343434ایک گھنی آبادی کے فلیٹ کی پانچویں منزل کے اکلوتے کمرے میں اور موسموں کی زیادتی کی زد میں احمد کو تنہا رہتے ہوئے دو سال ہو چکے ہیں۔ ۔ آج کل مئی کی گرمی کی دوپہر میں یہ کمرہ تپش سے انگیٹھی بن جاتا ہے، اور وہ گھبرا کر بلا ارادہ باہر نکل جا تا ہے، کیونکہ اس کمرے میں بیٹھنے سے بہتر اسے گلیوں، سڑکوں اور بازاروں میں آوارہ گردی کرنا لگتا ہے۔ ۔ اپنے چہار طرف بکھرے چہروں میں وہ نہ جانے کیا تلاش کرنے کی کوشش میں یہاں وہاں بھٹکتا رہتا ہے۔ ۔ ۔ اس کی آدھی توجہ اپنی جیب میں پڑے چند سکوں کے حساب کتاب کی طرف رہتی ہے، چہروں کی طرف کم، کیونکہ جگہ جگہ بس بدلتے ہوئے اور چائے پیتے ہوئے یہ سکے کم ہوتے جاتے ہیں، اور جن کہانیوں کی تلاش میں وہ نکلتا ہے انہیں ڈھونڈھ نہیں پاتا۔ مگر گھر سے نکلتے وقت سادہ اوراق والی ڈائری اور قلم اپنے کندھے سے لٹکتے ہوئے تھیلے میں رکھنا نہیں بھولتا۔ ۔ سوچتا ہے نوکری ملتے ہی ایک ٹیب ضرور لے گا ابھی تو ایک معمولی سا موبائیل ہے جس سے صرف فون رسیو کیا جا سکتا ہے کیونکہ اس کے فون میں کبھی بیلنس نہیں ہوتا۔ دن بھر کی آوارہ گردی کے بعد شام کو اپنے کمرے میں لوٹنے کی شدید خواہش لئے وہ واپس آ جاتا ہے، نہا کر تھکن اور تپش سے چھٹکارا پانے کے بعد اسے اس بڑے شہر میں یہ کمرہ کسی عیاشی سے کم نہیں لگتا وہ کمرے کے سامنے چھوٹی سی کھلی چھت پر کرسی نکال کر بیٹھ جاتا ہے، اترتی ہوئی شام میں کھلی چھت پر کرسیڈ ال کر بیٹھنا اسے بہت اچھا لگتا ہے، گاؤں کے گھر کا کھلا آنگن چھوڑنے کی تکلیف بھلانے میں مددگار ہے یہ چھت۔ ہلکی ہلکی ہوا کے جھو نکے دن بھر کی تھکاوٹ کو زائل کرنے میں کارگر ثابت ہوتے ہیں اور یہی وہ وقت ہوتا ہے جب وہ دن بھر کی خاک چھان کر آنے کے بعد اپنی ڈائری کے سادہ اوراق کو پھر سے سنبھال کر بیٹھ جاتا ہے اور گردش وقت کا نوحہ لکھنا چاہتا ہے۔ مگر جو وہ لکھنا چاہتا ہے وہ لکھ نہیں پاتا، قصبہ چھوڑتے وقت زندگی کے جس حسین رخ کو دیکھنے کی خواہش لے کر وہ آیا تھا وہ تو اسے اب تک نظر نہیں آئی تھی، ماں نے کہا تھا مت جا بیٹا یہاں اور کچھ نہیں مگر سکوں تو ہے۔ ۔ بہن نے کہا تھا بھیا نوکری ملتے ہی اچھا سا مکان لینا اور ہمیں بھی شہر میں بلا لینا۔ ۔ اور تحفے میں یہ ڈائری دے کر کہا تھا۔ ۔ "اپنے لکھنے کی عادت اور سچ لکھنے کی عادت مت چھوڑنا۔ ۔ ۔ اس میں ایک ایک دن کی روداد لکھنا میں آ کر پڑھوں گی تمہاری ڈائری۔ ۔ ۔ مگر وہ جب بھی اس ڈائری کو کھولتا ہے کچھ لکھ نہیں پاتا۔ ۔ ۔ کوئی خوبصورت یادداشت، کوئی کہانی، کوئی امید۔ ایسا کوئی سچ نہیں کہ وہ لکھ سکے یا بد صورت سچ کو لکھنے کی ہمت نہیں اس میں، حالات نے آج کل ان احساسات کا سودا کرنے پر مجبور کر رکھا ہے۔ ۔ اپنے لکھنے کی عادت کی وجہ سے ہی وہ یہاں ٹکا ہوا ہے۔ قصبے سے آ کر دلی جیسے بڑے شہر میں ایک کمرے کی عیاشی قائم رکھنے کا یہی واحد ذریعہ ہے۔ نوکری تو ملی نہیں مگر بہت سے ایسے دوست ضرور مل گئے جو اخبار، ریڈیو اور ٹی وی میں کام کرتے ہیں۔ ۔ ۔ اور اس سے ‘ گھوسٹ رائیٹنگ ‘ کروا کر اس کی جیب میں چند روپے سرکا دیتے ہیں۔ کئی بار تو وہ سچائی کے مکروہ چہرے پر اس کی تحریروں کا گہرا نقاب ڈالنا چاہتے ہیں، کئی بار گڑھے ہوئے جھوٹ پر سچائی کی پالش چڑھوانے آتے ہیں۔ ۔ ان کے پاس نوکری ہے، کام کی زیادتی ہے اور اس کے پاس بے کا ری اور ضرورت ہے۔ اس لئے وہ اپنی صلاحیت کی چور بازاری کرتا ہے -جینے کے لئے، نوکری کے لئے روزانہ انٹرویو دیتا ہے اور اپنے خواب کی تعبیر کا انتظار کرتا ہے، دو سال سے دھکے کھا کھا کر وہ سمجھ گیا ہے کہ صحافت کو جو چہرہ اس کی سوچ میں تھا وہ سب ایک سراب ہے کوئی نہ سچ کے لئے کھڑا ہوتا ہے نہ ہونا چاہتا ہے کیونکہ جھوٹ کی قیمت اس دنیا میں زیادہ ہے۔ عام لوگ اس کی تحریر پسند کرتے ہیں، اسے بھی کچھ کچھ اندازہ ہو چکا ہے کہ اس کی تحریر میں سچائی کی جو ترشی ہے وہ لوگوں کو پسند آتی ہے، اس کے لفظوں میں اس کا ضمیر دھڑکتا ہے اس لئے پسند آتی ہے۔ ۔ اور وہ اپنا ضمیر فروخت نہیں کر نہ چاہتا، اس لئے آج تک بس چھوٹی موٹی چیزوں اور خبروں پر سمجھوتا کرتا آیا ہے، کہ جینے کے لئے کچھ تو کرنا تھا۔ ۔ اسے امید رہتی ہے کہ یہ اس کا آخری سمجھوتہ ہو گا۔ ۔ ۔ وہ خود سے اور غائبانہ اپنی بہن سے وعدہ کرتا ہے کہ نوکری ملتے ہی سچ سے سمجھوتا کرنا وہ چھوڑ دے گا۔
۔ ۔ بیوہ ماں کا فون اکثر آتا ہے،
"بیٹا واپس آ جا، یہاں قصبے کے اسکول میں ماسٹر نہیں ہیں، تو پڑھا لینا جو بھی ملے گا اس سے اچھا گزارہ ہو گا۔ ہم سب ساتھ رہیں گے۔ ”
ماں کی معصومیت پر وہ تلخی سے مسکرا دیتا تھا۔ ۔ ماں نام کی مخلوق صرف گزارہ کر کے اور کروا کر کیوں خوش رہتی ہے۔ ۔ ۔ ؟ ماسٹری کر لو کہ پیٹ کی بھوک مٹے، شادی کر لو جسم کی بھوک مٹے۔ ۔ ۔ کیا بھوک سے آگے اور پیچھے کچھ سوچنا نہیں چاہئے۔ کیا زندگی میں بھوک ہی واحد سچ ہے۔ ۔ مگر یہاں جس طرح وہ ابھی رہ رہا ہے وہ گزارہ کرنے سی بھی کوئی نچلے درجے کا سمجھوتا ہے پھر بھی احمد واپس نہیں جانا چاہتا کہ وہاں گزارہ تو ہے مگر اس کے ساتھ کوئی خواب نہیں ہے، اچھے دن کی کوئی امید نہیں ہے اور وہ زندگی ہی کیا جہاں کوئی امید کا دامن ہاتھ میں نہ ہو۔ بس بڑے سے آنگن میں چارپائی پر لیٹ کر آسمان کے تارے دیکھنا یا اسے دیکھتے دیکھتے سو جانا اور بڑے شہروں کے سنہرے خواب دیکھنا۔ اسی لئے وہ ان خوابوں کے پیچھے پیچھے یہاں چلا آیا، اب زندگی کے لئے اور بھی کتنا کچھ ضروری ہے ایک روٹی اور ایک اور تاروں بھرے کھلے آسمان کے علاوہ۔ ۔ ۔ مگر وہ ماں کو کیسے سمجھائے ؟۔ ۔ ۔ اونچا اڑنے کی خواہش میں وہ اس پانچویں منزل کے کمرے پر آ کر جسیں ہوا میں معلق ہو گیا ہے اب نہ پیروں کے نیچے زمین ہے اور نہ اڑنے کے لئے خوبصورت آسمان، بس ہاتھ پر مار رہا ہے کہ خوابوں کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے۔
کمرے میں فون کی گھنٹی بج رہی تھی، نہاتے وقت اس نے فون بستر پر اچھالا تھا، ماں کا ہو گا وہ لپک کر اندر گیا مگر راجیو کا فون تھا، وہ فون لے کر واپس چھت پر آیا اور اپنی کرسی پر بیٹھ گیا۔ ۔ ۔ دل کی دھڑکن بڑھ گئی تھی، راجیو جس اخبار میں کام کرتا تھا اس میںایکاسامی کی جگہ خالی تھی۔ ۔ ۔ اور وہ انٹرویو دے کر آیا تھا۔ ۔ ۔
"ہیلو۔ ۔ ”
” یار وہ، ۔ تو نے انٹر ویو میں یہ کیا کہ دیا کہ تو سچائی سے کوئی سمجھوتہ نہیں۔ ”
"میں نے وہی کہا جو میں سوچتا ہوں۔ ۔ ”
"پاگل ہے یار۔ ۔ کچھ لچک پیدا کر، ۔ ہمارے پروفیشن میں اتنی اکڑ اچھی نہیں۔ تیرے ٹیلنٹ سے متاثر ہیں مگر تیرے خیالات سے مطمئن نہیں، تجھے تو ان کے حساب سے ہی کام کرنا ہو گا ”
"مگر وہ جس پروجیکٹ پر کام آفر کر رہے ہیں وہ بھی ان کے کہنے کے مطابق وہ میں نہیں کر سکتا۔ ۔ وہ اس معصوم لڑکی کے خلاف اسٹوری بنانے کو کہ رہے ہیں جس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے، اسے دیکھ کر مجھے اپنی بہن یاد آ گئی۔ ”
"ارے بہن تو نہیں ہے نا۔ ۔ ۔ ۔ ؟ میں ان تک تیری ہاں پہنچا دیتا ہوں، جذباتی ہونے سے زندگی نہیں چلتی۔ کمپرومائیزز کرنے پڑتے ہیں۔ ۔ اچھی نوکری ہے، اچھے پیسے ہیں۔ ۔ ان کے حساب سے کام کرنا اتنا مشکل نہیں ایک بار آ کر تو دیکھ۔ ساتھ میں رہنے کے لئے فلیٹ بھی ملے گا، اتنی سہولت اور ایسا مشاہرہ تجھے کہیں نہیں ملے گا۔ ۔ ”
"ہووووووں۔ ۔ ۔ اس نے ٹھنڈی سانس بھری۔ ۔ ”
"اچھا میرا دونوں کام کیا ؟۔ ۔ ۔ ”
"ابھی نہیں۔ ۔ تو ایسے جھوٹے سچے کام ہی مجھ سے کیوں کرواتا ہے۔ ۔ احمد نے جھنجھلا کر کہا ”
"ہا۔ ۔ ہا ہا۔ ۔ یار انہی کاموں میں پیسہ ہے کیا کریں۔ ۔ ۔ کتاب پر ریویو لکھ دے جلدی سے۔ ۔ رائیٹر ایڈوانس دینے کو تیار تھا میں نے نہیں لئے کہ جتنا اچھا ریویو ہو گا اتنی اچھی قیمت لگواؤ نگا۔ ۔ ۔ ”
"بہت بکواس کتاب ہے یار۔ ۔ کیا لکھوں اس پر۔ ”
” پاگل مت بن۔ ۔ ۔ سنا ہے بہت پہنچ ہے اس کی، کوئی ایوارڈ کے لئے کوشش میں ہے اچھا سا ریویو لکھ دے، اپنا کیا جاتا ہے۔ منھ مانگے پیسے دے گا۔ ”
” مجھے کیوں دے گا۔ ۔ میں کون سا بڑا نقاد ہوں۔ ۔ ”
” صحیح کہا۔ ۔ ۔ تیرے نام سے اسے کیا مطلب، اس کی فکر تو مت کر اب وہ ریویو کس کے نام سے آئے گا اور کیسےیہ تیرے سوچنے کی بات نہیں۔ چل کل صبح آتا ہوں تو آج رات لکھ کر رکھنا۔ زیادہ سوچ مت۔ ۔ وقت بہت بدل گیا ہے۔ ۔ جینے کے لئے بڑے سمجھوتے کرنے پڑتے ہیں۔ ۔ ”
فون رکھ کراس نے تلخی سے سوچا وقت کہاں بدلتا ہے وہ تو اپنی مستانہ رفتار سے چلتا رہتا ہے۔ ۔ ۔ ٹک ٹک ٹک ٹک۔ ۔ ۔ سال میں اکتیس (۳۱ ) ملین سکنڈس کا حساب دیتا ہوا۔ ۔ جذبات، احساسات، معصومیت اور انسانوں کو روندتا ہوا۔ ۔ بدلتے تو کردار ہیں، کرداروں کے چہرے، خواب اور خواہشیں، ان کے طریقے، سوچ، انداز، ضرورتیں۔ ۔ ، اور ان بدلاؤ کے دھچکے سہتے سہتے زندگیاں۔ ۔ ۔ ۔ اپنی جگہ خالی اور اسے پر کرتی ہوئی۔ موسم بدلتے ہیں، تاریخیں بدلتی ہیں اور ان سارے بدلاؤ کو ہم وقت کے کھاتے میں ڈالتے جاتے ہیں –
وہ چھت کی ریلنگ سے نیچے سڑک کی چہل پہل دیکھتا ہے، ۔ دنیا بہت بڑی ہے ہر وقت رواں دواں اور مصروف۔ ۔ ۔ بھاگ رہی ہے۔ ۔ ۔ اپنے اپنے حصے کی خوشیوں کی تلاش میں۔ ۔ ۔ اسے ہنسی آ جاتی ہے، خوشی کہاں ہے ؟۔ ۔ ۔ وہ ایک ایک چہرہ پڑھنا چاہتا ہے۔ مگر اتنے اوپر سے اسے لوگ سمجھ میں آ سکتے ہیں، لوگوں کے چہرے نہیں۔ کوئی نیا کردار، کوئی نئی کہانی ملے تو وہ لکھے۔ ۔ ۔ کہانیاں تو سیکڑوں ہیں اس کے سامنے، مگر کہیں کوئی انفرادیت تو ہو۔ چائے پان کی دکان کے سامنے۔ ۔ لڑکوں کا غول کھڑا رہتا ہے وہاں پر موجود کار، بائیک، دیوار کے سہارے کمر ٹیڑھی کئے یا کہنیاں ٹیکے اور گھٹنے موڑے ہوئے۔ ایک ایک موبائیل پر چار چار جھکے ہوئے یا ہنسی ٹھٹھول میں مشغول سگریٹ پر سگریٹ پھونکتے ہوئے۔ ۔ گزرتی ہوئی کسی بھی لڑکی کو چور اور ترچھی نظروں سے دیکھ کر رکیک اشارے اور چھچھورے کمنٹ کر کے کتنے خوش ہو جاتے ہیں، جیسے بہت بہادری کا کام کر لیا ہو۔ اسی رواں دواں سیلاب میں بچوں سے پریشان عورتیں، ۔ ۔ بچے جو دکان میں سجی ہر اشیا کو کتنے تجسس اور اشتیاق سے دیکھتے ہیں۔ مگر ماں باپ کے قدموں کی رفتار کو تھا منے میں بے بس ہیں –
سفید کرتے پاجامے میں تیز قدموں سے مسجد کی طرف جاتے لوگ۔ مغرب کی نماز کا وقت ہے، اسے بھی جانا چاہئے مگر اس کے دل میں عقیدت کے جذبات کو اس کی سوچوں نے پراگندہ کر دیا ہے وہ سوچتا ہے جنت کے خواہاں۔ ۔ ۔ دنیا کو جہنم بنانے سے کیوں نہیں روک پاتے۔ جنت پانے کی خود غرضانہ خواہش نے ہم انسانوں کے صالح اعمال کو بھی کیسا مشکوک کر دیا ہے، کیونکہ اپنے اپنے انداز میں سب کو جنت تو نظر آتی ہے پر انسان نظر نہیں آتے۔ اور وہ کمنڈل اٹھائے بابا جی سب کو عقیدت بیچ رہے ہیں، وہ لوگوں کی ہتھیلی پر کوئی پرساد دیتے ہیں بدلے میں لوگ چند سکے بابا کو پکڑا دیتے ہے –سارا عمل کتنا میکانکی ہے۔ ۔ اگر غور کیا جائے تو بس اپنی زندگی چلانے کے لئے الگ الگ ڈھونگ۔ ۔ ۔ ہونھ۔ ۔ اس نے بیزاری سے سوچا۔ ۔ ۔ ۔ ملا، پنڈت، مرد، عورت، بوڑھے، جوان سب صرف ایک کام کر رہے ہیں۔ ۔ ۔ ، یا زندگی ان سے کروا رہی ہے۔ پیٹ کے دوزخ کو بھرنے کی سعی۔ ۔ ۔ یہ جہنم جیتے جی انسان ساتھ لئے چلتا ہے اور وہ اسے جتنا بھرتا جاتا ہے تشنگی کی آگ اتنی ہی بھڑکتی جاتی ہے اور وہ پہلے سے بھی زیادہ مصروف ہو جاتا ہے۔ نہ جانے کتنے جرائم، کتنی بے ایمانیاں، کتنی عیا ریاں لکھتا ہے وقت کے صفحات پر جو وقت کی مجموعی سوچ میں بدل کر تاریخ بن جاتی ہے۔ ۔ شام کا سلیٹی رنگ رات کی سیاہیکے پردے میں روپوش ہو گیا۔ بازار کی رونق اب بھی بنی ہوئی ہے۔ ۔ ۔ اس نے اپنے قلم اور ڈائری کو وہیں کرسی پر رکھ دیا۔ آج بھی کوئی سچ ان اوراق پر درج نہ ہو سکا۔ ۔ وہاں سے اٹھتے ہوئے اپنے کپڑوں سے فلسفے کی گرد جھاڑی، آج بھی وہ کچھ نہیں لکھ سکا تھا، مگر اب اس کی بھی بھوک اور پیاس چمک اٹھی تھی، ۔ اور وہ پانچویں منزل سے کھانا کھانے کے لئے نیچے اترتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ ان فلسفوں سے کس کا پیٹ بھرا ہے۔ ۔ ۔ اسے یاد آیا جیب خالی ہو جائے گی، ۔ ۔ ابھی جب کھا نا کھا کر آئے گا اور ایک بکواس کتاب پر بہت عمدہ تبصرہ لکھے گا اپنی بھوک مٹانے کے لئے کسی کی شہرت کی بھوک مٹانے کی سعی کرنے میں برائی بھی کیا ہے۔ اپنے فلسفے اپنی سچائی وہ خود تک محدود رکھے گا، ۔ ۔ ا س نے سکون کا سانس لیا اور اوپر چھت کی کرسی پر پڑی ہوئی ڈا ئیری کے سادہ اوراق ہوا سے پھڑپھڑا رہے تھے۔ اور وہ اپنی چمکتی ہوئی بھوک کے پیچھے تیزی سے نیچے ہی نیچے اترتا جا رہا تھا۔ ۔ ۔
٭٭٭