غزلیں۔ ۔ ۔ مصحف اقبال توصیفی

 

 

بے فکر فکرِ سود و زیاں کیا کروں گا میں

میرا نہ کوئی گھر، نہ دوکاں کیا کروں گا میں

 

اس کو کہاں سے مل گئی میری کتابِ دل

اب میں چھپوں گا اس سے کہاں ؟، کیا کروں گا میں

 

کانوں پہ ہاتھ رکھ کے اٹھا اس کی بزم سے

میری سنے گا کون یہاں کیا کروں گا میں

 

’’اپنی یہ یاد‘‘ میں نے کہا ’’اپنے پاس رکھ‘‘

لے کر اسے پھروں گا کہاں، کیا کروں گا میں

 

کوئی جہاں نہیں کہ چلا جاؤں گا وہاں

جب تو یہاں نہیں تو یہاں کیا کروں گا میں

 

مولا، مرے عطا ہو مجھے اور کوئی ٹھَور

اس لا مکاں میں لے کے مکاں کیا کروں گا میں

٭٭٭

 

 

یہ ستم اور بھی شمار کرو

اب ہمارا تم انتظار کرو

 

ہم نہ کہتے تھے بند آنکھوں سے

یوں کسی کا نہ اعتبار کرو

 

خواب انگلی پہ گن لیے۔ ۔ دو۔ ۔ تین۔ ۔ ۔

دل کے داغوں کا بھی شمار کرو

 

تم کو کچھ خبط ہے ؟ جنوں ؟َ کیا ہے ؟

ایک ہی ذکر بار بار کرو

 

آج ہے کل کہاں ملے گا وہ

بے وفا ہے وہ، اور پیار کرو!!!

 

کون آیا ہے دیکھ لو خود ہی

اپنی آنکھوں کا اعتبار کرو

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے