غزلیں ۔۔۔ اسلم کولسری

 

جب میں اس کے گاؤں سے باہر نکلا تھا

ہر رستے نے میرا رستہ روکا تھا

 

مجھ کو یاد ہے جب اس گھر میں آگ لگی

اوپر سے بادل کا ٹکڑا گزرا تھا

 

شام ہوئی اور سورج نے اک ہچکی لی

بس پھر کیا تھا کوسوں تک سناٹا تھا

 

میں نے اپنے سارے آنسو بخش دیے

بچے نے تو ایک ہی پیسہ مانگا تھا

 

شہر میں آ کر پڑھنے والے بھول گئے

کس کی ماں نے کتنا زیور بیچا تھا

٭٭٭

 

سورج سر مژگاں ہے اندھیرے نہیں جاتے

ایسے تو کبھی چھوڑ کے بیٹے نہیں جاتے

 

تو جانب صحرائے عدم چل دیا تنہا

بچے تو گلی میں بھی اکیلے نہیں جاتے

 

بے حرف صداؤں کے وہ محرم تیرے ہمدم

اسکول میں جاتے ہوئے دیکھے نہیں جاتے

 

آنکھوں میں چمکتے ہیں ترے نقش کف پا

اشکوں سے بھی یہ دیپ بجھائے نہیں جاتے

 

جو پھول سجانا تھے مجھے تیری جبیں پر

بھیگی ہوئی مٹی پہ بکھیرے نہیں جاتے

 

جو زخم برستے ہیں میرے ذہن پر اسلم

لکھنا تو بڑی بات ہے سوچے نہیں جاتے

٭٭٭

 

 

ہماری جیت ہوئی ہے کہ دونوں ہارے ہیں

بچھڑ کے ہم نے کئی رات دن گزارے ہیں

 

ہنوز سینے کی چھوٹی سی قبر خالی ہے

اگرچہ اس میں جنازے کئی اتارے ہیں

 

وہ کوئلے سے مرا نام لکھ چکا تو اسے

سنا ہے دیکھنے والوں نے پھول مارے ہیں

 

یہ کس بلا کی زباں آسماں کو چاٹ گئی

کہ چاند ہے نہ کہیں کہکشاں نہ تارے ہیں

 

مجھے بھی خود سے عداوت ہوئی تو ظاہر ہے

کہ اپنے دوست مجھے زندگی سے پیارے ہیں

 

نہیں کہ عرصۂ گرداب ہی غنیمت تھا

مگر یقیں تو دلاؤ یہی کنارے ہیں

 

غلط کہ کوئی شریک سفر نہیں اسلمؔ

سلگتے عکس ہیں جلتے ہوئے اشارے ہیں

٭٭٭

 

 

سپنوں کے شرمیلے سائے، رات کا نیلا شور، من ساگر کی اور

دور کھڑا مہکائے، مسکائے، البیلا چت چور، من ساگر کی اور

 

رنگ برنگ امنگ پتنگ کی بادل سنگ اڑان، سورج کی مسکان

کرنوں کی رم جھم سے کھیلے، مست نظر کی ڈور، من ساگر کی اور

 

خوں ریزوں پر کندہ کر کے، تیرا اجلا نام، جھومیں خواب تمام

اسی لئے شب بھر رہتی ہے بھیگی بھیگی بھور، من ساگر کی اور

 

کس لمحے کی اوٹ سے پھوٹی، رت انگاروں کی، فصل شراروں کی

ابھی ابھی تو رقص میں تھے، ہر سمت سنہرے مور، من ساگر کی اور

 

سارا دن جلتا رہتا ہے خوں شریانوں میں، حسرت خانوں میں

رات ڈھلے پر میٹھا میٹھا درد لگائے زور، من ساگر کی اور

 

جب تک اشکوں سے پورا ماحول نہیں دھلتا، ذرا نہیں کھلتا

پچھلی رات کا چندا ہے یا سمے کی زخمی پور، من ساگر کی اور

 

لہروں لہروں ڈوبے ابھرے، ایک صدا گم سم، جان کہاں ہو تم ؟

دھیرے دھیرے بن جاتی ہے، جلتی بجھتی گور، من ساگر کی اور

 

ان آنکھوں کا حال نہ پوچھو، یارو، اسلم سے، ہے جن کے دم سے

ہری ہری شمعوں کی جھلمل، ساتھ گھٹا گھنگھور، من ساگر کی اور

٭٭٭

 

 

بکھرے بکھرے بال اور صورت کھوئی کھوئی

من گھائل کرتی ہیں آنکھیں روئی روئی

 

ملبے کے نیچے سے نکلا ماں کا لاشہ

اور ماں کی گودی میں بچی سوئی سوئی

 

ایک لرزتے پل میں بنجر ہو جاتی ہیں

آنکھوں میں خوابوں کی فصلیں بوئی بوئی

 

سرد ہوائیں شہروں شہروں چیخیں لائیں

مرہم مرہم، خیمہ خیمہ، لوئی لوئی

 

میں تو پہلے ہی سے بار لئے پھرتا ہوں

تن کے اندر اپنی جندڑی موئی موئی

 

جیون کا سیلاب امڈتا ہی آتا ہے

لیکن ڈھور ہزاروں، بندہ کوئی کوئی

 

رات آکاش نے اتنے اشک بہائے اسلم

ساری ہی دھرتی لگتی ہے دھوئی دھوئی

٭٭٭

 

 

 

یار کو دیدۂ خونبار سے اوجھل کر کے

مجھ کو حالات نے مارا ہے مکمل کر کے

 

دل وہ مجذوب مغنی کہ جلا دیتا ہے

ایک ہی آہ سے ہر خواب کو جل تھل کر کے

 

جانے کس لمحۂ وحشی کی طلب ہے کہ فلک

دیکھنا چاہے مرے شہر کو جنگل کر کے

 

یعنی ترتیبِ کرم کا بھی سلیقہ تھا اسے

اس نے پتھر بھی اٹھایا مجھے پاگل کر کے

 

عید کا دن ہے سو کمرے میں پڑا ہوں اسلم

اپنے دروازے کو باہر سے مقفل کر کے

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے