تعارف اور پس منظر
’’شکوہ‘‘ انجمن حمایت اسلام لاہور کے چھبیسویں سالانہ جلسے میں پڑھی گئی جو اپریل ۱۹۱۱ء میں ریواز ہوسٹل، اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور میں منعقد ہوا تھا۔ اس اجلاس کی صدارت فقیر سیّد افتخار الدین نے کی تھی۔
ایک شاعر کی حیثیت سے علّٓامہ اقبال کی شہرت و مقبولیت میں انجمن کے جلسوں کو بڑا دخل ہے۔ ان جلسوں میں نظمیں پڑھنے کی ابتدا انھوں نے ۱۹۰۰ء میں کی( ’نالۂ یتیم‘)۔ ۱۹۰۱ء میں ’یتیم کا خطاب ہلالِ عید سے‘، ۱۹۰۲ء میں ’اسلامیہ کالج کا خطاب پنجاب سے‘، ۱۹۰۳ء میں ’ابر گوہر بار‘ (فریادِ امت) اور ۱۹۰۴ء میں ’تصویر درد‘ پڑھی گئی۔ ۱۹۰۵ء میں اقبال کوئی نظم نہ پڑ سکے اور اعلیٰ تعلیم کے لیے یورپ چلے گئے۔
۱۹۰۸ء میں یورپ سے واپسی کے بعد اقبال نے انجمن کے سالانہ جلسے میں ’شکوہ‘ پڑھی۔ اس جلسے میں علّٓامہ کے والد محترم شیخ نور محمد بھی موجود تھے۔ انجمن کے جلسوں کے لیے اقبال جو نظم لکھتے، بالعموم اسے پہلے سے چھپوا لیا جاتا۔ نظموں کی یہ مطبوعہ کاپیاں جلسوں میں فروخت کی جاتیں اور اس کی آمدنی انجمن کو چندے کے طور پر دے دی جاتی مگر ’’شکوہ‘‘ پڑھنے سے پیشتر طبع نہیں کرائی گئی تھی۔ جلسے میں نظم پڑھنے سے پہلے اقبالؒ نے ایک قطعہ سنایا اور اس کے بعد ’شکوہ‘ خلاف معمول تحت اللفظ پڑھنا شروع کی۔ سامعین نے ترنم سے سنانے پر اصرار کیا کیونکہ اس سے پہلے وہ اپنی نظمیں ترنّم ہی سے پڑھا کرتے تھے۔ اقبال نے جواب دیا: ’’یہ اسی طرح سنائی جائے گی کیونکہ میں بہتر جانتا ہوں کہ نظم پڑھنے کا کون سا طریقہ موزوں ہے‘‘۔ چنانچہ تحت اللفظ پڑھی گئی مگر بقول غلام رسول مہر: انداز اس درجہ دل آویز تھا کہ جن خوش نصیبوں نے سنی، وہ زندگی کے آخری لمحوں تک اسے نہ بھولیں گے۔ (سرودِ رفتہ: ص ۶) اس نظم کی جو کاپی اقبال اپنے قلم سے لکھ کر لائے تھے، اس کے لیے متعدد اصحاب نے مختلف رقوم پیش کیں۔ نواب ذوالفقار علی خاں نے ایک سو روپے کی پیش کش کی اور رقم ادا کر کے اصل نظم انجمن کو دے دی۔
علّٓامہ اقبال جب نظم پڑھ چکے تو ان کے ایک بڑے مدّاح اور قدر شناس خواجہ صمد آگے بڑھے اور جوش مسرت میں اپنا قیمتی دوشالا ان کے شانوں پر ڈال دیا۔ اقبال نے یہ دوشالا اسی وقت انجمن کے منتظمین کو دے دیا۔ اس کے بعد یہ یادگار اور متبرک دوشالا اس مجمع عام میں نیلام کیا گیا اور سب سے بڑی بولی ختم ہونے پر جو رقم وصول ہوئی، وہ انجمن حمایت اسلام کی تحویل میں دے دی گئی۔ (روزگار فقیر اول: ص ۱۲۳)
اقبال نے انجمن کے جلسے میں شکوہ جس شکل میں پڑھی تھی، بانگِ درا میں شامل کرتے وقت اس میں کئی مقامات پر تبدیلی کی گئی۔ مثلاً:
تیرھویں بند کے چوتھے مصرعے کی ابتدائی صورت یہ تھی:
تیرے قرآن کو سینے سے لگایا ہم نے
سترھویں بند کا پانچواں مصرع ابتدائی شکل میں اس طرح تھا:
طعنِ اغیار ہے، رسوائی و ناداری ہے
پچیسویں بند کا پانچواں مصرع ابتدائی شکل میں اس طرح تھا:
پھر پتنگوں کو مذاقِ تپش اندوزی دے
بانگِ دراکی اشاعت سے پہلے، یہ نظم مختلف رسالوں، مثلاً: پنجاب ریویو، مخزن، تمدن اور ادیب میں شائع ہوئی تھی۔ متعدد زبانوں (انگریزی، عربی، بنگالی، پنجابی) میں اس کے بہت سے تراجم بھی شائع ہو چکے ہیں۔ ایک آرٹسٹ ضرار احمد کاظمی نے نظم کو مصور کر کے علّٓامہ کی خدمت میں پیش کیا جسے انھوں نے بہت پسند کیا اور مصور کے نام ایک مکتوب میں اس کی تعریف کی۔
’’شکوہ‘‘ کی تالیف (اوائل ۱۹۱۱ء) کے زمانے میں سلطنت عثمانیہ کے بہت سے علاقے براہِ راست برطانوی تسلط میں تھے۔ ایران پر عملاً روسی، برطانوی اور کسی حد تک جرمن اثرات کی حکمرانی تھی۔ ادھر عرب نیشنلزم کے اثرات تیزی سے پھیل رہے تھے۔ لارنس آف عریبیا جیسے لوگ بڑی سرگرمی سے اس کے لیے کام کر رہے تھے اور عرب، ترکوں کے خلاف آمادۂ بغاوت تھے۔ نوجوان ترکوں کی تحریک کے زیر اثر ترکی میں لادینیت اور تورانی قوم پرستی فروغ پار ہی تھی۔ اندرونی خلفشار کے علاوہ بیرونی طاقتیں عثمانی سلطنت کے لیے نت نئے مسائل کھڑے کر رہی تھیں۔ صہیونی، سلطنتِ عثمانیہ کی بربادی اور خاتمے کے لیے سازشوں میں مصروف تھے۔ ہندی مسلمان یا تو کانگریس کے حاشیہ بردار تھے یا ان میں (الا ماشاء اللہ) Yours most obedient servant قسم کے رہنما پائے جاتے تھے جو مغرب سے بے حد مرعوب تھے اور سر سیّد تحریک کے زیر اثر وہ اسلام کے بارے میں معذرت خواہانہ اندازِ فکر رکھتے تھے۔ ملک پر انگریزوں کی سیاسی گرفت خاصی مضبوط تھی۔ ہندو ؤں کے دباؤ کی وجہ سے ۱۹۱۱ء میں تقسیم بنگال کی تنسیخ سے مسلمانوں کو بے حد صدمہ ہوا اور ان کے اندر مایوسی کچھ اور بڑھ گئی۔
فکری جائزہ
موضوع کے اعتبار سے ’’شکوہ‘‘ بارگاہِ الٰہی میں دورِ حاضر کے مسلمانوں کی ایک فریاد ہے کہ ہم تیرے نام لیوا ہونے کے باوجود دنیا میں ذلیل و رسوا ہیں اور یہ شکوہ بھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی امت تو ہم ہیں: ’’کچھ بھی ہیں لیکن تیرے محبوب کی امت میں ہیں‘‘ (آغا حشر کاشمیری) مگر انعامات و نوازشات کی بارش غیر مسلموں پر ہو رہی ہے۔ گویا علّٓامہ اقبالؒ نے اس نظم میں عام مسلمانوں کے لاشعوری احساسات کی ترجمانی کی ہے۔ معروف دانش ور، نقاد اور شاعر سلیم احمد (م: ۱۹۸۳ء) کے الفاظ میں: ’’ایک طرف ان کا یہ عقیدہ ہے کہ وہ خدا اور اس کے محبوبؐ کی سب سے چہیتی امت ہیں اور اس لیے خدا کی ساری نعمتوں کی سزاوار، اور دوسری طرف یہ ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ ان کا مکمل زوال ہو چکا ہے۔ عقیدے اور حقیقت کے اس ٹکراؤ سے مسلمانوں کا وہ مخصوص المیہ پیدا ہوتا ہے جو ’’شکوہ‘‘ کا موضوع ہے‘‘۔ (اقبال: ایک شاعر، ص ۸۹) اقبال کے اپنے الفاظ میں: ’’وہی بات جو لوگوں کے دلوں میں تھی، ظاہر کر دی گئی‘‘۔
سلسلۂ فکر و خیال کی ترتیب کے مطابق نظم کو مندرجہ ذیل حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے ہم اس کا مطالعہ و تجزیہ کریں گے:
۱۔ تمہید: اظہارِ شکوہ کی توجیہ بند ۱-۲
۲۔ امت مسلمہ کا کارنامہ بند ۳-۱۳
۳۔ مسلمانوں کی حالتِ زبوں بند ۱۴-۱۹
۴۔ حالتِ زبوں کی وجہ کیا ہے ؟ بند ۲۰- ۲۳
۵۔ کیفیتِ یاس و بیم بند ۲۴-۲۶
۶۔ دعائیہ اختتام بند ۲۷-۳۱
اظہارِ شکوہ کی توجیہ:
نظم کے پہلے دو بند تمہیدی ہیں جن میں اظہارِ شکوہ کی توجیہ بیان کی گئی ہے۔ یہ مسلمانوں کی موجودہ بد حالی اور پستی پر اقبال کے ردّ عمل کا اظہار ہے۔ ان کے خیال میں مسلمان انحطاط کی اس کیفیت کو پہنچ چکے ہیں کہ اس پر خاموش رہنا نہ صرف اپنی ذات بلکہ ملک کے اجتماعی مفاد سے بھی غداری کے مترادف ہے۔ اس موقع پر قصۂ درد سنانا اگرچہ خلافِ ادب ہے اور نالہ و فریاد کا یہ انداز گستاخی کی ذیل میں آتا ہے، مگر ہم ایسا کرنے پر مجبور ہیں …… خدا مجھے معاف کرے کہ میں (تسلیم و رضا کا رویّہ اختیار کرنے کے بجائے) اس سے شکوہ کرنے چلا ہوں …… کسی لمبے چوڑے پس منظر یا غیر ضروری طول طویل تمہید کے بغیر باری تعالیٰ سے براہِ راست گفت گو، اس اسلامی تصوّر پر مبنی ہے کہ بندہ اپنے خدا سے بلا واسطہ ہم کلام ہو سکتا ہے۔ قرآن حکیم میں فرمایا: وَقَالَ رَبُّکُمْ اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ (سورۃ المومن: ۴۰) تمھارا رب کہتا ہے: مجھے پکارو، میں تمھاری دعائیں قبول کروں گا۔
واضح رہے کہ جملہ مذاہب میں یہ انفرادیت صرف اسلام ہی کو حاصل ہے۔ ورنہ ہندو مت اور نصرانیت میں پروہت اور پادری بندے اور خدا کے درمیان واسطہ بنتے ہیں۔ علّٓامہ اقبال اس رویّے پر احتجاج کرتے ہیں:
کیوں خالق و مخلوق میں حائل رہیں پردے
پیرانِ کلیسا کو کلیسا سے اٹھا دو
بد قسمتی سے مسلمانوں کے ہاں بھی اب ایک ایسا طبقہ پیدا ہو گیا ہے جو بندے اور خدا کے درمیان توسّل کا دعویٰ کر کے مذہبی اجارہ داری کے غیر اسلامی تصور کو فروغ دے رہا ہے۔ عابد علی عابد کہتے ہیں: ’’اقبال ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پڑھنے والوں کو اس طرزِ تخاطب سے آشنا کرنا چاہتا ہے … اقبال نے شکوے کے پہلے دو بندوں ہی میں بات یا موضوعِ سخن کو اس منزل تک پہنچا دیا کہ بعد کی شکوہ سرائی اور گلہ مندی بالکل مو زوں اور مناسب معلوم ہوتی ہے‘‘۔ (شکوہ، جوابِ شکوہ: ص ۱۱)
امت مسلمہ کا کارنامہ:
تیسرے بند سے نظم کے اصل موضوع پر اظہارِ خیال کا آغاز ہوتا ہے۔ ۱۳ویں بند تک اقبال نے امت مسلمہ کے عظیم الشان کارناموں کا تذکرہ کر کے دنیا میں اس کی حیثیت و اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ سب سے پہلے (بند ۳ تا ۵) دنیا کی حالت اور تاریخ کا منظر پیش کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ:
ا: خدا کی ذات ازل ہی سے جملہ سچائیوں سمیت موجود تھی۔
ب: بڑی بڑی قومیں (سلجوقی، تورانی، ساسانی، یونانی، یہودی، نصرانی) دنیا پر چھائی ہوئی تھیں اور ان میں سے بعض کی عظیم الشان سلطنتیں بھی قائم تھیں۔
ج: لوگ شجر و حجر کو معبود بنا کر شرک اور گمراہی و ضلالت کی تاریکیوں میں بھٹک رہے تھے۔ گویا یہ پس منظر ہے امت مسلمہ کے بے نظیر کارناموں کا اور اس سے تاریخ کی اسٹیج پر مسلمانوں کی اہمیت بھی واضح ہوتی ہے۔ اور اب (بند ۶ تا ۱۳) ان کارناموں کا مفصل بیان ہوتا ہے۔
اقبال بتاتے ہیں کہ ساری دنیا میں یہ شرف صرف مسلمانوں کو حاصل ہے کہ انھوں نے خدا کے پیغام کو دنیا کے دور دراز کونوں تک پہنچا دیا۔ روم و ایران کی فتح ان کا حیرت انگیز کارنامہ تھا۔ ان کی محنت و کاوش اور ہمت کا نتیجہ یہ نکلا کہ دنیا میں ہر طرف جَآءَ الْحَقُّ وَ زَہَقَ الْبَاطِلُ کا سماں نظر آنے لگا۔ نظم کے اس حصے میں اقبال نے تاریخ اسلام کے جن ادوار و واقعات کی طرف اشارہ کیا ہے، مختصراً ان کی وضاحت ضروری ہے:
’’دیں اذانیں کبھی یورپ کے کلیساؤں میں‘‘ کا اشارہ سلطنت عثمانیہ کے اس دور کی طرف ہے۔ جب مسلمانوں کی سلطنت یونان، البانیہ، بلغاریہ، ہنگری اور آسٹریا تک پھیلی ہوئی تھی۔
پھر اس زمانے کا تصو ّر کیجیے جب اٹلی کے کچھ حصوں اور سپین پر بھی مسلمانوں کی حکومت تھی۔ یورپ کے ان علاقوں میں جہاں آج کلیساؤں میں ناقوس بجتے ہیں، کبھی ہماری اذانیں گونجتی تھیں۔ اسی طرح افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں کا علاقہ مصر، لیبیا، تیونس، الجزائر، مراکش وغیرہ بھی مسلم سلطنت میں شامل تھا۔ ’’شان آنکھوں میں نہ جچتی تھی جہاں داروں کی‘‘ کی عملی تفسیر اس واقعے میں ملتی ہے جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں مسلم وفد کے قائد ربعی بن عامر، ایرانی سپہ سالار رستم سے گفت و شنید کے لیے اس کے دربار میں گئے تو ایرانیوں نے مسلمانوں کو مرعوب کرنے کے لیے دربار کو بڑے ساز و سامان سے سجا رکھا تھا۔ ربعی اپنے نیزے سے قیمتی قالین کو چھیدتے ہوئے درباری ہیبت سے بے پروا ہو کر تخت کے قریب جا پہنچے اور نیزہ زمین پر مارا جو قالین کو چھیدتا ہوا زمین میں گڑ گیا۔
ساتویں بند میں بت فروشی اور بت شکنی کی تلمیح سلطان محمود غزنوی کے عظیم الشان تاریخی کارنامے فتح سومنات کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ محمود نے ہندو پجاریوں کی رشوت کو ٹھکراتے ہوئے سومنات کے بت کو پاش پاش کر دیا اور کہا: ’’میں بت فروش کی بجائے بت شکن کہلانا پسند کروں گا‘‘۔ ایاز محمود کا چہیتا غلام تھا۔
درِ خیبر اکھاڑنے کا واقعہ (بند ۹) دورِ نبویؐ میں پیش آیا۔ خیبر یہودیوں کا قلعہ تھا جو حضورؐ کی سرکردگی میں حضرت علیؓ کے ہاتھوں فتح ہوا۔ ’’شہر قیصر‘‘ سے مراد قسطنطنیہ (موجودہ نام استامبول) ہے جو مسلمانوں نے سلطان محمد فاتح کی سرکردگی میں ۱۴۵۳ء میں فتح کیا۔ ایران کے مجوسی آگ کی پوجا کرتے تھے۔ مسلمانوں نے ایران کو فتح کر کے مجوسیت کا خاتمہ کیا اور آتش کدۂ ایران کو ٹھنڈا کر دیا۔
بحر ظلمات سے مراد بحر اوقیانوس (Atlantic) ہے۔ ’’بحر ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے‘‘ یہ اشارہ ہے اس معروف واقعے کی طرف جب ایک مسلمان مجاہد عقبہ بن نافع نے افریقہ کے آخری سرے تک پہنچ کر اپنے گھوڑے کو بحر اوقیانوس میں ڈال دیا اور بڑی حسرت سے کہا: ’’خدایا اگر یہ بحر ذخّار درمیان میں حائل نہ ہوتا تو تیرے راستے میں جہاد کرتا ہوا اسی طرح آگے بڑھتا ہوا چلا جاتا‘‘۔ یہ جگہ مراکش میں شرف العقاب کے نام سے موسوم ہے۔
مسلمانوں کی حالتِ زبوں:
امت مسلمہ کے درخشندہ ماضی کی جھلکیاں دکھاتے ہوئے سلسلۂ خیال مسلمانوں کی موجودہ حالت کی طرف مڑ جاتا ہے۔ یہاں اقبال نے دوسری قوموں سے ان کا موازنہ کر کے ان کی موجودہ حالت زبوں کو نمایاں کیا ہے۔ کہتے ہیں کہ دنیا میں مسلمان ہر جگہ ہی غیر مسلموں کے مقابلے میں حقیر، ذلیل اور رسوا ہیں۔ دوسری قومیں ان پر خندہ زن ہیں۔ نظم کے اس حصے میں صحیح معنوں میں گلے اور شکوے کا رنگ پایا جاتا ہے۔ اقبال نے مسلمانوں کی بے بسی و بے چارگی کا واسطہ دے کر خدا سے پوچھا ہے کہ توحید کے نام لیواؤں پر پہلے جیسا لطف و کرم کیوں نہیں ؟۔ اس کے ساتھ ہی شاعر نے ایک طرح کی تنبیہ بھی کی ہے کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو دنیا توحید کے نام لیواؤں سے خالی ہو جائے گی اور ڈھونڈے سے بھی ایسے عشاقانِ توحید کا سراغ نہیں ملے گا۔
حالتِ زبوں کی وجہ کیا ہے ؟
اب (آغاز بند ۲۰) اقبال اس حالت زبوں کا سبب دریافت کرتے ہیں۔ مسلمان آج بھی خدا کے نام لیوا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے پیروکار ہیں۔ آج بھی ان کے دلوں میں اسلام کے بارے میں ایک زبردست جوش و جذبہ اور کیفیت عشق موجود ہے۔ اقبال متاسف ہیں کہ اس کے باوجود عنایات خداوندی سے محروم ہیں۔
نظم کے اس حصے میں (بند ۲۰- ۲۳) میں اقبال نے بہت سی تلمیحات استعمال کی ہیں۔ لیلیٰ، قیس، دشت و جبل، شورِ سلاسل، اور دیوانہ نظارۂ محمل کی تراکیب و تلمیحات مشہور تاریخی کردار قبیلۂ بنو عامر کے قیس مجنوں سے متعلق ہیں۔ روایت ہے کہ قیس بنی عامر لیلیٰ کے عشق میں دیوانہ ہو کر نجد کے صحراوں میں کی خاک چھانتا پھرتا تھا۔ شاعری میں بکثرت استعمال کے سبب ان تلمیحات کے مفاہیم و معانی میں بہت گہرائی اور وسعت پیدا ہو چکی ہے۔ اقبال کے بعض شارحین نے ’’نجد کے دشت و جبل میں رمِ آہو بھی وہی‘‘ میں ’’رمِ آہو‘‘ سے صفا مروہ کی سعی مراد لی ہے جو حج کا ایک رکن ہے۔ حضرت سلمان فارسیؓ آں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے جلیل القدر صحابی تھے۔ اویس قرنیؒ مشہور تابعی ہیں جنھیں اگرچہ آں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی زیارت نصیب نہ ہو سکی، مگر آپؐ سے غایت درجہ محبت و شیفتگی رکھتے تھے۔ ۳۷ھ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان ہونے والی ایک جنگ میں شہید ہوئے۔ حضرت بلالؓ حبشی آں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے برگزیدہ صحابی اور مؤذن رسولؐ تھے۔ شدید ترین دورِ ابتلا میں بھی ان کے پائے ثبات میں لغزش نہیں آئی اور وہ توحید پر قائم رہے۔ کفار انھیں دوپہر کے وقت تپتی ریت پر لٹا کر سینے پر بھاری پتھر رکھ دیتے اور ترک اسلام پر زور دیتے مگر وہ اس حالت میں بھی اَحَدٌ اَحَدٌ پکارتے رہتے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے والہانہ عشق تھا۔ فاران، سعودی عرب میں واقع ایک پہاڑ کا نام ہے۔ ’’سرِ فاراں پہ کیا دین کو کامل تو نے‘‘ سے مراد ہے کہ دین کی تکمیل خطۂ عرب میں ہوئی۔ اشارہ ہے قرآن حکیم کی اس آیت کی طرف جس میں فرمایا گیا:
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا (سورۃ المائدہ: ۳) آج میں نے تمھارے دین کو تمھارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمھارے لیے اسلام کو تمھارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے۔
کیفیت یاس و بیم:
۲۴ ویں بند سے اقبال کا لہجہ مائل بہ یاس ہے۔ یہ دو بند (۲۴، ۲۵) در اصل نظم کے اس حصے کا تتمّہ ہیں جس میں مسلمانوں کی حالتِ زبوں کو بیان کیا گیا ہے۔ یہاں شاعر نے مسلمانوں کی بدحالی، بے چارگی اور بے بسی کا ذکر ایک مایوسانہ انداز میں کیا ہے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ یہاں امید و بیم کی ایک کیفیت (بند ۲۶) بھی موجود ہے۔ شاعر معترف ہے کہ مایوسی اور تاریکی کے اس دور میں بھی مسلمانوں کے دلوں میں ایمانی حرارت کی دبی دبی چنگاریاں سلگ رہی ہیں اور وہ اسلامی نشاتِ ثانیہ کے لیے بے چین و مضطرب ہیں۔
اب اس حصے سے نظم خاتمے کی طرف چلتی ہے۔
دعائیہ اختتام
یاس و بیم کی اس صورت حال کا نتیجہ غیر یقینی ہے۔ مگر اقبال کی خواہش یہ ہے کہ دورِ حاضر کے مسلمانوں کے دل پھر دینی جوش و جذبے سے لبریز ہو جائیں۔ کوہ طور پر تجلیاتِ الٰہی پھر نازل ہوں کیونکہ طور، نورِ خدا کی آگ میں جلنے کے لیے بے تاب ہے یعنی مسلمان اسلامی شوکت و عروج کے لیے تڑپ رہے ہیں۔ (طور جزیرہ نماسینا میں واقع ایک سلسلۂ کوہ کی ایک اونچی پہاڑی کا نام ہے جس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام، اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہوتے تھے۔) نظم کے آخری حصے میں شاعر کی یہ آرزو ایک دعا کی شکل میں ڈھل جاتی ہے۔ دعا کا یہ سلسلۂ خیال ۲۷ ویں شعر سے شروع ہو کر نظم کے آخری شعر تک چلتا ہے۔ امت مسلمہ کو جن مسائل و مشکلات کا سامنا ہے، اقبال ان کے حل کے لیے دعا گو ہیں۔ ’’امت مرحوم‘‘ کی ترکیب بہت معنی خیز ہے۔ مراد یہ ہے کہ مسلمان بحیثیت ایک قوم کے مردہ ہو چکے ہیں۔ ان کی حیثیت سلیمان علیہ السلام کے مقابلے میں ’’مورِ بے مایہ‘‘ کی سی ہے۔ شاعر کی آرزو ہے کہ یہ کم حیثیت اور فرومایہ قوم انگڑائی لے کر اٹھ کھڑی ہو اور کارگہِ دنیا میں ترقی یافتہ اقوام جیسا بلند مقام حاصل کر لے۔ (قرآن پاک کی سورۃ النمل میں حضرت سلیمان علیہ السلام اور چیونٹی کا قصہ مذکور ہے۔ ) ہند کے ’’دیر نشینوں‘‘ سے مراد یہ ہے کہ ہندی مسلمانوں نے اپنے بہت سے معاملات و معمولات اور ثقافت و تمدن میں ہندوؤں کے طور طریقوں اور رسوم و رواج کو اپنا لیا ہے۔
اقبال نے نظم کے اس آخری حصے میں یہ دعا ضرور کی ہے کہ مسلمانوں کا مستقبل روشن اور خوش آیند ہو اور ہونا چاہیے مگر یہ نہیں کہا کہ ’’ہو گا‘‘۔ یعنی تیقن کے ساتھ امید نہیں دلائی کہ فی الواقع سنہرا مستقبل ان کا منتظر ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ’’شکوہ‘‘ کا دور دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے انتہائی پُر آشوب زمانہ تھا اور مستقبل کے بارے میں کسی طرح کی حتمی پیش گوئی مشکل تھی۔ مجموعی طور پر حالات مایوس کن تھے۔ چند ماہ بعد ہی ستمبر ۱۹۱۱ء میں اٹلی نے طرابلس پر حملہ کر کے مسلمانوں کو ایک اور چرکا لگایا۔ اسی مایوسی کے پیش نظر اقبال کو خدا سے ’’شکوہ‘‘ کرنا پڑا۔ مایوسی کا ایک انداز یہ ہے کہ:
اس گلستاں میں مگر دیکھنے والے ہی نہیں
داغ جو سینے میں رکھتے ہوں وہ لالے ہی نہیں
یعنی مسلمانوں میں درد مند اہل دل شاذ ہیں اور احیائے اسلام کی پکار پر کوئی توجّہ ہی نہیں دیتا۔
اس حصے میں اقبال نے ’’بلبلِ تنہا‘‘ کا تذکرہ بھی کیا ہے جو اب تک محوِ ترنم ہے، وہ اپنی ’’بانگِ درا‘‘ سے اہل چمن کے دلوں کو چاک کر دینا چاہتا ہے۔ ظاہر ہے کہ بلبل سے مراد اقبال کی اپنی ذات ہے۔ کہنا یہ چاہتے ہیں کہ اس عالم یاس میں بھی، مسلم نشأتِ ثانیہ اور احیائے دین کے لیے مجھ سے جو خدمت ہو سکتی ہے، اسے بجا لانے کے لیے کوشاں ہوں۔ اگرچہ میں تنہا ہوں اور کوئی شخص میری آواز پر کان نہیں دھرتا:
کاش گلشن میں سمجھتا کوئی فریاد اس کی
فنی تجزیہ
’’شکوہ‘‘ مسدس ترکیب بند ہیئت کے ۳۱ بندوں پر مشتمل ہے۔ بحر کا نام بحر رمل مثمن مخبون مقطوع ہے۔ بحر کے ارکان یہ ہیں: فَاعِلَاتُنْ فَعِلَاتُنْ فَعِلَاتُنْ فِعْلُنْ
اقبال کی طویل نظموں میں ’’شکوہ‘‘ ایک منفرد مقام رکھتی ہے۔ یہ پہلی طویل نظم ہے جس میں اقبال نے مسلمانوں کے دورِ عظمت و شوکت اور ان کی موجودہ زبوں حالی کو ایک ساتھ نہایت فن کارانہ انداز میں بیان کیا ہے۔ انداز شکوے کا ہے اور شکوہ بھی اللہ سے۔ اردو کا شعری سرمایہ اس انداز سے بالکل نا آشنا تھا۔ بقول ماہر القادری:
اک نئی طرز، نئے باب کا آغاز کیا
شکوہ اللہ کا، اللہ سے بصد ناز کیا
شاعر نے نظم کا آغاز بہت سلیقے اور ہنر مندی سے کیا ہے۔ اصل موضوع پر آنے سے پہلے اقبال نے اظہارِ شکوہ کی توجیہ پہلے دو بندوں میں کر دی ہے تاکہ ایک نیا اور نادر موضوع اچانک سامنے آنے پر قاری کو جھٹکا محسوس نہ ہو۔
لہجے کا تنوع
کسی برگزیدہ اور برتر ہستی کے سامنے شکوہ کرنے والا اپنی معروضات پیش کرتے ہوئے، حسب ضرورت مختلف انداز اختیار کرتا ہے۔ چنانچہ اقبال کے شکوے کا لہجہ بھی متنوع ہے۔ کہیں عجز و نیاز مندی ہے، کہیں اپنی غیرت و انا کا احساس ہے، کہیں تندی و تلخی اور جوش ہے، کہیں تاسف و مایوسی کا لہجہ ہے اور کہیں زاری و دعا کا انداز ہے۔
نفسیاتی حربے
اقبال کے فن کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے نظم میں بعض مقامات پر نفسیاتی حربوں سے کام لیتے ہوئے ایک ہی بیان سے دہرا کام لیا ہے۔ ۱۵ ویں بند کے آخری شعر سے نظم کا وہ حصہ شروع ہوتا ہے، جہاں شاعر خدا سے اس کی بے اعتنائی اور بے نیازی کا گلہ شکوہ کر رہا ہے۔ اس کے ساتھ وہ کہتا ہے:
خندہ زن کفر ہے، احساس تجھے ہے کہ نہیں ؟
اپنی توحید کا کچھ پاس تجھے ہے کہ نہیں ؟
______
پھر نہ کہنا ہوئی توحید سے خالی دنیا
______
ہم تو جیتے ہیں کہ دنیا میں ترا نام رہے
______
کیا ترے نام پر مرنے کا عوض خواری ہے ؟
اس طعن آمیز انداز سے مخاطب کی انا اور غیرت کو جھنجھوڑ کر یہ احساس دلانے کی کوشش کی گئی ہے کہ یہ میرا نہیں، تمھارا مسئلہ ہے۔ نفسیاتی حربے کی ایک اور مثال یہ ہے کہ بند ۱۶-۲۲ میں شاعر بظاہر خدا سے بے اعتنائی کا سبب پوچھ رہا ہے مگر بیان اور سوال کا انداز ایسا ہے کہ شکوہ کرنے والے کی اپنی کمزوریاں ظاہر ہو رہی ہیں، مثلاً: ’’کیوں مسلمانوں میں ہے دولتِ دنیا نایاب؟‘‘ کہتے ہوئے شکوہ کرنے والے کا حریص اور لالچی ہونا ثابت ہو رہا ہے۔ اسی طرح: ’’طعن اغیار ہے، رسوائی ہے، ناداری ہے‘‘ سے پتا چلتا ہے کہ شاکی کو اپنی بد اعمالیوں اور خامیوں کا احساس نہیں اور نہ اٍس پر وہ شرمندہ ہے۔ اس کے لیے تو صرف لوگوں کی اٹھتی ہوئی انگلیاں وجہِ تکلیف بن رہی ہیں۔ شاکی کی ذہنی کیفیت اس سے بھی واضح ہوتی ہے کہ ایک طرف تو اسے غیروں کے خزانے معمور ہونے پر کوئی شکایت نہیں۔ ’’یہ شکایت نہیں، ہیں ان کے خزانے معمور‘‘ اور دوسری طرف وہ اپنے دل میں دولتِ دنیا کی حرص بھی رکھتا ہے ’’کیوں مسلمانوں میں ہے دولتِ دنیا نایاب‘‘۔
یہ اندازِ بیان در اصل مسلمانوں کے دل میں احساسِ زیاں اور غیرت ملی پیدا کرنے کی فن کارانہ کوشش ہے۔ نفسیاتی حربے کی ایک مثال ۲۲ ویں بند میں ملتی ہے۔ پہلے چار مصرعوں میں شاکی نے دبے دبے الفاظ میں اپنی کوتاہی کا اعتراف کیا ہے۔ مگر وہ اس اعتراف کا علانیہ اظہار نہیں کرتا اور کرے بھی تو کیسے ؟ اس طرح تو اس کا اپنا موقف کمزور ہو گا۔ لہٰذا وہ اپنی کمزوری سے توجّہ دوسری طرف منعطف کرانے کے لیے فوراً (نفسیاتی حربے سے کام لیتے ہوئے) مخاطب کو طعنہ دیتا ہے کہ تم غیروں سے شناسائی رکھنے والے ہر جائی ہو۔
تغزل
اقبال بھی دیگر ہم عصر شعرا کی طرح ابتدا میں ایک غزل گو شاعر تھے اور داغؔ سے باقاعدہ اصلاح لیتے تھے۔ رفتہ رفتہ ان کی طبیعت غزل سے ہٹ کر نظم کی طرف مائل ہو تی گئی۔ فنی اعتبار سے غزل اور نظم میں واضح فرق ہے۔ مگر اقبال نے غزل گوئی سے دست کش ہونے کے باوجود غزل کی روح کو اپنی نظموں میں بھی برقرار رکھا۔
اقبال کی طبیعت کا شاعرانہ مزاج جسے غزل اور تغزل کے ساتھ ایک فطری مناسبت اور طبعی لگاؤ ہے، اس نظم میں بار بار اپنی جھلک دکھاتا ہے۔ بعض مقامات پر اس کا اظہار بہت بھر پور ہے:
تیری محفل بھی گئی، چاہنے والے بھی گئے
شب کی آہیں بھی گئیں، صبح کے نالے بھی گئے
دل تجھے دے بھی گئے، اپنا صلہ لے بھی گئے
آکے بیٹھے بھی نہ تھے اور نکالے بھی گئے
آئے عشاق، گئے وعدۂ فردا لے کر
اب انھیں ڈھونڈ چراغِ رخِ زیبا لے کر
بعض اشعار کو اگر نظم کے سیاق و سباق سے الگ کر کے دیکھا جائے تو وہ خالص غزل کے اشعار معلوم ہوتے ہیں:
کبھی ہم سے کبھی غیروں سے شناسائی ہے
بات کہنے کی نہیں، تو بھی تو ہرجائی ہے
بادہ کش غیر ہیں گلشن میں لب جُو بیٹھے
سنتے ہیں جام بکف نغمۂ کو کو بیٹھے
وادیِ نجد میں وہ شورِ سلاسل نہ رہا
قیس دیوانۂ نظارۂ محمل نہ رہا
ایجاز و بلاغت
’’شکوہ‘‘ کے بعض حصے، اشعار اور مصرعے ایجاز و بلاغت کا شاہ کار ہیں۔ تاریخ کے طول طویل ادوار، اہم واقعات و روایات اور مختلف کرداروں کی تفصیلی خصوصیات کو بڑے بلیغ انداز میں نہایت ہی اختصار کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، چند مثالیں:
دیں اذانیں کبھی یورپ کے کلیساؤں میں
کبھی افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں میں
تو ہی کہہ دے کہ اکھاڑا درِ خیبر کس نے ؟
شہر قیصر کا جو تھا اس کو کیا سُر کِس نے ؟
بحرِ ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے
______
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
______
مور بے مایہ کو ہم دوشِ سلیماں ؑکر دے
٭چند محسناتِ شعر:
’’شکوہ‘‘ ہمہ پہلو حسن زبان و بیان کا شاہکار ہے۔ انتخاب الفاظ، بندش تراکیب، صنعت گری، حسن تشبیہ و استعارہ، مناسب بحر، موزوں قوافی، وسعت معانی اور زبان و بیان کی خوبیوں کے سبب نظم اس قدر دل کش اور جذبہ انگیز ہے کہ قاری کے دل کو متاثر و متحرک کیے بغیر نہیں رہتی۔ مسلمانوں کی بدحالی و پستی کو حالیؔ نے بھی اپنی مسدس میں بیان کیا ہے مگر اقبال کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے تذکرے کا سپاٹ انداز اختیار کرنے کے بجائے شکوہ کا جدید انداز اختیار کیا ہے۔ اس جدتِ بیان نے ’’شکوہ‘‘ کو ایک یادگار نظم بنا دیا ہے۔ عابد علی عابد لکھتے ہیں:
’’اقبال کی طویل نظموں میں ’’شکوہ‘‘ کئی طرح سے اہم اور معنی خیز ہے۔ اس کی ساخت یا تشکیل میں اقبال نے پہلی بار اس صنعت گری کی ایک جھلک دکھائی ہے جسے بعد کی نظموں میں عروجِ کمال پر پہنچنا تھا۔ دوسرے یہ کہ اس نظم میں محسنات شعر کا استعمال ایسی چابک دستی اور ہنر مندی سے ہوا ہے کہ پڑھنے والے کی توجّہ بیشتر مطالب ہی پر مرکوز رہتی ہے‘‘۔ (شکوہ، جوابِ شکوہ: ص۷)
الف: صنعت گری:
۱: صنعت مراعاۃ النظیر: (ایسے الفاظ کا استعمال جن کو آپس میں سوائے تضاد کے کوئی اور نسبت ہو) :
نالے بلبل کے سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں
ہم نوا، میں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوں
سازِ خاموش ہیں فریاد سے معمور ہیں ہم
نالہ آتا ہے اگر لب پہ تو معذور ہیں ہم
۲۔ صنعتِ ترافق: (جس مصرع کو چاہیں پہلے پڑہیں اور معنی میں کوئی فرق نہ آئے) :
نقش، توحید کا ہر دل پہ بٹھایا ہم نے
زیر خنجر بھی یہ پیغام سنایا ہم نے
۳۔ صنعت ترصیع: (دو مصرعوں کے تمام یا زیادہ الفاظ کا ہم قافیہ ہونا):
کس نے ٹھنڈا کیا آتش کدۂ ایراں کو
کس نے پھر زندہ کیا تذکرۂ یزداں کو
۴: صنعت تلمیح: (کسی مشہور واقعے، کہانی، انسان، آیتِ قرآنی یا فنی اصطلاح وغیرہ کی طرف اشارہ کرنا) :
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمودو ایاز
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز
۵۔ صنعت طباق ایجابی: (دو ایسے الفاظ کا استعمال جو معنی کے اعتبار سے ایک دوسرے کی ضد ہوں) :
آئے عشاق، گئے وعدۂ فردا لے کر
اب انھیں ڈھونڈھ چراغِ رخِ زیبا لے کر
قوم اپنی جو زر و مالِ جہاں پر مرتی
بت فروشی کے عوض بت شکنی کیوں کرتی
ب: تصویر کاری:
تصویر کاری (Imagery) کی بہت سے مثالیں زیر مطالعہ نظم میں موجود ہیں:
آ گیا عین لڑائی میں اگر وقت نماز
قبلہ رو ہو کے زمیں بوس ہوئی قوم حجاز
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز
عہدِ گل ختم ہوا، ٹوٹ گیا سازِ چمن
اُڑ گئے ڈالیوں سے زمزمہ پردازِ چمن
ایک بلبل ہے کہ ہے محوِ ترنم اب تک
اس کے سینے میں ہے نغموں کا تلاطم اب تک
ج: تشبیہ:
’’شکوہ‘‘ میں متعدد خوب صورت تشبیہیں ملتی ہیں مثلاً:
نظم کے ۲۷ ویں بند کے پہلے شعر میں، اقبال نے امت مسلمہ کو ’’مورِ بے مایہ‘‘ سے تشبیہ دی ہے جو حد درجہ بلیغ ہے۔ فی الواقع مسلمانوں کی حالت اس بے کس چیونٹی کی سی ہو چکی ہے جسے دنیا کی ہر قوم اور ہر گروہ جب چاہے، روندتا اور مسلتا ہوا گزر جائے۔ مسلمان چیونٹی کی مانند کوئی مزاحمت یا روک ٹوک نہیں کر سکتے۔
غرض ’’شکوہ‘‘ اقبال کے ابتدائی دور کی نظم ہونے کے باو جود فنی خوبیوں اور شعری محاسن سے مالا مال ہے۔ عابد علی عابد اس کی وجہ یہ بناتے ہیں کہ ’’اقبالؒ کو آغازِ کار ہی میں ایسے ایسے اساتذہ کی صحبت میسر آئی جو مشرق کے اسلوب انتقاد کے ماہر تھے اور علوم شعری کے راز دار تھے۔ چنانچہ انھی کے فیضان سے اقبالؒ کو معانی، بیان اور بدیع کے تمام اسرار و رموز سے کامل آگاہی ہو گئی اور اس کی یہی بصیرت تھی جو آخر ہر شعری کاوش میں صنعت گری کا روپ دھار کر نمودار ہوئی… اقبال کے کلام میں صنعت گری کا وہ اسلوب مخصوص بھی نمایاں طور پر نظر آتا ہے جو مشرقی علوم شعر ہی سے منسوب ہے اور مغربی رنگ بھی جھلکتا ہے۔ کہیں کہیں دونوں میں ایسا امتزاج پیدا ہو گیا ہے کہ باید و شاید۔ (شکوہ، جوابِ شکوہ: ص۲۳-۲۴)
شکوہ کا ردّ عمل
’’شکوہ‘‘ بالکل انوکھی قسم کی نظم تھی، اس لیے ملک کے طول و عرض میں نہایت وسیع پیمانے پر مقبول ہوئی۔ علّٓامہ اقبال نے ایک موقع پر بتایا کہ کئی ہزار خطوط اس کی تعریف میں آ چکے ہیں (روداد ستائیسواں سالانہ جلسہ انجمن، ۱۶ اپریل ۱۹۱۲ء ص: ’’ب‘‘ بحوالہ: اقبال اور انجمن حمایت اسلام، ص ۸۳) عوام و خواص کی توجّہ کا مرکز بنتے ہی بہت جلد اس کا ردّ عمل سامنے آیا:
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
(سب سے اہم ردّ عمل تو خود اقبال کا تھا۔ جوابِ شکوہ کی شکل میں) عوام کا تأثر بالعموم پسندیدگی کا تھا، تاہم بعض حلقوں نے اسے خدا کے حضور گستاخی قرار دیا۔ ردّ عمل کے دونوں پہلوؤں کو مختلف شعرا نے منظوم صورت میں پیش کیا۔ جو نظمیں لکھی گئیں، ان کی کسی قدر تفصیل ڈاکٹر سید قمقام حسین جعفری کے مضمون ’’شکوہ اور جوابِ شکوہ‘‘ (ادبی دنیا: اپریل مئی ۱۹۷۱ء) میں دیکھی جا سکتی ہے۔
تمام جوابی نظموں کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ امت مسلمہ مذہب سے رو گردانی کے سبب موجودہ حالتِ زار کو پہنچی ہے۔ اب اصلاحِ احوال کی صورت یہی ہے کہ وہ اپنے اعمال و کردار کو درست کرے۔
شکوہ اور واسوخت
اردو کے قدیم واسوخت، حالی کی مسدّس ’’مد و جزر اسلام‘‘ اور اقبال کا ’’شکوہ‘‘ مسدس ہیئت میں لکھے گئے ہیں، تاہم ہیئت کی یکسانیت سے قطع نظر تینوں میں واضح فرق نظر آتا ہے۔
واسوخت اور ’’شکوہ‘‘ میں ظاہری مماثلت بہت نمایاں ہے۔ لب و لہجے اور تنظیم و ترتیب کے اعتبار سے بھی شکوہ میں واسوخت کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ سر عبد القادر لکھتے ہیں: ’’ہم شکوۂ اقبال کو واسوخت ہی قرار دے سکتے ہیں۔ ہر چند کہ اقبال کا مخاطب محبوبِ حقیقی ہے اور ان کی شکوہ سنجی، حدود و قیود سے بہت ہی کم آگے بڑھی ہے لیکن نظم کے بناؤ سنگھار کے اعتبار سے واسوخت سے قریب ہے‘‘۔ (نذر اقبال: ص ۱۴۹)
سر عبد القادر نے آگے چل کر بعض مثالوں کے حوالے سے میرؔ کے واسوخت اور ’’شکوہ‘‘ کی باہمی مماثلت دریافت کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’مجازی اور حقیقی محبوب کے اختلاف کے باوجود، مذکورہ بالا اشعار میں میرؔ اور اقبال کی لَے مل جاتی ہے۔ معنوی اعتبار سے وہ ایک دوسرے کے ضمیمے نظر آتے ہیں۔ (نذر اقبال: ص ۱۵۳)
اس میں شبہہ نہیں کہ میرؔ کے واسوخت اور ’’شکوہ‘‘ کے بعض مصرعوں، اشعار اور کئی بندوں میں میرؔ اور اقبالؔ کے ہاں یکسانیت کا احساس ہوتا ہے۔ (ممکن ہے کہ شکوہ کی تشکیل و تحریر کے زمانے میں میرؔ کی واسوخت غیر شعوری طور پر اقبال کے ذہن پر اثر انداز ہوئی ہو۔ بہر حال اکابرِ ادب کے ہاں اس طرح کی مماثلتوں کا پایا جانا انوکھی بات نہیں) تاہم معنوی اعتبار سے ان میں نمایاں فرق ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ میرؔ محبوب مجازی سے نہایت بے تکلفانہ انداز میں مخاطب ہوئے ہیں، قدرے تلخ و ترش لہجے میں اس سے برہمی کا اظہار کرتے ہیں اور پھر اس سے علاحدگی اختیار کرنے کی دھمکی بھی دیتے ہیں۔ اقبال کے لیے یہ لہجہ اپنانا مشکل تھا۔ ان کا خطاب ذاتِ باری تعالیٰ سے ہے اس لیے ’’شکوہ‘‘ میں انھوں نے احترام و تقدیس کی ایک خاص سطح برقرار رکھی ہے۔ مزید برآں میرؔ کی واسوخت ایک لحاظ سے شخصی جذبات و احساسات کا اظہار ہے (یہ الگ بات ہے کہ ان کی تعمیم بھی کی جا سکتی ہے) اور اس کی نوعیت ایک ذاتی واسوخت کی ہے۔ برعکس اس کے ’’شکوہ‘‘ کا موضوع اجتماعی ہے۔ یہ کسی ایک فرد کی شخصی سوچ کے بجائے پوری امت مسلمہ کے ذہن کی عکاسی ہے۔
’’شکوہ‘‘ کی ہیئت روایتی ہے تاہم اپنی معنوی انفرادیت اور اسلوب کی ندرت کے اعتبار سے قدیم ادب میں ایسی شاعری کی مثال نہیں ملتی۔
’’شکوہ‘‘ ایک اعتبار سے امت مسلمہ کا مرثیہ ہے اور یہ امر قابلِ توجّہ ہے کہ ’’شکوہ‘‘ کے لیے اقبالؔ نے مسلمہ طور پر اردو مرثیے کی روایتی ہیئت (مسدس) کا انتخاب کیا۔
٭٭
حواشی
۱۔ سلجوقی، ترکمانوں کے ایک سربرآوردہ قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ سلجوقیوں نے اسلام قبول کر لیا تو انھیں بہت عروج حاصل ہوا۔ عباسیوں کے زوال کے بعد سلجوقیوں نے ممالکِ اسلامیہ کے بیشتر حصے کو ایک مرکز پر جمع کیا۔ ان کا دورِ حکومت گیارھویں سے تیرھویں صدی عیسوی تک پھیلا ہوا ہے۔ طغرل، الپ ارسلان، ملک شاہ، محمد اور سنجر نامور حکمران گزرے ہیں جو سلاجقۂ عظام کے نام سے مشہور ہیں۔ ان کی حکومت دریائے سیحون سے دریائے فرات تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس علاقے میں سلجوقیوں کے عہد میں کامل امن و امان رہا۔ اسلامی دنیا نے علمی اعتبار سے اس عہد میں بہت ترقی کی۔ اس زمانے کے اکابر علم و ادب میں غزالی، رومی، عمر خیام، عبد القادر جیلانی، انوری، نظامی، خاقانی، زمخشری اور جریری شامل ہیں۔
۲۔ ساسانی خاندان نے ۲۲۶ء سے ۶۵۱ء تک ایران پر حکومت کی۔ نوشیرواں عادل، خسرو پرویز اور بہرام گور اسی خاندان کے بادشاہ تھے۔ آخری فرماں روا یزدجر سوم کے عہد میں مسلمانوں نے ایران فتح کر کے ساسانیوں کی حکومت کا خاتمہ کر دیا۔
٭٭٭
ماخذ: کتاب ’’اقبال کی طویل نظمیں: توضیحی و تنقیدی مطالعہ‘‘
- ٭٭٭