ہائے سولہ دسمبر 2014۔ ۔ ۔ شاہدہ حسن

 

جنم لیا تھا

جو تم نے پھولوں کے شہر کی

ریشمی رُتوں میں

وہ پھول،

صحنِ چمن میں تابوت پر رکھے تھے

تمہارے بے جان مُردہ چہروں پہ

اپنا ہالہ کئے ہوئے تھے

 

وہ کیا سحر تھی!

تم اپنے بستر سے

تازہ چہروں کے ساتھ

اٹّھے تھے مُسکراتے

پہن کے پوشاکِ رنگ

نکلے تھے جب گھروں سے

تمہارے قدموں سے

آنے والے دنوں کی آہٹ لپٹ گئی تھی

 

بَس اک ذرا دیر پہلے باندھے تھے تُم نے

جوتوں کے خود ہی تسمے

 

بس اک ذرا دیر پہلے ماں نے

دئے تھے روٹی کے گرم لُقمے

لئے تھے گالوں کے جھُک کے بوسے

 

بس اک ذرا دیر پہلے تم نے

نئی کتابوں سے کاپیوں سے بھرے تھے بَستے

 

تمہاری معصوم شوخیوں سے

گلی کے رستے چہک اُٹھے تھے

تمہاری باتوں کی خوشبوؤں سے

تمہارے مکتب کے سارے گوشے

مہک رہے تھے

 

مگر درندہ صفت وہ قاتل

منافرت کے وہ سارے عفریت

جن کی سوچیں ہی بے نُمو تھیں

وہ جن کی روحیں، سیاہ رُو تھیں

فنا کی آندھی کی شکل میں

اس غضب سے جھپٹے

کہ سارے منظر کو خون ہی خون میں ڈبویا

پدر کی بینائی، خاک کر دی

ہر ایک ماں کے جگر کو نوچا

 

اے بے خطا، بے قصور روحو!

تم آ کے دیکھو

گزشتہ خونی برس کے اُس

آخری مہینے کی سولھویں کو

وہ ساری مائیں جو تم سے بچھڑیں

تمہارے تابوت کی مہک کو گلے لگائے

لہو کے اشکوں سے تر بتر ہیں

زمیں سے مایوس

آسماں کی

کسی عدالت کی منتظر ہیں

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے