INCEST کے موضوع پر دو نظمیں ۔۔۔ ڈاکٹر سید خالد حسین

 

 

ؓ        بہت کم دیکھنے میں آیا ہے کہ اردو نظمیہ شاعری میں ایک ہی غیر مسلوک جنسی موضوع پر دو ہمعصر شاعروں نے بیک وقت طبع آزمائی کی ہو اور نتیجے میں معرض وجود میں آنے والی دو نظمیں صرف تین چار برسوں کے وقفے میں ان کے شعری مجموعوں میں شامل کی گئی ہوں۔ یہ عنوان صرف انگریزی میں ہی لکھا جا سکتا ہے کہ راقم الحروف بسیار مغز پچی اور مختلف لغات کی ورق گردانی کے باوجود اس لفظ یعنی Incest کا اردو نعم البدل نہیں پا سکا۔ ’’انسیسٹ‘‘، اپنے وسیع تر معانی میں محرّمات (بیٹی، بہن، ماں ) کے ساتھ جنسی تعلقات استوار کرنا ہے۔ ان دو نظموں کے سیاق و سباق میں البتّہ یہ باپ کا بیٹی کے ساتھ ایسا زنا ہے، جسے ’بالجبر‘ نہ کہتے ہوئے بھی consensualیعنی ’رضامندانہ‘ نہیں کہا جا سکتا۔ دونوں نظموں میں باپ ہی بیٹی کو اپنی ہوس کا نشانہ بناتا ہے۔

یہ نظمیں دو مقتدر شعرا ساقی فاروقی اور ستیہ پال آنند کی ہیں۔

یہ مضمون اضافی حیثیت سے تصحیفی ہوتے ہوئے بھی ایک value-oriented تقابلی مطالعہ نہیں ہے، یعنی اس میں راقم الحروف کا پیمانہ اخلاق پروری یا اخلاق سوزی کا نہیں ہے، جس سے یہ ثابت کیا جا سکے کہ ایک نظم مذہب کی رو سے یا معاشرے کی اقدار کی رو سے دیکھی جا سکتی ہے یا نہیں۔ دونوں نظمیں کامیاب ہیں اور دونوں شعرا کے الگ الگ اور منفرد اسلوبیاتی طرز نگارش کے پیمانے پر پوری اترتی ہیں۔ بیانیہ کی جزویات، زبان کا رکھ رکھاؤ، استعاروں اور علامتوں کا استعمال، بنیادی اسٹرکچر کی نامیاتی وحدت، دو کرداروں (باپ اور بیٹی) کا حاضر اور موجود یا غیر حاضر اور غائبانہ ذکر، ’کہانی‘ کے فارمیٹ میں ان کی پیوستگی، مرکزی واقعہ یعنی جنسی فعل کی تفصیلات کی عینی شہادت ؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ( وقائع نگاری یا عبارت آرائی؟) یا۔ ۔ ۔ (۔ ایک تخلیقی لمحے کا شعری اظہار ) کس طرح ہو، یہ امور یقیناً زیر بحث رہیں گے۔ ارسطو کی بوطیقا سے لے کر آج تک متعدد اہل فکر و نظر نے کہا ہے کہ کوئی بھی شعری کاوش اس وقت تک شعری نہیں ہوتی جب تک کہ وہ جذبے کو کانسیپٹ میں تبدیل کرتے ہوئے شعری اظہار کی مختلف جہتوں کو بروئے کار نہ لائے۔ اس میں لفظیات کی سطح پر موزوں الفاظ کا استعمال، پیکر تراشی اور تصویر سازی کی سطح پر استعارہ اور امیج پیٹرن، اور علامت و رمز کی سطح پر symbolic relevance کچھ شرائط ہیں جن سے فرار ممکن نہیں ہے۔

تقابلی مطالعے کے دو معروضی طریق کار ہیں جو جامعات کی سطح پر ادبی تنقید و تحقیق کے طلبہ کے لیے سیکھنے لازمی ہیں ۔ ایک item by item comparison/contrast ہے۔ دوسرا block by block comparison/contrast کی اصطلاح کے زیر آتا ہے۔ چونکہ یہ مضمون، تحقیق کے حوالے سے نہیں، بلکہ صرف تنقید یا تجزیہ کے طور پر تحریر کیا جانا مقصود ہے، میں حسب ضرورت دونوں طریقوں کو استعمال میں لانے کی کوشش کروں گا۔ لیکن پہلے دونوں نظموں کو قارئین کے سامنے پیش کرنا ضروری ہے۔ بسم اللہ کے طور پر ستیہ پال آنند کی نظم پہلے پڑھیں۔

 

سینگ

________________________________________

(مشمولہ ’’میرے اندر ایک سمندر‘‘، مطبوعہ 2007ء)

 

کیا ہوا تھا رات کو؟ کچھ کچھ تو اس کو یاد آیا

دھند تھی ہر سمت، لا محدود، گہری

گرم کمبل سا اندھیرا جسم کو اوڑھے ہوئے تھا

خون کی گردش میں جیسے آگ بہتی جا رہی تھی

پھر یکایک اک دہانہ

آگ اگلتے، کھولتے آتش فشاں کا کھُل گیا تھا

اور اندر سے اُبلتا

آتشیں لاوا اُمڈتا آ رہا تھا

ذہن اس کا

ماورا اپنے بدن سے

اونچا اُٹھ کر دیکھتا تھا

نیچے کیا کچھ ہو رہا ہے !

اس کی بیٹی اپنے بیڈ پر نیم عریاں، خون میں لتھ پتھ پڑی ہے

اور وہ مدہوش سا بیٹی کے بستر سے اتر کر جا رہا ہے

تشنگی، لذت پرستی سے تشّفی تک کا جادہ طے ہوا ہے۔

یہ اندھیری رات کا قصّہ تھا، اور اَب

روشنی ہے صبح کی۔ ۔ ۔ آتش فشاں بے سُدھ پڑا ہے

جسم اپنی آگ میں خود جل چکا ہے !

کیساhang-over ہے یہ؟ وہ سر پکڑ کر پوچھتا ہے

کیا ہوا تھا رات کو؟

کچھ تو ہوا تھا!

اور پھر جیسے یکایک

ذہن نے سب کچھ اگل ڈالا اچانک

اس کو متلی آ گئی، اور تھرتھرا کراس نے آنکھیں بند کر لیں

چونک کر پھر کھول دیں۔ خود سے کہا

’’میں جانتا ہوں

میں نشے میں تھا، مگر جو کام مجھ سے ہو گیا ہے

وہ فقط شیطان کا خاصہ ہے، آدم کا نہیں ہے !‘‘

حرف اوّل کی طرح

شیطان کا جب نام اس کے منہ سے نکلا، تو یکایک

دھند بالکل چھٹ گئی، اور چین کا اک سانس لے کر

اس نے سوچا

ایسے قصّے روز کا معمول ہیں سوسائٹی میں

کیا ملے گا مجھ کو اب افسوس کر کے ؟

آج دفتر دیر سے پہنچوں گا، لیکن

اب اُٹھوں، تیّار ہو لوں !

شیو کرنے کے لیے آخر اٹھا، تو

اپنا چہرہ آئینے میں دیکھ کر گھبرا گیا وہ

اس کی کنپٹیوں پہ اس کی جلد کچھ اکھڑی ہوئی تھی

اور اندر سے کوئی اک کھُردری سی چیز۔ ۔ ۔ ۔ ۔

شاید سینگ اُگتے آ رہے تھے !

ٓؓ

اب ساقی فاروقی کی نظم دیکھیں۔ نظم بمعہ درون قوسین، سرخط  ’’نوٹ‘‘ ءسمندر‘‘، مطبوعہ 2007ئکے بجنسہ پیش کی جا رہی ہے۔

 

شہناز بانو دختر شہباز حسین

________________________________________

 

(مشمولہ ’’شاہ دولہ کا چوہا اور دوسری نظمیں۔ مطبوعہ 2009ء)

 

(یوں ہے کہ مغرب کی طرح مشرق میں بھی محرم کے ساتھ زنا کی شرم ناک وبا عام ہے۔ یہ نظم لاکھوں کروڑوں بے زبانوں کو زبان دینے کی ایک کوشش ہے۔ ساقی)

 

وہ غصّہ کی سُرخ شال میں

طرح طرح کے اندیشوں میں گھِری ہوئی

کسی بھڑکتے شعلے کے مانند

لرز رہی تھی

دھیان کے دھُندلے بائسکوپ میں

رات کی خونیں تصویریں متحرک تھیں :

وہ دزدانہ کمرے میں آئے تھے

بتّی اُجال کے

آہستہ آہستہ

اُس کی شلوار اُتاری تھی

ننگی پنڈلیاں تہہ کر کر کے

جانگھوں کے متوازی کر دی تھیں

دونوں گھُٹنے ڈھال ڈھکیل کے

ناف کے اوپر

ننھے مُنّے پستانوں کے برابر

تک لے آئے تھے

پھر اس کے ممنوعہ گُتھّے علاقے میں

جبراً سما گئے تھے

 

وہ رانوں کی زنجیروں میں قید

سولہہ سالہ تنگ عمودی

شرمیلی سی بیر بہوٹی

رنگ چھوڑ کے

بلبلا کے بِلک پڑی تھی۔ ۔ ۔ ۔

 

(اس افسردہ فلیش بیک میں

بقیہ

صرف بلیک آؤٹ کا پہرہ تھا

اب تک بے ہوشی طاری تھی

یاد معطّل ہوتی جاتی تھی)

سوچتے سوچتے

سبز آنکھوں میں خون اتر آیا

 

اور بارہ گھنٹوں میں بارہ صدیاں بیت گئیں

اپنی آگ میں لوٹ پوٹ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اچانک اُٹھ کر

باپ کے کمرے میں درّانا چلی گئی

ڈری ڈری سی باہر آئی

دائیں ہاتھ میں لال چھری تھی

بائیں ہاتھ میں ایک مردہ سا

ختنہ شدہ ساچوہا تھا

اور ابّا جی

بھَل بھَل بہتے خون میں لَت پَت

پڑے ہوئے تھے

 

مجھے اگر واحد متکلم ’’مَیں ‘‘ کی سمیہ کنیت میں بات کرنے کی اجازت دی جائے تو میں کہوں گا کہ یہ دو نظمیں ایک ہی موضوع، یعنی اپنی ہی دختر سے زنا کاری کے موضوع کو شعری گرفت میں لیتے ہوئے بھی بُعد المشرقین ہیں۔ مجھے حسب ذیل نکتہ ہائے اختلاف و مغائرت نظر آئے۔ پہلے point by point comparison/contrast کے طریق کار سے کچھ نکتوں کو دیکھتے ہیں۔

(۱)    موضوع ایک ہوتے ہوئے بھی مضمون اور (اگر کوئی moral یا اخلاقی پیغام اخذ کیا جا سکتا ہے، تو)، جزویات سے گریز کرتے ہوئے، یعنی مجموعی طور پر، ستیہ پال آنند اور ساقی فاروقی کی نظموں میں ایک ہی ہے۔ ساقی فاروقی تو صریحاً، بلکہ ببانگ دہل، اپنے سر خط نوٹ میں اس کا اعلامیہ پیش کرتے ہیں۔ اس فعل کو ’’شرمناک وبا‘‘ کہتے ہیں اور اپنی نظم کو اخلاقی اور تبلیغی رتبہ دیتے ہوئے کہتے ہیں    : ’’یہ نظم لاکھوں کروڑوں بے زبانوں کو زبان دینے کی ایک کوشش ہے۔ ‘‘

بر خلاف اس کے ستیہ پال آنند ایسا کچھ نہیں کہتے لیکن مقدس انجیل کے قول کے مطابق محرم کے ساتھ زنا کے فعل کو شیطان کا فعل گردانتے ہوئے زانی باپ کی کنپٹیوں پر سینگوں کو

مطبوعہ 2009ئاُگتے ہوئے دکھا کر اپنی مقصد برآری کی تکمیل کر لیتے ہیں۔

(۲)    اس مقصد کے حصول کے لیے ساقی فاروقی صراحت اور صاف بیانی سے کام لیتے ہوئے رمز، اشارہ، کنایہ، علامت وغیرہ پر مکمل تکیہ نہیں کرتے، اور ابہام کو ایک ہاتھ کی دوری پر رکھتے ہیں، ۔ دوسری طرف ستیہ پال آنند، انجیل کی تعلیمات پر استوار (مذہبی؟ دیومالائی؟)قصّے fable کو مثالی داستان parableکے چوکھٹے میں رکھ کر ایک پینٹنگ کی طرح آویزاں کرتے ہیں۔

(۳)   ساقی فاروقی اور ستیہ پال آنند، دونوں کی، زمان اور مکان کے بارے میں نشاندہی صاف اور غیر مبہم ہے۔ ساقی اس کو پاکستان یا ہندوستان کی سر زمین میں پیوست کرتے ہیں۔ مسلم معاشرے میں حسب و نسب کی شناخت کے ساتھ منسوب کرتے ہیں۔ (نظم کا عنوان ’’شہناز بانو دختر شہباز حسین ‘‘ ہے ) معاشی یا معاشرتی لحاظ سے یہ کنبہ متوسط طبقے کی نچلی، وسطی یا اوپری سطح ہو سکتا ہے۔ زمانہ حال کی کہانی تصور کرتے ہوئے بھی قاری کو کوئی تردّد نہیں کرنا پڑتا۔ دوسری طرف ستیہ پال آنند کی نظم مغرب کی سوسائٹی کے نسبتاً اونچے درجے کے کنبے کی کہانی ہے (باپ، شام کو شراب پیتا ہے، رات کو دیر سے گھر آتا ہے، صبح اُٹھ کر شیو کرتا ہے، دفتر جاتا ہے، وغیرہ)۔ مسلم یا عیسائی مذہب کی کوئی نشاندہی نہیں کی گئی، لیکن انجیل کے حوالے سے شیطان کا استعارہ اس کنبے کو عیسائی تسلیم کرنے پر آمادہ کرتا ہے۔

(۴)   ستیہ پال آنند کی نظم میں ناظر کا کیمرہ زنا کا مرتکب ہونے والے والد پر مرکوز ہے۔ صبح اُٹھ کر والد کیا کرتا ہے، کیا سوچتا ہے، کیسے اپنے فعل کو ’’جائز‘‘ ٹھہراتا ہے اورکیسے اسے سوسائٹی کا ایک عام واقعہ سمجھ کر اس سے قطع تعلق کرنے میں ہی اپنی بھلائی سمجھتا ہے۔ ساقی فاروقی کی نظم میں یہ کیمرہ بیٹی پر مرکوز ہے۔ وہ کیا سوچتی ہے اس امر کی کوئی نشاندہی نہیں کی گئی، وہ کیا کرتی ہے، اس کا ذکر البتہ تفصیل سے موجود ہے۔ دونوں نظموں میں کنبے کے دیگر افراد یعنی ماں، بھائیوں، بہنوں کا کوئی ذکر نہیں ہے۔

(۵)   ستیہ پال آنند کی نظم واقعے کی، یعنی زنا کی چشم دید شہادت نہیں دیتی۔ یہاں تک کہ لفظ ’’زنا‘‘، ’’مباشرت‘‘ سے پرہیز کیا گیا ہے۔ ساقی فاروقی کی نظم میں کیمرہ یا کیمکارڈر بیٹی پر مرکوز ہونے کے باوجود، کیمرہ مین یا فلم فوٹوگرافر اپنی طرف سے اس کے جسم کو مختلف زاویوں کو پیش کرتا ہے۔ (ظاہر ہے کہ بیٹی نہ ہی اپنے جسم کو خود دیکھ سکتی ہے نہ ہی اس سین کی اتنی گرافک ڈیٹیل   graphic detailفلم بندی کر سکتی ہے، جتنی کہ ایک ناظر یعنی کیمرہ مین کر سکتا ہے۔

ساقی فاروقی اورستیہ پال آنند جدید نظم کے معتبر نام ہیں۔ دونوں حسب ضرورت، کفایت شعاری سے یا فراخدلی سے امیجری کی سطح پر ساکن یا متحرک امیجز پیش کرتے ہیں۔ ، مختلف ہوتے ہوئے بھی اس امیج پیٹرن کا سوتا ایک ہی سر چشمے سے پھوٹتا ہے۔ یعنی دونوں تصویری مفاہیم پر قادر ہیں اور معانی کی ترسیل کے لیے تمثال نگاری کا سہارا لیتے ہیں۔ اس لیے اب ہمیں دونوں منظر ناموں کے تصویری مفاہیم کو دیکھنا ہو گا۔

(۱)    واقعے کی باز آفرینی سے متعلق ستیہ پال آنند نے بے حد کفایت سے کام لیا ہے۔ صرف تین سطریں ہیں۔ ان میں بیٹی کے جسم کے بارے میں کوئی خاکہ نہیں کھینچا گیا، جس سے اس کی عمر، باکرہ ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں کچھ علم نہیں ہوتا۔

اس کی بیٹی اپنے بیڈ پر نیم عریاں، خون میں لتھ پتھ پڑی ہے

اور وہ مدہوش سا بیٹی کے بستر سے اتر کر جا رہا ہے

تشنگی، لذّت پرستی سے تشّفی تک کا جادہ طے ہوا ہے

 

ان سطروں میں بیٹی کی تصویر صرف دو الفاظ یعنی ’’نیم عریاں ‘‘، ’’خون میں لتھ پتھ‘‘ سے عبارت ہے۔ یہ تصویر اس سے آگے، یعنی جسم کی جیومیٹری کے زاویوں، قوسوں، ابھاروں تک نہیں بڑھی۔ راقم الحروف کے لیے یہ بات قبول کرنا مشکل ہے۔ کیونکہ ستیہ پال آنند اپنی جزویات نگاری کے لیے معروف ہیں۔ تو انہیں کیا مشکل پیش آ گئی کہ اس موقعے کو، جہاں وہ اپنی تصویر سازی کی قدرت کا مظاہرہ کر سکتے تھے، انہوں نے ہاتھ سے جانے دیا اور صرف تین سطروں میں ہی یہ فرض ادا کرنے کے بعد، اس سے ہاتھ کھینچ لیا؟ اس سوال کا جواب اس میں مضمر ہے کہ وہ بیٹی کے ساتھ زنا بالجبر کے فعل بد پر نہیں، بلکہ اس فعل کے خمیازے پر اپنی پوری قوّت صرف کرنا چاہتے تھے۔ زنا کی تصویر سازی ان کا نصب العین نہیں تھا۔ اس گناہ کبیرہ کی سزا کیا ہے، یعنی مقدس انجیل کے قول کے مطابق، اس کی تشریح و توضیح کے شعری اظہار کو وہ اپنا فرض سمجھتے تھے، نہ کہ زنا کے دورانیے میں بستر پر بے سہارا پڑی ہوئی بیٹی کی ’تصویر نگاری‘ کو۔

برخلاف اس کے زنا کے واقعے سے متعلق ساقی فاروقی کی نظم میں بیٹی کی یادداشت کا لوٹ آنا، جسے ساقی ’’فلیش بیک‘‘ کی سِنماٹوگرافی کی اصطلاح سے واضح کرتے ہیں، تفصیل اور پراگندگی کا ایک نادر نمونہ ہے۔ یہ بیانیہ باصری پیکر سازی کا ایک جامع مرقع ہے۔ جو الفاظ استعمال میں لائے گئے ہیں ان سے ایک واضح تصویر ابھرتی ہے، جو دو سطحوں پر دیکھی جا سکتی ہے۔ جسم کی جیومیٹری پہلی سطح ہے اور باپ کی نفسانی خواہش کی تکمیل کے واقعے کے بعد بیٹی کا رّد عمل یعنی اس کے ہاتھوں سے باپ کے عضو تناسل کے کاٹ لیے جانے کا عمل دوسری سطح ہے جس سے تصویر مکمل ہوتی ہے۔ زنا کا منظر نامہ یہ ہے

 

وہ دزدانہ کمرے میں آئے تھے

بتّی اُجال کے

آہستہ آہستہ

اس کی شلوار اُتاری تھی

ننگی پنڈلیاں تہہ کر کر کے

جانگھوں کے متوازی کر دی تھیں

دونوں گھُٹنے ڈھال ڈھکیل کے

ناف کے اوپر

ننھے منے پستانوں کے برابر

تک لے آئے تھے

پھر اس کے ممنوعہ گُتھّے علاقے میں

جبراً سما گئے تھے۔

وہ رانوں کی زنجیروں میں قید

سولہ سالہ تنگ عمودی

شرمیلی سی بیر بہوٹی

رنگ چھوڑ کے

بلبلا کے بلک پڑی تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

(۲)    میں ہر سطر کی تشریح کو ایک اضافی فعل سمجھتا ہوں۔ اس کی ضرورت نہیں ہے، کیوں کہ ہر سطر خود کفیل ہے۔ دزدانہ کمرے میں آنا، بتی اجالنا، آہستہ آہستہ اس کی شلوار اتارنا، ننگی پنڈلیاں تہہ کر کے جانگھوں کے متوازی کرنا، دونوں گھُٹنوں کو ناف کے اوپر ’’ننھے مُنے پستانوں ‘‘ کے برابر کرنا اور پھر دخول کا عمل ’’اس کے ممنوعہ گُتھّے علاقے میں ‘‘ جبراً سما جانا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ frame by frame slidesہیں جو کیمرہ مین یعنی the all-seeing poetکی چابکدستی کا ثبوت کا جیتا جاگتا ہیں۔ اسلوب کی سطح پر الفاظ کا استعمال سونے پر سہاگے کا کام دیتا ہے۔ ’’ننھے مُنے پستان‘‘ بیٹی کی عمر کا پتہ دیتے ہیں۔ وہ ایک باکرہ ہے، اس کا اندازہ ’’سولہہ سالہ، تنگ عمودی‘‘ جیسے الفاظ سے ہوتا ہے باکرہ سے عورت میں تبدیل ہونے کا عمل وہ ’’خونی تصویر‘‘ ہے جس میں اس عمل کی مماثلت ایک بیر بہوٹی کو ہاتھ میں لے کر مسلنے سے ہے۔ سب جانتے ہیں کہ بیر بہوٹی اپنا گہر اسرخ رنگ انگلیوں پر چھوڑ جاتی ہے۔ ’بیر بہوٹی‘ سے عورت کے اندام نہانی کی مماثلت بھی تصویری مفہوم کی حامل ہے۔

الفاظ کے استعمال میں ساقی فاروقی کو یدّ طولیٰ حاصل ہے۔ ’ٹانگوں ‘ کی جگہ ’جانگھوں ‘، ’ کھینچنے ‘ کی جگہ ’ڈھال ڈھکیل‘ اور ایسے چھ سات دیگر الفاظ یا اصطلاحات اس پر داعی ہیں۔ جسم کے نچلے حصے کو ’ممنوعہ گُتھّا علاقہ‘ کہنا بھی ساقی کا ہی کمال اظہار ہے۔ ’بائسکوپ‘ کی انگریزی اصطلاح جو ساقی نے استعمال کی ہے، دو الگ الگ الفاظ سے مل کر بنی ہے۔ ’بائی‘ اور ’سکوپ‘، یعنی دو آنکھوں سے دیکھا جا سکنے والا فلم بند منظر۔ ’سِنیما‘ بھی’ سنیما سکوپ ‘کا ہی مخفف ہے۔ مختصراً یہ کہ ساقی فاروقی زنا کے منظر کی فلم بندی میں s minutest detail باریک ترین جزئیات تک نہیں بھولتے۔

 

(۳)   دوسری طرف ستیہ پال آنند یا تو اخلاقی قدروں کی بھول بھلّیاں میں پھنس کر اظہاریہ کی سطح پر ایسی تصویر سازی یا تمثال نگاری نہیں کر سکے جیسی کہ ساقی فاروقی نے کی ہے، یا کوئی اور وجہ مانع آ گئی تھی۔ میرے خیال میں ستیہ پال آنند جیسے منجھے ہوئے فنکار (وہ ساقی فاروقی سے اپنی طبیعی اور ادبی عمر میں تین چار برس بڑے ہیں ) سے قطعاً یہ سہو نہیں ہوا۔ ان کی نظم بیٹی کے ساتھ زنا بالجبر کے بارے میں ہوتے ہوئے بھی جب اصل موضوع کی علاقہ بندی کرتی ہے تو ظاہر ہوتا ہے کہ شاعر کا مطمع نظر تو ’’شیطان کا انسانی قالب میں حلول ‘‘ ہے اور یہ خود ساختہ داستان جو ایک پیرابل parable ہے، صرف اس مفروضے کو شعری اظہار میں ڈھالنے کے لیے گھڑی گئی ہے۔ یاد رہے کہ معروف اسکالر ڈاکٹر اے عبد اللہ نے ستیہ پال آنند کی اس نظم پر عملی تنقید کے اپنے ایک مضمون (مشمولہ ’’ستیہ پال آنند کی تیس نظمیں ‘‘ مرتبہ بلراج کومل) میں یہ انکشاف کیا تھا کہ ستیہ پال آنند کی یہ نظم مارمن عیسائی فرقے Marmon Christian Sect کی تعلیمات سے متاثر ہو کر لکھی گئی ہے۔ اس فرقے کی انجیل مختلف ہے اور جنسی بے راہ روی کو گناہ کبیرہ قرار دیتے ہوئے موت کی سزا تجویز کرتی ہے، لیکن ساتھ ہی یہ بھی اسی فرقے کی تعلیمات میں شامل ہے کہ شیطان کا ایسے گناہگار کی روح پر قبضہ موت سے بھی بد تر ہے کیونکہ اب یہ گنہگار نار جہنم میں قرنوں تک جلتا رہے گا۔ سینگوں کا ایسے شخص کی کنپٹیوں پر اُگنا بھی ایک مفروضہ نہیں ہے کیونکہ مارمن بایئبل اس کی تصدیق کرتی ہے۔ یہ امر بھی یاد رکھنے   کے قابل ہے کہ پروفیسر آنند مدّت المدید تک عالمی کمپیریٹِو لٹریچر یعنی تقابلی ادب پڑھاتے ہیں اور تقابلی مذہبیات کو اس سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔

(۴) اب دونوں منظومات کی دوسری movement کو دیکھنے کا وقت آ گیا ہے۔ ستیہ پال آنند اور ساقی فاروقی دونوں کی نظموں میں یہ تکنیک ’’گریز‘‘ کی خصوصیت رکھتی ہے۔ ساقی کے ہاں یہ شہباز بانو کے رد عمل پر مبنی ہے، جس میں وہ agent of the crime یعنی اپنے باپ شہباز حسین کو قابل گرفت نہ سمجھ کر اس کے عضو تناسل کو مجرم گردانتی ہے اور اسے ’’سر کاٹنے ‘‘ کی سزا کا مستحق قرار دیتے ہوئے یہ فعل ایک ’’لال چھُری‘‘ سے سر انجام دیتی ہے اور جب باپ کے کمرے سے باہر نکلتی ہے تو اس کے ہاتھ میں ’’ایک مردہ سا ختنہ شدہ چوہا‘‘ ہوتا ہے۔ ساقی جس مردم خیز علاقے کے سپوت ہیں اس میں ’’مونڈی کاٹے ‘‘ ایک عام گالی ہے ( ’’مونڈی‘‘ کا مطلب ’’مونڈا ہوا سر ہے !‘‘ )۔ ’’لال چھُری‘‘ میں بھی افسانوی اور دیومالائی جہات مخفی ہیں، مزید برآں، سامنے کے الفاظ میں یہ ’’خون سے تر بتر چھُری‘‘ ہے۔ مضمون کے اس مرحلے پریہ ضروری دکھائی دیتا ہے کہ ہم ایک بار پھر ساقی فاروقی کی نظم کی دوسری موومنٹ کو سطر بر سطر دیکھ لیں۔

 

(اس افسردہ فلیش بیک میں

بقیہ

صرف بلیک آؤٹ کا پہرہ تھا

اب تک بے ہوشی طاری تھی

یاد معطّل ہوتی جاتی تھی)

سوچتے سوچتے

سبز آنکھوں میں خون اتر آیا

اور بارہ گھنٹوں میں بارہ صدیاں بیت گئیں

اپنی آگ میں لوٹ پوٹ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اچانک اُٹھ کر

باپ کے کمرے میں درّانا چلی گئی

ڈری ڈری سی باہر آئی

دائیں ہاتھ میں لال چھری تھی

بائیں ہاتھ میں ایک مردہ سا

ختنہ شدہ ساچوہا تھا

اور ابّا جی

بھَل بھَل بہتے خون میں لَت پَت

پڑے ہوئے تھے !

 

(۵)   منظر نامہ مکمل ہے۔ کچھ الفاظ انگریزی میں ہیں۔ فلیش بیک‘‘ سینماٹوگرافی کی اصطلاح ہے۔ ’’بلیک آؤٹ‘‘ کا مطلب ہم سب سمجھتے ہیں لیکن یہاں استعارے کے طور پر بیٹی کے ذہن کے عارضی طور پر ماؤف ہونے کی طرف اشارہ ہے۔ کچھ الفاظ روز مرہ کی زبان سے لیے گئے ہیں۔ ان میں تابع فعل کی طرح دہرائے گئے الفاظ ’’بھل بھَل‘‘، ’’لَت پَت‘‘، ’’لوٹ پوٹ‘‘ شامل ہیں جو ساقی فاروقی کے

پیدایشی وطن یعنی ہندوستان کے صوبے یو ۔ پی کے گلے کوچوں میں عام سُننے کو ملتے ہیں۔ یہ پہلے کہا جا چکا ہے کہ ساقی فاروقی کی نظم کا زمان اور مکان، عصر حاضر کا ہندوستان یا پاکستان کا اسلامی معاشرہ ہے۔ اس کو تقویت دینے کے لیے ہی ایک اور باصری امیج پیش کیا گیا ہے۔ یہ ہے، ’’ختنہ شدہ چوہا‘‘ یعنی ’’ ختنہ کیا ہوا مردہ چوہے کی طرح بے جان گوشت کا لوتھڑا‘‘۔

(۶)    ہمیں علم ہے کہ ساقی فاروقی ما بعد الطبعیاتی مضامین کو ہاتھ نہیں لگاتے۔ انہیں کتمان کی سطح پر ان مضامین سے جو ورائے چشم و ہوش ہیں، کوئی علاقہ نہیں ہے۔ اس لیے یہ ضروری تھا کہ وہ کہانی کی کڑیاں گنواتے ہوئے، شہود و کشف کی سطح پر نُمائش exhibitionism سے کام لیتے۔ لیکن وہ استعارے اور علامت سے اس کا آخری قطرہ تک نچوڑ لینے کا ہنر جانتے ہیں اور غیر منکشف کو مفقود نہیں ہونے دیتے۔ اسی لیے ان کے امیج ’سامنے کے الفاظ‘ سے عبارت ہوتے ہوئے بھی ’پیچھے کے الفاظ‘ کا اشارہ دیتے ہیں۔ اس لحاظ سے نظم کی یہ دوسری موومینٹ خود کفیل بھی ہے اور اس سے پہلے کی موومینٹ پر انحصار بھی رکھتی ہے۔

(۷)   ستیہ پال آنند کی نظم کی دوسری موومینٹ، ساقی فاروقی کی طرح ہی، اپنا فوکس نظم کے مرکزی کردار پر مرکوز رکھتی ہے۔ ساقی فاروقی کے یہاں مرکزی کردار بیٹی تھا جب کہ ستیہ پال آنند کی نظم میں مرکزی کردار باپ ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ ستیہ پال آنند، بغیر کسی سرخط ’’ نوٹ‘‘ کے، اپنی نظم کو مارمن کرسچین Morman Christian اخلاقی جامہ اوڑھا دیتے ہیں۔ اس کے لیے انہیں کسی معذرت کے سہارے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ دنیا کے تین بڑے مذاہب، صیہونی، عیسائی اور اسلام میں، چند ایک غیر اہم جزویات کے فرق کے باوجود، شیطان کا تصور ایک جیسا ہے۔ وہ اہرمن ہے، ابلیس ہے، شیطان الرجیم ہے، افعی ہے، اس کے مزاج میں شیطنت ہے، خباثت ہے، زُشتی ہے۔ ۔ ۔ لیکن ان سب سے بڑھ کر معصیت اور بدکاری ہے، غیر فطری شہوت کی طلب ہے، لواطت ہے، بد فعلی ہے، یعنی وہ سب کچھ ہے جس کا تعلق جنسی بے راہ روی سے ہے۔ اس لحاظ سے ستیہ پال آنند صرف ایک لفظ ’’شیطان‘‘سے اپنا مطلب اخذ کر لیتے ہیں۔ ساقی فاروقی کی طرح انہیں باکرہ لڑکی کے اعضا کی تصویر کشی اور زنا بالجبر کا ’’کوک شاستر (با تصویر) نہیں لکھنا پڑتا۔ اپنی داخلی خود کلامی میں باپ کہتا ہے۔

 

’’میں جانتا ہوں

میں نشے میں تھا، مگر جو کام مجھ سے ہو گیا ہے

وہ فقط شیطان کا خاصہ ہے، آدم کا نہیں ہے !‘‘

 

(۸)   اس اقبال جرم اور اس کی وجہ تسمیہ (میں نشے میں تھا) کے بعد بد فعلی کا مرتکب باپ، بقول شاعر، ’’کار بد تو خود کرے، لعنت کرے شیطان پر!‘‘کا سہارا لیتے ہوئے آدم اور شیطان کے مابین ایسے ہی تعلق کا اظہار کرتا ہے جو آدم اور اس کے خالق خدا کے مابین ہے، اور نتیجتاً وہ شیطان کو طلسمی چراغ کی لو کے دھوئیں سے ابھرتے ہوئے جِنّ کی طرح طلب کر لیتا ہے۔

 

حرف اوّل کی طرح

شیطان کا جب نام اس کے منہ سے نکلا، تو یکایک

دھند بالکل چھٹ گئی، اور چین کا اک سانس لے کر

اس نے سوچا

 

ایسے قصّے روز کا معمول ہیں سوسائٹی میں

کیا ملے گا مجھ کو اب افسوس کر کے ؟

آج دفتر دیر سے پہنچوں گا، لیکن

اب اُٹھوں، تیّار ہو لوں !

 

شیو کرنے کے لیے آخر اٹھا، تو

اپنا چہرہ آئینے میں دیکھ کر گھبرا گیا وہ

اس کی کنپٹیوں پہ اس کی جلد کچھ اکھڑی ہوئی تھی

 

اور اندر سے کوئی اک کھُردری سی چیز۔ ۔ ۔ ۔ ۔

شاید سینگ اُگتے آ رہے تھے !

 

(۹)    سینگ؟ مذہبی امور میں غیر تربیت یافتہ قاری خود سے پوچھ سکتا ہے، یہ بھی بھلا کوئی بات ہوئی؟ سینگ تو جانوروں کے بھی ہوتے ہیں۔ شیطان کا ان سے براہ راست کیا تعلق ہے ؟ مارمن بائیبل میں شیطان کی ظاہری صورت کے بارے میں لکھا گیا ہے :

Be sober, be vigilant; because your adversary the devil,

as a beast with horns, walketh about

seeking whom he may enslave.

زمانہ قبل از مسیح کی غاروں اور مندروں میں کندہ میخی یا پیکانی تصویروں میں بھی ارواح خبیثہ کے سروں پر سینگ دکھائے گئے ہیں۔ اطالوی شاعر دانتےؔ نے بھی سینگ کو شیطان کے سر کا ’’تاج‘‘ قرار دیا ہے۔ اس لیے قاری کے لیے یہ باور کرنے میں کوئی دشواری نظر نہیں آتی، کہ جانوروں کے سروں پر سینگوں کا ہونا ان کی حیوانیت کا مظہر ہے۔ کئی درجن مادہ جانوروں کے گلّے میں ’’نر‘‘ کو (جسے گلہ بان انگریزی میں stud کہتے ہیں )، بیٹی، بہن یا ماں کے ساتھ مباشرت کرنے میں کوئی قباحت نظر نہیں آتی کیونکہ ’ یہ تمیز روا رکھنا تو ’’انسان کا خاصہ ہے، شیطان کا نہیں ‘‘۔

(۱۰)  یہ شاعر کی ذہنی اپج ہے کہ زنا کاری میں ملوث باپ کو خود ہی صبح شیو کرتے ہوئے اپنی کنپٹیوں پر سینگ اُگتے نظر آئے۔ لیکن کیا یہ شاعرانہ یا افسانوی ضمیمہ ضروری ہے ؟ جی ہاں، اشد ضروری ہے، کیونکہ کسی بھی خود ساختہ مثالی داستان parable کو کسی حتمی نتیجے تک پہنچ کر ہی ختم ہونا چاہیے۔

میرا جائزہ ختم ہوا۔ میں نے حتیٰ المقدور کسی value judgment سے پرہیز کیا ہے۔ ایسا کوئی فیصلہ نہیں کیا کہ کونسی نظم بہتر ہے۔ در اصل بہتر یا کمتر تو ادبی تنقید میں لا یعنی الفاظ ہیں۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے