جھمرو کا خیمہ شاد باد تھا۔
لوگ اس سے بے سر پیر کے سوالات کر رہے تھے اور وہ ان کے اوٹ پٹانگ جوابات دے رہا تھا پھر بھی ہر کوئی خوش تھا۔ وقفے وقفے سے ہنسی کے فوارے چھوٹتے اور قہقہے بلند ہوتے۔ بازار کی گہما گہمی سے تھک کرسستانے کے لیے لوگ جھمرو کے پاس وقت گزاری کے لیے آ جاتے تھے اور ان کے آنے سے جھمرو کا بھی ٹائم پاس ہو جاتا تھا۔ لوگ اپنی مرضی سے وہاں آتے اور اپنی سہولت سے نکل جاتے نہ کوئی انہیں آنے کے لیے کہتا اور نہ جانے سے منع کرتا لیکن برکت کا یہ عالم تھا کہ جتنے لوگ اٹھ کر جاتے تقریباً اتنے ہی نئے آ جاتے۔ محفل کی رونق رات گئے تک بدستورقائم و دائم رہتی۔ یہاں تک کے بازار اٹھ جاتا اور جھمرو اپنے کام میں جٹ جاتا۔
اس دوران کسی نے پوچھا جھمرو چاچا وہ ناگن کا کیا قصہ ہے ؟ سنا ہے اس کے سپیرے نے ہی اسے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جی ہاں تم نے صحیح سنا ہے۔ سپیرے نے نہیں بلکہ اس کے اناڑی لڑکے نے۔ ویسے سپیرے کا لڑکا بھی سپیرہ ہی ہوتا ہے اس لئے تمہاری بات بھی درست ہے۔
دوسرے شخص نے سوال کیا۔ بھئی ہم نے کچھ بھی نہیں سنا۔ ہمیں بھی تو پتہ چلے کہ ماجرہ کیا ہے ؟
اگر نہیں پتہ تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے اس لئے کہ کچھ معاملات میں آگہی کا کرب لاعلمی کی محرومیت سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔
تیسرے نے ہنستے ہوئے کہا آج تو جھمرو چاچا کے اندر کسی فلسفی کی روح سرائیت کر گئی ہے۔ نہ جانے کیسی بہکی باتیں کرنے لگے ہیں۔
ایک ہلکا سا قہقہہ بلند ہوا لیکن اس میں جھمرو شامل نہیں تھا۔ یہ دوسری حیرت انگیز بات تھی ورنہ سب سے پہلے ہنسنے والوں میں سے ایک جھمرو ہوتا تھا۔
ایک اور شخص بولا کہیں جھمرو بابا آج اس ناگن کا سوگ تو نہیں منا رہے ہیں ؟
کسی اور نے کہا اس ناگن سے آپ کو کوئی خاص۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جھمرو نے ڈانٹتے ہوئے کہا کیا بکتے ہو چپ کرو اور پھر فوراً اپنے آپ کو سنبھال کر بولا آپ لوگ اس بیچاری ناگن کے پیچھے کیوں پڑ گئے۔ کوئی اور بات کیوں نہیں کرتے ؟
جھمرو کو اس قدر غمگین لوگوں نے کبھی بھی نہیں دیکھا تھا وہ بولے معاف کرنا جھمرو چاچا غلطی ہو گئی لیکن اب ہم ناگن کے بارے میں جانے بغیر یہاں سے نہیں ٹلیں گے۔
جھمرو بولا چھوڑو، وہ لمبی کہانی ہے۔ بازار بند ہو جائے گا تم لو گوں کا سودہ سلف چھوٹ جائے گا۔ چلو پھر کبھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جی نہیں آج اور ابھی۔ اس بار بہت ساری آوازیں ایک ساتھ اٹھیں
اچھا اگر ایسا ہے تو میری بھی ایک شرط ہے ؟
وہ کیا؟
یہی کہ بیچ میں سے کوئی اٹھ کر نہیں جا سکتا۔ اگر کسی نے ایسا کیا تو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تو کیا؟
تو اژدھا اسے نگل جائے گا اس لئے کہ وہ ابھی بھی زندہ ہے۔
لوگوں کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ وہ سوچنے لگے اژدھا نگل جائے گا کیا مطلب؟
جھمرو نے زوردار قہقہہ لگا یا اور بولا کیوں ڈر گئے نا سب لوگ ؟ جاؤ جا کر اپنا کام کرو۔ چھوڑو ناگن کو اور اس کی کہانی کو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ہم نہیں ڈرے اور ہم نہیں جائیں گے آج آپ کو اس کی کہانی سنانی ہی ہو گی۔
اچھا تو تم سب کو میری شرط یاد ہے ؟
سب نے ایک آواز ہو کر کہا جی ہاں۔
اور منظور بھی ہے۔
جی ہاں ہمیں منظور ہے۔
جھمرو نے قصے کا آغاز کر دیا۔ ڈمرو مداری دور کے رشتے میں میرا بھائی ہے۔ نہ جانے کیا سوچ کر میرے چچا نے اس کا نام ڈمرو رکھ دیا تھا اس لئے کے ہم محنت مزدوری کرنے والے لوگ ہیں۔ کھیل تماشہ ہم نہیں کرتے۔ اس کام کوہم نے سیاستدانوں کے لیے چھوڑ رکھا ہے۔ لوگوں کے چہرے پر ہنسی مسکرانے لگی محفل پھر سے اپنے رنگ پر آنے لگی تھی۔
ہوا یوں کہ ایک روز ڈمرو جنگل میں شکار کے لئے گیا ہوا تھا تاکہ گھر میں گوشت پک سکے۔ شام تک وہ مارا مارا پھرتا رہا لیکن کوئی مناسب جانور اس کے ہاتھ نہیں آیا آخر تھک ہار کر وہ ایک پیڑ کے نیچے سوگیا۔ کچھ دیر بعد شور بلند ہوا۔ بولتی ناگن مردہ باد، بولتی ناگن مردہ باد اور چیونٹیوں کی آبادی میں ہلچل مچ گئی۔ بولتی ناگن کی پسندیدہ غذا یہ لال بھڑک چیونٹیاں ہی تھیں۔ چیونٹیاں اپنی جان بچا کر بھاگ رہی تھیں اور ناگن جلدی جلدی سپاسپ انہیں چٹ کر رہی تھی۔ اس سے پہلے کہ چیونٹیوں کی یہ آبادی کسی محفوظ ٹھکانے پر پہنچتی ناگن کئی چیونٹیوں کو اپنا تر نوالہ بنا چکی تھی۔
ناگن نے ان کا پیچھا نہیں کیا اس لئے کہ اس کا اژدھا وہیں ڈمرو کے بغل میں محو خواب تھا وہ اسے سوتا چھوڑ کر نہیں جا سکتی اس لئے بہت ساری چیونٹیوں کی جان بچ گئی لیکن اس بھاگو بھاگو اور مردہ باد کے شور شرابے سے ڈمرو کی آنکھ کھل گئی۔ اس نے دیکھا ایک موٹا تازہ اژدھا اس کے بغل میں آرام فرما رہا ہے۔ ڈمرو گھبرا گیا اور اس نے جھٹ اپنا رام پوری چاقو نکالا تاکہ اژدھے کے سر میں گھونپ دے۔ اس سے پہلے کہ وہ اپنے ارادے کو عملی جامہ پہناتا اس کے کان میں آوازآئیــایسا نہ کرو۔ اس بیچارے نے تمہارا کیا بگاڑا ہے ؟
ڈمرو کا ہاتھ کانپنے لگا اس نے خوف سے ادھر ادھر دیکھا نہ آدم نہ آدم زاد یہ آواز کہاں سے آ رہی تھی۔ پتوں کے درمیان اسے ایک ننھی سی ناگن نظر آئی۔ اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ ناگن بول رہی لیکن اس کے پاس اسے تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں تھا وہ بولا کچھ کیا نہیں ہے تو کیا ؟کر تو سکتا ہے۔ اگر وہ جاگ کر مجھے کاٹ لے تو میرا کام تمام ؟
ناگن بولی اسے اگر کچھ کرنا ہی ہوتا تو وہ آ کر سونے قبل تمہارا کام تمام کر دیتا اور تمہیں پتہ بھی نہیں چلتا کیونکہ اس وقت تم اسی طرح سو رہے تھے جس طرح اب وہ سورہا ہے۔
ڈمرو نے سوچا بات تو صحیح ہے لیکن پھر وہ شوخی سے بولا اچھا ناگن یہ بتاؤ کہ اگر میں تمہاری بات نہ مانوں تو تم کیا کر لو گی؟
میں۔ ۔ ۔ میں تمہیں ڈس لوں گی۔ ناگن مسکرا کر بولی
ڈمرو پھر ڈر گیا لیکن اپنے آپ کو سنبھال کر بولا اچھا وہ تو تم پہلے بھی کر سکتی تھیں۔
جی ہاں لیکن جس کام کو میرے اجگر نے نہیں کیا اور جس کام سے میں تمہیں منع کر رہی ہو اس کو خود کیسے کر سکتی ہوں بھلا؟
اچھا تم تو بڑی اصول پسند ناگن معلوم ہوتی ہو؟
جی ہاں جنگل میں رہنے والے سارے جاندار ایسے ہی ہوتے ہیں وہ اصولوں کی بات نہیں کرتے ان کا پاس و لحاظ کرتے ہیں۔ ہاں شہروں میں رہنے والوں کا حال مختلف ہے وہ اصولوں کی بات تو بہت کرتے ہیں لیکن پاسداری کم ہی ہوتی ہے۔ لوگ سمجھ گئے یہ بات ناگن نے ہر گز نہیں کہی ہو گی جھمرو اپنی بات اس کے نام سے کہہ رہا ہے لیکن کسی نے ٹوکا نہیں۔ کہانی میں سب کو مزہ آ رہا تھا۔
ڈمرو بولا ناگن تمہاری منطق مجھے پسند آئی اور تمہاری باتیں ان کا کیا کہنا، میں نے تو کبھی انسانوں کے منہ سے بھی اس قدر حکمت کی بات نہیں سنی۔
ناگن بولی ذرہ نوازی کا شکر یہ ویسے ابھی تم نے سنا ہی کیا ہے ؟اور کیا تم نے کبھی ناگن کا رقص دیکھا ہے ؟
ناگن کا رقص !نہیں تو۔ کیا تم نے رقص کرنا بھی سیکھ لیا ہے ؟
ناگن زور سے ہنسی اور بولی تم بھی بہت بھولے ہو ڈمرو ناگن کو ناچ سیکھنا نہیں پڑتا ہے ہر ناگن پیدائشی طور پر ماہر رقاصہ ہوتی ہے۔
اچھا تو پھر ناچ کے دکھلاؤ۔
لیکن اس کے لیے تمہیں بین بجانا پڑے گا ؟ کیا تمہارے پاس بین ہے ؟
جی نہیں نہ تو میرے پاس بین ہے اور نہ مجھے بین بجانا آتا ہے۔
اچھا مجھے تمہاری صدق گوئی پسند آئی مگر تمہیں میرا رقص دیکھنے کے لیے پہلے تو بین کا بندو بست کرنا ہو گا اس کے بعد اس کو بجانا سیکھنا ہو گا ڈمرو!
ناگن کے منہ سے دوسری بار اپنا نام سن کر ڈمرو حیران رہ گیا وہ بولا اچھا تو تمہیں میرا نام بھی پتہ چل گیا۔ تم ناگن ہو یا جادو گر۔
میں ساحر ہوں نہ جادوگر۔ سفلی علم تو انسانوں ہی کا خاصہ ہے۔
اچھا تو کیا تمہارے قبضے میں کو ئی جن ہے جس نے تمہیں میرا نام بتلا دیا۔ ڈمرو کو ناگن سے باتوں میں لطف آ رہا تھا جس طرح تم لوگوں کو میری باتوں میں آ رہا ہے۔
مجمع نے ایک آواز میں تائید کی جی ہاں جھمرو بہت مزہ آ رہا ہے۔
ناگن نے جواب دیا نہیں جن ون کچھ بھی نہیں دراصل تم خواب میں بار بار اپنے آپ کوـڈمرو‘‘کہہکرکوسرہے تھے، میں سمجھ گئی کہ ہو نہ ہو تمہارا نام ڈمرو ہو گا۔ جب پہلی مرتبہ تم نے توجہ نہیں دی تو میں نے سوچا کہ میرا اندازہ غلط ہے لیکن اب تم نے تصدیق کر ہی دی۔
اچھا تو تم میری بات چیت سن رہی تھیں ؟
دراصل میں تو اس احمق اجگر کی پہرے داری کر رہی تھی۔ ایسے میں تم اپنے آپ سے باتیں کرنے لگے تو مجھے مجبوراً سننا پڑا۔
بہت خوب۔ اچھا تو اب اپنا نام بھی بتا دو۔
میرا کوئی نام نہیں ہے تم جس نام سے چاہو مجھے بلا سکتے ہو۔
اچھا تو میں تمہیں رانی کہہ کر بلاؤں گا بشرطیکہ تمہارے اجگر کو اعتراض نہ ہو۔
اجگر بیچارہ نہ سن سکتا ہے اور نہ بول سکتا ہے اس لئے اسے کیا اعتراض ہو سکتا ہے
اور سنو ناگن رانی اب تمہیں میں اپنے ساتھ لئے بغیر گھر نہیں جاؤں گا، کیا سمجھیں زندگی میں تم پہلی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ناگن ہو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ناگن نے بات آگے بڑھائی۔
جی ہاں وہی ناگن ہو جو مجھے اچھی لگی ہو۔ اس لئے تمہیں میرے ساتھ چلنا ہو گا۔
وہ تو ٹھیک ہے لیکن میری ایک شرط ہے۔ میں اپنے اس اجگر کے بغیر نہیں رہ سکتی اس لئے میرے ساتھ اسے بھی لے کر چلنا ہو گا۔
میں اسے برداشت کر لوں گا اب تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
لیکن کیا تمہاری بیوی کسی اجنبی کو اپنے گھر میں برداشت کر لے گی۔ ہمارے جنگل کا ایک قانون یہ بھی ہے کہ ایک بار جو جنگل سے گیا اسے باغی قرار دے دیا جاتا ہے اور پھر اسے جنگل میں رہنے کی اجازت نہیں ہوتی کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم نہ گھر کے رہیں نہ گھاٹ کے۔
جی نہیں۔ ایسا ہر گز نہیں ہو گا میری بیوی ٹم ٹم تمہاری طرح عقل مند نہیں ہے میں اسے سمجھا لوں گا۔
تمہارے خیال میں عقلمند کو سمجھانا مشکل کام ہے یا بے وقوف کو؟ ناگن نے سوال کیا
ڈمرو بولا عقلمند کے لئے خود کسی بات کو سمجھنا آسان ہے لیکن کسی اور کا اسے کوئی بات سمجھانا کٹھن ہے اس کے برعکس بیوقوف کا اپنے آپ کسی بات کا سمجھ لینا بہت مشکل ہے لیکن کوئی اور عقلمند اسے کو ئی بات سمجھائے تو وہ آسانی سے سمجھ جاتا ہے۔
ناگن بولی میں سمجھ گئی۔
کیا سمجھیں تم؟
یہی کہ تم جو ہو نہ، اپنی بیوی اور میرے اجگر کی طرح بیوقوف نہیں ہو۔
دونوں نے ایسا زوردار قہقہہ لگایا کہ بہرہ اجگر بھی جاگ گیا اور اپنی ناگن کے اطاعت میں ڈمرو کے گھر چلنے کے لیے راضی ہو گیا۔ ڈمرو حیرت سے یہ سب دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا انسان تو انسان جانور بھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ناگن نے کہا کیا سوچ رہے ہو ڈمرو؟
کچھ نہیں۔ چلو گھر چلتے ہیں ڈمرو بولا اور اسی کے ساتھ یہ تین نفری قافلہ ڈمرو کے گھر کی جانب روانہ ہو گیا۔
گھر پہنچنے کے بعد ڈمرو کے لیے ٹم ٹم کو سمجھانے منانے کی نوبت ہی نہیں آئی وہ خود ہی ناگن پر فریفتہ ہو گئی اور بولی میری ایک بہن تھی کم کم بالکل رانی کی طرح پٹر پٹر بولتی تھی لیکن اسے کسی سانپ نے ڈس لیا اور وہ بچپن ہی میں فوت ہو گئی چلو بھگوان نے مجھے اس کا نعم البدل عطا کر دیا اس طرح پانچ لوگوں کا یہ ایک نیا سنسار وجود میں آ گیا جس میں پانچواں جھمرو کا بیٹا ننھاسامرو تھا۔
دن گزرتے رہے نہ جانے کب ٹم ٹم بازار سے بین اور ڈگڈگی لے آئی اور ڈمرو کو مداری بنا دیا۔ ڈمرو کی بین پر ناگن ناچتی تھی اور ٹم ٹم کی ڈگڈگی پر ڈمرو اچھل کود کیا کرتا۔ ایک اجگر تھا جو اس تماشے کو خاموشی کے ساتھ دیکھا کرتا نہ کچھ سنتا اور نہ بولتا اس لئے کہ گونگا بہرہ تھا۔ ڈمرو اسے رشک سے دیکھتا اور سوچتا خاوند کے لیے گونگا اور بہرہ ہونا کس قدر مفید ہے۔
وقت کے ساتھ ڈمرو ایک ماہر مداری بن گیا تھا۔ وہ اپنے ساتھ جھمورا بھی رکھنے لگا تھا۔ رانی ہرسال ایک انڈا دیتی اجگر اس کو سینکا کرتا اور اس طرح ہر سال ایک نیا سانپ ان کے گھر میں جنم لیتا تھا۔ جس دن سانپ کا بچہ انڈے سے باہر آتا وہ لوگ ناگ پنچمی کا تہوار مناتے۔ جب وہ سانپ کھیل تماشے کے قابل ہو جاتا تو اسے جھمورا کو انعام کے طور پر دے دیا جاتا اس طرح جھمورے کی ترقی ہو جاتی اور وہ مداری بن جاتا اس موقع پر ٹم ٹم کی جانب سے اسے بین کا تحفہ دیا جاتا۔ ڈمرو بلا ارادہ اپنے آپ میں ایک ادارہ بن گیا تھا اس کے شاگرد اس کا بڑا احترام کرتے اور اسے اپنا گرو مانتے تھے۔
ڈمرو دن میں ناگن کے ساتھ مداری کا کھیل دکھلاتا شام میں لوٹ کر آتا تو ٹم ٹم اور اجگر کو انتظار میں پاتا۔ اجگر ناگن کی آہٹ پاتے ہی خوشی سے جھوم اٹھتا تھا اور اپنا دودھ کا پیالہ سرکا کر آگے لے آتا۔ ناگن ڈمرو کو بھول کر اپنے اجگر کے پاس چلی جاتی اور ڈمرو ٹم ٹم کی خدمت میں لگ جاتا۔ ایک روز ٹم ٹم نے ڈمرو سے کہا ایسا کب تک چلے گا؟
کیسا کب تک چلے گا ؟ میں کچھ سمجھا نہیں ؟ سوال در سوال کو سن کر رانی کے کان کھڑے ہو گئے تھے۔ وہ بھانپ گئی تھی کہ ٹم ٹم کیا کہنے والی ہے۔ آخر وہ بھی تو صنفِ نازک تھی اگر ٹم ٹم کی بات کو وہ نہیں سمجھتی تو کیا اجگر سمجھتا۔ بے چارہ گونکا اور بہرہ اجگر ! لیکن حیرت کی بات تو یہ تھی کی ڈمرو تو اجگر کی مانند گونگا اور بہرہ نہیں تھا۔ لیکن پھر بھی شوہر تو تھا۔ اجگر کی ہی طرح خدمت گار اور اطاعت گزار۔
ٹم ٹم بولی آپ کب تک اس طرح ڈگڈگی بجاتے رہیں گے ؟اور اپنا سامرو کب تک اس طرح آوارہ گردی کرتا رہے گا ؟ ٹم ٹم کا اشارہ اپنے جوان بیٹے سامرو کی طرف تھا۔
بیگم ان دونوں سوالوں کا جواب میرے پاس نہیں ہے، پہلے سوال کا جواب خود آپ کو دینا ہو گا اور دوسرے کا فیصلہ خود آپ کا فرزندِ ارجمند کرے گا۔
اگر ایسا ہے تو سنومیرا جواب اور فیصلہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
حکم ! ڈمرو سر جھکا کر بولا۔
کل سے آپ آرام کریں گے اور سامرو کھیل دکھلائے گا۔
اچھا لیکن میرا جھمورا اگر اس کا نائب بننے سے انکار کر دے تو؟
اپنی بلا سے۔ اور مجھے پتہ ہے ایسا ہی ہو گا۔
تو پھر کیا میں تمہارے سامرو کا جھمورا بن جاؤں۔
جی نہیں جھمورا بنیں تمہارے دشمن۔ میں نے ساری منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔ میں یہ سنپولا تمہارے موجودہ جھمورے کو دے کر اسے آزاد کر دوں گی، سامرو کے ساتھ جھمورا بنانے کے لیے میں نے تمہارے پرانے شاگرد کھڑک سنگھ کو تیار کر لیا ہے۔
کیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟کھڑک سنگھ تو سامرو کے باپ کی طرح ہے وہ اس کا جھمورا کیونکر بن سکتا ہے ؟
جانتی ہوں ؟ خود کھڑک سنگھ نہیں بلکہ اس کا لڑکا بھڑک سنگھ جھمورا بنے گا۔ اس کو راضی کرنے پر کھڑک سنگھ راضی ہو گیا ہے۔
بھڑک سنگھ تو بڑا بد معاش لونڈا ہے کہیں وہ اپنے سامرو کے لیے مصیبت نہ بن جائے۔
تم اپنے سامرو کو نہیں جانتے وہ اکیلا کئی بھڑکو پر بھاری ہے۔
لیکن کیا اپنے سامری کو بین بجانا آتا ہے ؟
جی نہیں۔ میں نے اسے سیکھنے کے لیے کہا تو بولا اس کی ضرورت نہیں۔ بھڑکو چپ چاپ ٹیپ ریکارڈر پر ناگن فلم کی دھن بجا دے گا اور میں منہ پر بین رکھ کر ہلاتا رہوں گا۔
لیکن اگر رانی کو پتہ چل گیا تو ؟
میں اسے سمجھا دوں گی بہن بین کی آواز سن کر تم اپنا رقص شروع کر دینا اب کیا فرق پڑتا ہے کہ وہ آواز کہاں سے آ رہی ہے۔ رانی سب کچھ سمجھائے بغیر ہی سمجھ گئی تھی۔
ڈمرو بولا ٹم ٹم تمہاری منصوبہ بندی بڑی زبردست ہے اس میں کسی قسم کا کوئی جھول دکھلائی نہیں دیتا۔ میں تو تمہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
بے وقوف سمجھتا تھا ؟ یہی کہنے والے تھے نا، ٹم ٹم بولی یہی سمجھتے رہو اس خوش فہمی میں ہم دونوں کی بھلائی ہے۔
ٹم ٹم اور ڈمرو کے بارے میں رانی کی رائے کب کی بدل چکی تھی اس لئے اسے کوئی حیرت نہیں ہوئی اور اجگر تو بیچارہ گونگا اور بہرہ تھا۔
پہلے ہی دن سامرو اور بھڑکو نے شہر کے سب سے بڑے چورا ہے پر مجمع لگایا۔ ناگن کی دھن کیا گونجی کہ لوگ جوق در جوق امڑ پڑے۔ رانی ڈمرو کے فراق میں ایسے جھوم کر ناچی کہ گھنگھرو ٹوٹ گئے۔ اب وقت تھا پیسے جمع کرنے کا۔ بھڑکو نے ناگن کی ٹوکری اٹھا کرسامرو کے دائیں سےچکر لگانا شروع کیا۔ ٹوکری میں روپیوں کی برسات ہو رہی تھی اور بھڑکو کی نیت خراب ہو رہی تھی اس نے اس قدر نوٹ پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے۔ سامرو کامیابی کے نشے میں مست جھوم رہا تھا۔ اسے اپنے اولین شو میں ایسی بڑی کامیابی کی توقع نہیں تھی۔ بھڑکو نے درمیان میں ایک منصوبہ بنا لیا اور جب بائیں جانب سے سامرو کے پیچھے پہنچا تو یہ جا وہ جا۔ مجمع کے ساتھ بھڑکو بھی چھٹ چکا تھا۔
سامرو اپنے خیالوں میں کھویا ہوا تھا کہ رانی بولی۔ بیٹے سا مرو، ہوش میں آؤ بھڑکو چمپت ہو چکا ہے۔
کیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟
جی ہاں بھڑکو موجود نہیں ہے۔
یہ سنتے ہی سامرو غصہ سے بھڑک اٹھا اور بولا کہاں بھاگ گیا وہ بد معاش ؟
یہ تو میں نہیں بتا سکتی۔ وہ تو تمہارا بچپن کا لنگوٹیا یار ہے، میرا نہیں۔
سامرو کو اپنے دوست کی دھوکہ دہی پر بے حد غصہ آ رہا تھا۔ بھڑکو نہ صرف ساری کمائی بلکہ رانی کی ٹوکری بھی لے بھاگا تھا۔ اب ایک مسئلہ یہ تھا کہ رانی کو لے کر کیسے جائے ؟ آتے وقت تو سارا سامان بھڑکو ڈھو کر لایا تھا لیکن اب وہ غائب تھا۔ سامرو نے سامان سمیٹا اور رانی کو دیکھنے لگا۔
وہ بولی کیا دیکھ رہے ہو بیٹا۔
وہ۔ ۔ ۔ ۔ بات دراصل یہ ہے کہ بھڑکو آپ کی ٹوکری بھی لے بھاگا کمبخت۔ میں سوچ رہا تھا کہ اب آپ کو کیسے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
رانی مسکراکر بولی سامرو تم بالکل اپنے باپ پر گئے ہو ماں کا سا یہ تم پر نہیں پڑا۔
میں سمجھا نہیں ؟ آپ کیا کہہ رہی ہیں۔
خیر چھوڑو ہر بات کا سمجھنا ضروری بھی تو نہیں اور کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں جن کا نہ سمجھنا مفید تر ہوتا ہے۔
میں پھر نہیں سمجھا۔
خیر کوئی بات نہیں تم مجھے لے جانے کے بارے میں سوچ رہے تھے نا؟
جی ہاں۔
تم مجھے اسی طرح لے چلو جیسے تمہارا باپ کئی سال قبل مجھے جنگل سے لایا تھا۔
اچھا وہ کیسے ؟
اپنی آ ستین میں رکھ کر۔
اچھا۔
جی ہاں، میں گھر تک تمہاری آستین سے لپٹ جاتی ہوں۔
اوہو یہ تو بہت آسان ہے۔
سامرو اپنے سر پر مداری کا سامان اٹھائے اور آستین میں رانی کو لپیٹے گھر کی جانب رواں دواں تھا لیکن اس کا دماغ بھڑکو کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ اس کو سوائے بھڑکو کی بے وفائی کے کچھ اور نظر نہیں آ رہا تھا وہ انتقام کی آگ میں جل رہا تھا کہ اچانک رانی نے دیکھا اسی ویران سڑک پر آگے آگے بھڑکو چلا جا رہا ہے۔ رانی نے سوچا بیچارہ نہیں جانتا کہ اس کی موت اس کے پیچھے کس قدر قریب ہو گئی ہے۔
انسانوں کے ساتھ اس قدر طویل عرصہ رہتے رہتے رانی اپنے آپ کو بھی انسان سمجھنے لگی تھی اور بھڑکو جیسے موذی لو گوں کو سانپ بچھو گرداننے لگی تھی۔ رانی نے جب دیکھا کہ سامرو سامنے سے جاتا ہوا اپنا شکار نہیں دیکھ رہا ہے تو وہ بولی۔ وہ دیکھو آستین کا سانپ۔ اس کا سر کچل دو۔
سامرو نے بے خیالی میں یہ جملہ سنا ہاتھ کو جھٹکا۔ رانی جیسے ہی زمین پر گری اس کا سر کچل دیا۔ سارے خیمے کو سانپ سونگھ گیا تھا۔
اسی کے ساتھ بولتی ناگن زندہ باد کا شور اچانک کسی کونے سے بلند ہوا اور دھیرے دھیرے وہ آسمان کو چھونے لگا۔ یہ چیونٹیوں کا شور تھا جو چہار جانب سے بولتی ناگن کے آس پاس جمع ہو رہی تھیں۔ ناگن مر چکی تھی اب اس سے کسی کو کوئی خطرہ نہیں تھا۔ اس روز چیونٹیوں کی خاطر گویا دعوتِ شیراز کا اہتمام تھا۔ جشن بپا تھا چہار جانب سے چیونٹیوں کا ٹڈی دل ناچتا گاتا، شور مچاتا ناگن کی لاش پر ٹوٹ پڑا تھا۔ چیونٹیاں ضیافت کا لطف اندوز ہوتے ہوئے درمیان میں بولتی ناگن زندہ باد کا نعرہ بھی بلند کر دیتی تھیں لیکن اسے سننے والا ڈمرو وہاں موجود نہیں تھا۔ سامرو تو تھا مگر اژدہے کی مانند گونگا اور بہرہ۔
بظاہر چاروں طرف سناٹا چھایا ہوا تھا۔ دیکھتے دیکھتے اس سناٹے نے جھمرو کے خیمے کو بھی نگل لیا کچھ دیر خاموشی چھائی رہی اور پھر آہستہ آہستہ بھیڑ چھٹنے لگی۔ اب نہ وہاں ڈمرو تھا نہ سامرو، نہ کھڑک سنگھ تھا اور نہ بھڑک سنگھ، نہ ٹم ٹم تھی نہ رانی بس اجگر اور اسکیمانند جھمرو رہ گیا تھا جو نہ سن سکتا تھا اور نہ بول سکتا تھا۔ اجگر اور جھمرو دونوں سوئے پڑے تھے۔ اس لئے کہ نہ تو کسی کے پاس رامپوری چاقو تھا اور نہ ہی کسی کو اپنے نگل لئے جانے کا خوف تھا۔
٭٭٭