ہے نور این علی حق ایسے افسانہ نگار ہیں جو یہ مانتے ہیں کہ کرداروں کے ذہن میں مجردات، Abstractخیالوں اور متن کے درمیان ایک راہ کس طرح ہموار کی جائے کہ متن اس مجردات کا مظہر بن جائے۔ اور ساتھ ہی میرے خیال میں وہ اس بات پر بھی اسرار کرتے ہیں کہ اس عمل میں افسانے کا پورا منظر نامہ اُس فارم کو اختیار کر لے جو افسانے کی فطری اور تقریباً حتمی ساخت کی منزل بھی ہے۔

نورین علی کے اس فن کی نفسیات یہ ہے کہ مصنف کی منشا صاف ہو اور تشبیہ واضح ہو کہ جو آپ نے دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں اس میں کردار کی اپنی زندگی کے حال، ماضی اور مستقبل سے آپ پوری طرح واقف ہوں اور آگاہ بھی۔ ان افسانوں میں موجود تحریر کی یہ طاقت افسانہ نگار کو عاقل ہو کر تبدیلی کا خواہش مند، جدت پسند اور منطقی منصوبہ بند افسانہ نگار بناتی ہے۔ ایک مصنف کے لیے یہ محسوس کرنا آسان نہیں ہوتا کہ ان ساری تخلیقی قوتوں کے متحرک ہونے پر ایک تصادم بھی پیدا ہو جاتا ہے۔ اس سے نجات پانا کوئی مقصد نہیں ہے لیکن تصادم کے اثر اور انجام سے افسانے کا معنوی پہلو ایک قسم کی سرابی کا شکار ہو جاتا ہے۔

اس سراب سے نکلنے کی ذمہ واری تو بحر حال قاری کے حصے آتی ہے کیوں کہ وہی تو ہے جو افسانے کے متن سے سب سے زیادہ قریب تر ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ اگر افسانہ اس کے ذہن کو متحرک تو کرتا ہو لیکن منطقی پہلو تک اس کی پہنچ دشوار ہوتی ہوئی معلوم ہو تو افسانہ سمجھ لینے کے بھرم کے ساتھ خلا کی بے ترتیب صف بھی راہ پا جاتی ہے۔ خلا کی بے ترتیب صف کا یہ احساس ہی ”تشبیہ میں تقلیب” کا بیانیہ ہے جو اپنے معنی وجود کو پانے کے لیے مچل اٹھتا ہے۔ یہ جو بے چینی ہے وہ تشبیہ میں تقلیب کو بیان کرنے کی خواہش ہے میرے خیلا میں یہ اس مجموعہ کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ یہ ایک بحث طلب بات ہو سکتی ہے کہ ان افسانوں میں کرداروں کی جو تشکیل ہوئی ہے کیا وہ کسی تاریک گڈھے Blackhole کے اندر ہے جہاں اظہار کے روایتی نسخے اور طریقے منطقی سطح پر خارج ہو جاتے ہیں، غائب ہو جاتے ہیں، وہ بھی ٹھیک اپ کی نظروں کے سامنے جب سب کچھ روایتی روش پر چلتے ہوئے تو نظر آئے لیکن بیان اور اظہار کے کسی بھی سانچے سے انحراف بھی کرتا چلے۔ بعض دفعہ یہ محسوس ہو سکتا ا ہے کہ بیانیہ آوارہ ہو گیا ہے موضوع کی کششِ ثقل یا قوتِ ثقل کی وجہ سے ساکت سا ہو گیا ہے، یہ احساس در اصل وقتی ہوتا ہے کیوں کہ جیسے ہی بیان کیے گیے مسئلہ کا رمزیہ خلتا ہے آپ آزاد ہو جاتے ہیں اُن تمام زنجیروں سے جو ہمیں ہمارے نفس کو وراثت میں ملی ہوتی ہیں۔ یہ ہی وہ آزادی ہے جس کی تلاش اور خواہش میں ہم اپنے ”اصل” میں کوئی لطف لے پاتے ہیں، کسی فکری عمل کو انجام دے پاتے ہیں۔

اس مجموعے کے افسانے ارتقاء پذیر ہیں، اس معنی میں کہ یہ تیرہ افسانے تیرہ نقطے ہیں۔ یہ افسانے اس نقطے پر غور کرتے ہوئے تصدیق کرتے ہیں کہ حال کی تو حد ہو سکتی ہے لیکن مستقبل کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ اصل میں سمجھے والی بات یہ ہے کہ مستقبل حال کی صلاحیت کا استعمال ہی نہیں کرتا بلک ساتھ ہی ساتھ وہ ہمارے تصور کی اڑان کو بھی مزید تقویت ادا کرتا ہے۔ سیاسی اور ثقافتی پیچیدگیوں کو ان افسانوں میں اسی سیاق و سباق میں دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔

مندرجہ بالا تفتیش کی روشنی میں اس مجموعے کے دو افسانوں کا مختصر احاطہ کرنا پسند کروں گا جو اس مضمون کا مطالبہ بھی معلوم ہوتا ہے اور حد بھی۔

یہ افسانے اس لیے چنے گئے ہیں کہ اپر جو کچھ عرض کیا گیا ہے اس کے مرکز میں یہ افسانے کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ اور اس مجموعے کے گوہر بھی ہیں۔

۱۔ قسطوں میں مرنے والے کا نوحہ

یہ افسانہ ہسپتال میں اپنے کمرے اور بستر پر کینسر کے مرض سے نبرد آزما ایک آدمی کا ہے۔ زندگی اوور موت کے درمیانی سرحدوں پر یہ افسانہ کھڑا ہوتا ہے جہان حیات اور مرغ کے مختلف لمحات آپس میں تحلیل ہوتے ہوئے افسانے کی بنیاد رکھتے ہیں۔ معذور خواہشات کی دخل اندازی، حیات کی بہ معنی تقلیب میں بھٹکتی روداد اور دعا گو ذہن کی تین طرفہ جہت کے زیر اثر اس افسانے کا بیانیہ کردار کے اندر پوری کائنات کو دیکھنے کا چراغ بن جاتا ہے۔ بحران اور بکھرنے کے مسلسل عمل نے ذات کے شکستہ حالات کے ساتھ جو تجربہ کیا ہے اس نے پورے افسانے میں وجود کیAbsurdity کی تصویر بنا کر رکھ دی ہے، ساتھ ہی باہری دباؤں کی جال سازیوں کو برہنہ بھی کر دیا ہے۔ ایک ہی وقت میں تاریک اور روشن کونوں میں دھندلا جانے اور صاف صاف نظر آنے کی خاصیت اس افسانے کا مرکزی نقطہ ہے۔

میں پانی کے اتھاہ سلسلے کو دیکھے جا رہا ہوں، پانی کے بہاؤ اور اس کی تیز رو سے ایک خطر ناک آواز پیدا ہو رہی ہے، جیسے اسرافیل صور پھونک رہے ہوں۔ میں اداسی کے عالم میں پوری محویت لیکن ایک لا تعلقی کے ساتھ بہتے ہوئے پانی اور پیدا ہونے والی آواز کو شاید نظر انداز کر کے کہیں اور یا شاید کسی اور مقام پر خود کو کھڑا محسوس کر رہا ہوں۔ جمنا کی خس و خاشاک اور شہر کے کچرے تیزی کے سا تھ سطح آب پر بہتے ہوئے نگاہوں سے دور ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ ان کے تعقب میں مزید خس و خاشاک اور کچرے نگاہوں کے سامنے آتے جا رہے ہیں، ان کے ساتھ گرداب بھی ہیں، وہ بھی آگے بڑھتے جا رہے ہیں۔ (ص: ۹)

شہر کی بد بو ذہن کو آلودہ کیے دے رہی ہے۔ بستیاں وہم کی چار دیواری میں قید ہیں جہاں کچھ بھی مثبت اندر نہیں آ سکتا۔ انسان کے گناہ اس کی سمجھ کو بھرم میں ڈال دیتے ہیں۔ روح کی اہمیت کم سے کم تر ہوتی جا رہی ہے اور بدن اہم سے اہم تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ کردار کی تشکیل ایک ایسے منصوبہ کی بنیاد پر کی گئی ہے جو ایک قسم کا رمزیہ ہے جہاں کردار دھیرے دھیرے اس رمزیہ کے سراغ قاری کے ساتھ برآمد کرتا چلتا ہے۔ کردار کی موت کا احساس قریب ہے لیکن یقیناً نہیں کہا جا سکتا۔ یہی وہ انداز بیان ہے جو افسانے میں زبان کو پوری آزادی دیتا ہے۔

میرے بے مصرف وجود کے اندر سگریٹ کے دھوئیں کے پہنچتے ہی میری ناک، حلق، گلے اور سینے میں شاید جلن ہو رہی ہے، بائپسی کے لیے نکالے گئے گوشت کے ٹکڑے کی جگہ پر مجھے شدید ترین اور تڑپا دینے کی حد تک تکلیف ہو رہی ہے۔ میں اپنی توجہ ان تکالیف سے دور کر کے سگریٹ کے لمبے لمبے کش لگائے جا رہا ہوں۔ بنیادی طور پر برسوں کے طویل عرصے پر مشتمل قسطوں کی موت کے خلاف جابر و قاہر خدا کے سامنے میرا یہ علی الاعلان احتجاج ہے، بالکل اسی طرح جیسے مہاراشٹر، ہریانہ اور پنجاب کے کسانوں نے حکومت کے کسان مخالف بل کے خلاف اپنے کھیتوں میں آگ لگا دی تھی، میں بھی قسطوں کی موت کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اپنے وجود کے ہر خوشہ گندم کو لا کر راکھ کر دینا چاہتا ہوں۔ (ص: ۱۲)

افسانے کے موضوع کو کوئی ایک شے نہیں بناتی، بلکہ واقعات کی چھوٹی چھوٹی فہرست ہیں جو افسانے میں موجود ہے۔ لیکن یہ فہرست کردار اور بیان کے درمیان کوئی ایسی اہم جانکاری نہیں دیتی جو کردار کے ذہن کا یقینی طور پر کو ئی سراغ ہو۔ بیان کی ایک خاصیت یہ ہے کہ مصنف کی کوئی دخل اندازی نہیں ہے کہ افسانے میں سچ کہاں تک رموز کا تشبیہ ہے اور کہاں بیانیہ تقلیب پیدا کر رہا ہے یہ۔ ویسے بھی افسانے کا تجربہ رکھنے والی پڑھت کو ذہن میں ہر جگہ خلاصہ مطلوب بھی نہیں ہوتا۔

۲۔ خالی بوتل میں شراب

افسانے میں ترسیل کا مسئلہ افسانے میں بیان کیے گیے موضوع کے آس پاس گھومتا نظر آتا ہے، گویا افسانے کا محور ہی موضوع مان لیا جاتا ہے، بعض دفع ہوتا یہ ہے کہ افسانے کے تجزیہ میں فن اور جمالیات کے شعبوں کو دھیان میں رکھتے ہوئے اسلوب کو افسانے کے موضوع کے ساتھ پہچان نے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لیکن مضمون اور اسلوب میں کوئی باہمی رشتہ لازمی ہو یہ کوئی ضروری نہیں۔ یہ عین ممکن ہے کہ افسانے میں موضوع نیا سے نیا ہو لیکن ا س کے اسلوب میں کوئی خاص تخلیقی تجربہ موجود ہی نہ ہو۔ ساتھ یہ بھی ممکن ہے کہ موضوع تو بہت عام سا ہو لیکن ا س اسلوب میں ایسا نیا تجربہ کیا گیا ہو کہ پرانے موضوع میں اب تک اندھیرے میں رہا کوئی پہلو نمایا ہو کر سامنے آ جائے۔ بے شک زماں اور مکاں کے مسلسل بدلتے ہوئے منظر نامے میں ایک حساس افسانہ نگار بہت کچھ نیا دیکھنے کا، سننے اور تجربے کرنے کی کوشش کرے گا۔ اس لئے موضوع کے نئے پن کا اپنا ایک مقام ہوتا ہے لیکن اصل ارتقا اسلوب میں ہی انجام پاتی ہے۔

یہ افسانہ بہت بڑے فلک پر ہمہ جہت موضوع کی مختلف طول و عرض کو اپنے اسلوب کے چلتے ایک سیدھی قطار میں باندھتا ہے۔ تجربہ اور تصور کو تحلیل کرتے ہوئے پورے بیانہ کو زندہ زبان میں پوری چابک دستی اور مرئیات کے ساتھ بیان کرنے میں نورین علی حق کا جواب نہیں۔ افسانے میں نیا پن اس وقت آتا ہے جب افسانہ نگار افسانے کو جیتا ہوا چلے۔ اپنی روداد کہنے کے لئے کردار کو اپنے ٖفیصلے کرنے، غلطیاں کرنے اور اپنی نفسیات کے بیچ الجھنے کا موقع دے۔ اسے جیتا جاگتا انسان ہونے کی چھوٹ دے۔ نور ین علی جانتے ہیں کہ اپنی بات کو نقطے اور حقائق کے ساتھ اظہار کا وسیلہ کیسے بنایا جائے۔

’’کئی بار مجھے خود محسوس ہوا کہ جب وہ اپنی آنکھیں جھکاتی یا مونگ پھلیوں کے چھلکوں کو ریزہ ریزہ کرتے ہوئے انہیں کھوئی کھوئی سی دیکھنے لگتی تو میرے اندر کوئی ٹھہاکے مار کر ہنستا، میری آنکھوں کا کبھی بایاں تو کبھی دایاں پپوٹا بند ہوتا اور خود ہی کھل جاتا۔ تبسم کی ہلکی لکیریں میرے چہرے پر تیر جاتیں۔ تبسم کی ان لکیروں کو میں دیکھ نہیں پا رہا ہوں مگر اندر کوئی ہے، جو مجھے یہ کرنے پر مجبور کر رہا ہے۔ ایسے موقع پر یہ حرکتیں مجھ سے کون کراتا ہے، میں اکثر تنہائیوں میں ٹھہر کر سوچتا ہوں۔ آخر انسانیت کا یہ کون سا پیمانہ ہے، جو انسانوں سے بات کرتے ہوئے اندر اور باہم مختلف ہوتا ہے، اسے سنتے اور سوچتے ہوئے میں مونگ پھلیوں کے چھلکے گنگا میں ذرا زور لگا کر پھینکتا جا رہا ہوں‘‘ (ص؛۳۵)

’’چھلکے پانی پر پہنچتے ہی پانی کے بہاؤ کے ساتھ بہتے چلے جا رہے ہیں۔ گنگا میں ایک قسم کا ٹھہراؤ ہے، گنگا ہولے ہولے بہہ رہی ہے، لوئی ہلکی پھلکی چیز بھی اس میں گرتی ہے تو اس کا ارتعاش اور ارتعاش اور اس سع پیدا ہونے والی لکیریں دور تک پھیلتی چلی جاتی ہیں، میں دیکھ رہا ہوں، ارتعاش کو دیکھنا مجھے اچھا لگتا ہے، خواہ وہ زندگی میں ہو یا گنگا میں، یا ذہن و دل و دماغ میں اس کی بھی اپنی ایک منفرد سائکی ہوتی ہے، ارتعاش کا وجود زندگی کی علامتوں میں سے ایک علامت ہے، مثبت ہو یا منفی ارتعاش کا ہونا ناگزیر ہے۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ ہمارے اذہان کا ارتعاش گنگا کے پانی کی اوپری سطح پر تیار ہے یا گنگا میں ہونے والی ہلچل سے پیدا ہونے والا ارتعاش ہمارے سر چڑھ کر بول رہا ہے۔‘‘ (ص: ۳۶)

افسانہ اپنے خاتمے کو لے کر بیتاب نہیں ہے بلکہ اس میں زندگی کے ایک ٹکرے کا بہاؤ ہے جو ایک پل کو بھی رکتا نہیں۔ کچھ راز ہیں، عشق، نفس، جبلیات کی کچھ تشبیہات ہیں جو قاری کے تجسس کو اور بھی بڑھا دیتیں ہیں۔ یقینی طور پر یہ افسانہ دونوں کرداروں کے درمیان بنے رابطے سے ذات میں پیدا ہوئے عبوری مرحلہ سے گزرتے ہوئے کرداروں کے اور بھی سنجیدہ ہونے کی کہانی ہے۔ اس افسانے میں مرکز میں ٹھہراؤ ہے، ٹھہراؤ کی زنجیر یں ہیں جو افسانے کو دلچسپ موڑ دیتی ہیں۔ افسانہ یہ منوانے میں کامیاب ہوتا ہے کہ آپ ایک زندگی کی پیمائش دوسری زندگی کے میزان پر نہیں کر سکتے۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے