اُلٹی شلوار ۔۔۔ فرحانہ صادق

 

"ساب اب میرا کام ہو جائے گا نا ” اس نے دیوار کی طرف رُخ موڑا اور تیزی سے کپڑے پہننے لگی۔ "ہاں ہاں بھئی” ۔ ۔ ۔ میری سانسیں ابھی بھی بے ترتیب تھیں۔

"پھر میں پیسے لینے کب آؤں ؟” دوپٹے سے اس نے منہ پونچھا اور پھر جھٹک کر لپیٹ لیا۔

"پیسے ملنے تک تمہیں ایک دو چکر تو اور لگانے ہی پڑیں گے۔ کل ہی میں مالکان سے تمہارے شوہر کا ذکر کرتا ہوں ” میں نے شرٹ کے بٹن لگائے، ہاتھوں سے بال سنوارے اور دفتر کے پیچھے ریٹائرنگ روم کے دروازے سے باہر جھانک کر آس پاس احتیاطاً ایک طائرانہ نظر دوڑانے لگا۔ ویسے تو نیا چوکیدار وقتاً فوقتاً چائے پانی کے نام پر میری طرف سے ملنے والی چھوٹی موٹی رقم کے بدلے میں میرا خیر خواہ تھا مگر پھر بھی میں کسی مشکل میں گرفتار نہیں ہونا چاہتا تھا۔

” پھر میں کل ہی آ جاؤں ” وہ میرے پختہ جواب کی منتظر تھی۔

” کل نہیں !!! ” میں روز اس طرح یہاں آنے کا رسک نہیں لے سکتا تھا اس لئیے بس آہ بھر کر رہ گیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہائے غریبوں کو بھی کیسے کیسے لعل مل جاتے ہیں۔ ۔ ۔ میں نے نظروں سے اس کے جسم کے پیچ و خم کو تولتے ہوئے سوچا۔

” ارے سنو ! ! تم نے شلوار اُلٹی پہنی ہے۔ ” وہ چونک کر اپنی ٹانگوں کی طرف جھکی اور خجل ہو گئی۔

” اسے اتار کر سیدھی کر لو۔ میں چلتا ہوں پانچ منٹ بعد تم بھی پچھلے دروازے سے نکل جانا۔ ۔ ۔ اور ہاں احتیاط سے کوئی دیکھ نہ لے تمہیں۔ ”

زیمل خان چار سال سے ہماری فیکٹری میں رات کا چوکیدار تھا تین ہفتے پہلے فیکٹری میں داخل ہونے والے ڈاکوؤں کے ساتھ مزاحمت میں ٹانگ پر گولی کھا کر گھر میں لاچار پڑا ہوا تھا۔ مالکان اس کے علاج کے لئیے پچاس ہزار دینے کا اعلان کر کے بھول گئے تھے۔ سو اس کی بیوی اسی سلسلے میں بار بار چکر لگا رہی تھی۔ میں نے اس کی مدد کا فیصلہ کیا اور چھٹی کے بعد شام میں اسے فیکٹری آنے کا اشارہ دے دیا۔

٭٭

 

"عمر ! عمر!” اپارٹمنٹ کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے مجھے عقب سے اپنی بیوی کی آواز سنائی دی۔ اس کے اور میرے گھر لوٹنے کا وقت تقریباً ایک ہی تھا اور کبھی کبھار تو ہم اسی طرح اکھٹے گھر میں داخل ہوتے تھے۔ وہ ایک چھوٹے بینک میں کلرک تھی۔

"ایک خوشخبری ہے ” قدرے فربہی مائل وجود کو سنبھالے وہ تیزی سے اوپر آ رہی تھی۔ خوشی سیے اس کی بانچھیں کھلی جا رہی تھیں۔

” مینیجر صاحب میرے کام سے بہت خوش ہیں اور آج ہی انہوں نے میرے پروموشن کی بات کی ہے ” دروازے کے سامنے رک کر اس نے ہینڈ بیگ ٹٹولا اور چابی نکالی۔

"انہوں نے کہا ہے تھوڑا وقت لگے گا مگر کام ہو جائے گا ”

"ارے واہ مبارک ہو ” میں نے خوشدلی سے اسے مبارکباد دی۔

” تمہیں پتا ہے مجھ سمیت پانچ امیدوار ہیں، اور وہ آصفہ ہے نا وہ بھی میرے حق میں نہیں مگر ڈائیریکٹر صاحب میرے کام سے بہت خوش ہیں۔ ۔ کیوں نہ ہوں میں اتنی محنت جو کرتی ہوں اور ویسے بھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔”  وہ گھر کے اندر داخل ہوتے ہوئے بھی مسلسل بولے چلی گئی۔ میں اس کی پیروی کرتے ہوئے اس کی فتح کی داستان سے محظوظ ہو رہا تھا کہ اچانک میری نظر اس کی الٹی شلوار کے ریشمی دھاگوں میں الجھ گئیں۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے